انور عباس انور
مسلم لیگ نواز کی قیادت نے اپنی غیر ضروری مصروفیات منسوخ کردی ہیں، وفاقی اور صوبائی وزراء ارکان پارلیمنٹ کو بیرون ملک کے سفر پر جانے سے روک دیا ہے، ارکان پارلیمنٹ اور وزرا کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں موجود رہیں ،اور زیادہ سے زیادہ عوام سے رابطے میں رہ کر انہیں اصل صورتحال سے آگاہ کریں اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مناسب اقدام اٹھائے جانے میں کسی قسم کی خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ارکان پارلیمنٹ کو اپنے حلقہ انتخاب کے تمام دیہات میں پہنچنے کی بڑی تاکید کی جا رہی ہے اور ان کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے کے لیے خصوصی اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
دس سال یا اس سے تھوڑاکم عرصہ سعودی عرب میں جلاوطنی کاٹ کر جب شریف خاندان وطن واپس آیا تو عام اندازہ یہی تھا کہ شریف خاندان خاص طور پر وزیر اعظم نواز شریف نے بہت سبق سیکھا ہے، اب وہ اخلاق سے گری سیاست اور اقتدار کے دوام کے لیے جمہوری اقدار کو داؤ پر نہیں لگنے دیں گے، وزیر اعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا بھی تھا کہ اگرکوئی کمیشن بنایا گیا اور اس نے مجھے گناہ گار قرار دیا تو مین ایک لمحہ کی تاخیر کیے بنا گھر چلا جاؤ گا،لیکن اب وزیر اعظم مستعفی ہونے کے مشوروں کو اہمیت دے رہے ہیں۔
مسلم لیگ کے کئی راہنماؤں نے تو وزیر اعطم نوازشریف کو یہی صلاح دی ہے کہ وہ مستعفی ہوجائیں اور چوہدری نثار علی خاں،احسن اقبال ،خواجہ سعد رفیق ، خواجہ آصف یا پھر حمزہ شہباز میں سے کسی کو وزیر اعظم بنا دیں اور پورا سسٹم ڈی ریل ہونے سے بچایا جائے،اطلاعات کے مطابق کابینہ اور وزیر اعظم کے انتہائی قریبی راہنماؤں اور دوستوں نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر بیگم کلثوم نواز کو رکن قومی اسمبلی منتخب کرایا جائے، تاکہ مسلم لیگ کو متحد رکھا جاسکے،اور وزیر اعظم نے اس مشورہ کو قبول کرتے ہوئے بیگم کلثوم نواز کو پارٹی رکنیت دینے اور انہیں رکن قومی اسمبلی منتخب کروانے کی منظوری دیدی ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے انتہائی اہم اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پارٹی قیادت سے رابطے میں رہیں، حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر پوری قوت سے عدالت عظمیٰ میں لڑا جائے ، بعض حلقوں میں تو یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ پیر کے روز جب عدالت عظمی میں کیس کی سماعت ہو گی تو حکومتی وکلاء عدالت عظمی کے فاضل بنچ پر جاندار ہونے کا اعتراض اٹھائیں گے اور بنچ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر یہ خبریں سچ ثابت ہوئیں اور واقعی حکومتی وکلاء نے ایسا ہی موقف اپنایا تو یہ بہت بڑی خوفناک صورتحال ہوگی۔
سوال زیر بحث ہے کہ کیا عدالت عظمی جے آئی ٹی پر لگنے والے اعتراضات کو اہمیت دے گی؟ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ یقیناًعدالت عظمیٰ جے آئی ٹی پر لگنے والے اعتراجات کو سنے گی، بہرحال آئندہ نے والے دن یعنی سوموار 17مئی سے شروع ہونے والے ہفتہ سے ملک میں سیاست اور عدالت کے میدانوں میں کافی ہلچل مچے گی،عدالت میں بھی ماحول انتہائی گرم رکھا جائے گا۔
ذوالفقا ر علی بھٹو نے قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک کے دوران قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا’’ میں انتہائی کمزور ہو ں ( کرسی کے بازو پر زوردار مکا مارتے ہوئے کہا ) لیکن میری یہ کرسی بہت مضبوط ہے‘‘ لیکن چند دنوں بعد ذوالفقا ر علی بھٹو کو کرسی سے اٹھاکر مری میں نظربند کردیا گیا۔ شیند یہی ہے کہ میاں نواز شریف کو بھی یہی باور کرایا گیا ہے کہ ان کی کرسی میں بہت طاقت ہے، اور ذرائع بتاتے ہیں کہ میاں نواز شریف کا بھی کہنا ہے کہ انہیں کمزور سمجھنے والے غلط اندازے لگا رہے ہیں، کیونکہ میں بہت مضبوط ہوں۔
حکومت اور اپوزیشن کو خطے کے حالات کو مقدم رکھے ،تاکہ ملکی قومی سلامتی کے لیے مسائل کھڑے نہ ہوں، اس حوالے سے پیپلز پارٹی کا موقف سراہے جانے کے لائق ہے، کہ اس نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی لانے کا مطالبہ کیا ہے، پیپلز پارٹی کے راہنما اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے مسلم لیگ نواز اور وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ( وزیر اعظم) اپنے منصب سے مستعفی ہوجائیں اور پارٹی کے کسی اور راہنما کو ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کرلیا جائے تاکہ سسٹم اور جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچایا جائے۔
میرے خیال میں وزیر اعظم کو سید خورشید شاہ کے اس مطالبے یا مشورے پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا چاہیے، اس کی بہترین مثال برطانیہ اور آئس لینڈ کے حکمرانوں کی دی جا سکتی ہے، برطانیہ میں تھریسا مے نے ڈیوڈ کیمرون کی جگہ حکومت سنبھالی اور نئے انتخابات کروائے اور جمہوریت کی ٹرین پٹری سے نہیں اتری۔ بات صرف معاملہ کے سنجیدہ لینے کی ہے، کیا ہم سیاسی جماعتوں کو ون مین شو رکھنا چاہتے ہیں؟ کیا پارٹی سربراہ کے بعد پارٹی کی قیادت کی اہلیت ،قابلیت اور صلاحیت رکھنے والا کوئی راہنما نہیں ہے؟
مسلم لیگ نواز میں اللہ کے فضل سے بہت سارے قابل راہنما موجود ہیں اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی پارٹی اور حکومتی معاملات سونپ دئیے جائیں تو ممکن ہے کہ وہ نواز شریف سے بہتر کارکردگی دکھائیں، لیکن اقتدار چاہے پارٹی کے اندر کا ہو یا حکومتی اقتدار ہو کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کسی اور کو بااختیار بنانے کا دل گردہ نہیں رکھتی۔۔یہ ہمارے مسائل،مشکلات اور حالات کا باعث ہیں،کہتے ہیں کابینہ کی میٹنگ جس میں وزیر اعظم نے مستعفی ہونے کے مطالبات کو مسترد کیا اس میں جب انہوں نے کہا کہ ’’میں بہت مضبوط ہوں تو ان کے چہرے پر جلال دیکھنے کے لائق تھا۔
اللہ کرے نواز شریف ذوالفقا رعلی بھٹو نہ بنیں۔۔۔ پارٹی راہنماؤ ں اور ان کے وکلا صاحبان کو بھی اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ ان کے مشورے اور دلائل کہیں انتہائی سادہ اور سیدھے وزیر اعظم کو ذوالفقا رعلی بھٹو جیسے انجام سے دوچار نہ کریں کیونکہ پاکستان بار بار ایسے تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میاں نواز شریف صاحب ! قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘کے نعروں کو سنجیدگی سے نہ لیں تو بہتر ہوگا۔
♦
2 Comments