رژن بلوچ
در حقیقت سوال یہ ہے کہ آزادی کیا ہے؟ بقولِ روسی فلسفی برلِن کے ” آزادی وہ ہے جو دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت نہیں کرتی ” میں اپنے ہر عمل میں خودمختار ہوں، کوئی بھی فیصلہ لینے کیلئے مجھے کسی کی اجازت درکار نہیں۔ لیکن جنوبی ایشیائی ممالک میں جب بھی انسانی آزادی کا موضوع زیر بحث آتا ہے تو مردوں کے لئے “سیکس” سروں پہ منڈلانے لگتا ہے ۔ جبکہ عورتیں تو ابھی اِس بات پہ اٹکی ہیں کہ آزادی ہے کیا؟ مولوی حضرات کے نزدیک سات پردوں میں چْھپ کر رہنا ہے یا بقولِ سرمایہ دار برہنہ ہونا؟ وہ اِن چیزوں میں اتنا گم ہوگئیں ہیں کہ آزادی جیسا گہرا لفظ عورت کی سمجھ سے بالاتر ہوگیاہے ۔
مجھ جیسے نا چیز نے ہمیشہ سے ہی حالات کے مارے دانشوروں کو بحث کرتے دیکھا ہے’’ عورت کی آزادی ماری جا رہی ہے ،’’ عورت بیچاری مظلوم ہے۔ لیکن یہ موضوع کبھی زیر بحث نہیں رہا کہ عورت آزادی مانگتی ہی کیوں ہے،؟ کیوں عورت نے اپنے اختیارات کسی اور کے حوالے کیے ہیں ،؟ کبھی یہ سوال نہیں اُٹھایا گیا کہ عورت مانگتی بھی اْسی سے ہی ہے جس نے کبھی دھوکہ دے کر تو کبھی چھین کر عورت کی آزادی سلب کی ہے۔
عورت نے مرد کو کبھی اپنے وجود کے لئے آزادی مانگتے نہیں دیکھا ہے ۔ کیوں کہ مرد ذہنی حوالے سے تسلیم کرچکا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک آزاد شخص ہے ۔ لیکن عورت اِس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اُس کی زندگی میں سب سے زیادہ حق اُس کا اپنا ہے، البتہ عورت بیچاری ابھی تک اِس بات پر لڑ رہی ہے کہ مجھے دوپٹہ اوڑھنا ہے کہ نہیں۔
میرے نزدیک آزادی کوئی آفاقی شے نہیں ہے آزادی انسان کی ذہنیت ہے ۔ عورت اپنی ذات میں یہ تسلیم کریں کہ آزادی کو چھین کر یا منّت کر نہیں لی جا سکتی بلکہ یہ پہلے سے ہی اُنہی کے پاس موجود ہوتی ہے، بس استفادہ کرنا آنا چاہئے۔
آج کل بلوچ عورت اور سیاست کے موضوع پر محدود پیمانے پر بحث کی ابتدا ہوچکی ہے ، اور ہو بھی کیوں نہ آخر عورت معاشرے میں 51فیصد یعنی کہ اکثریت ہیں۔ اس موضوع پر چند ایک آرٹیکل پڑھنے کے بعد ایک دوست سے بلوچ عورت اور سیاست پر بحث ہورہی تھی تو دوست نے کچھ یوں کہہ کر عورت کو بری الذمہ قرار دیا “ہماری سیاست میں سرگرم عمل رہنے والی عورتیں ابھی بھی خود کو معاشرتی پابندیوں سے آزاد نہیں کرپائی ہیں۔
ہماری سیاست میں شریک عورتیں آج بھی ایک عام عورت کی طرح ازدواجی زندگی سے منسلک ہونے کے بعد اپنی سیاسی سرگرمیوں سے مکمل کنارہ کش ہوجاتی ہیں، یا پھر اِن سرگرمیوں کو خاندان کے تابع بناتی ہیں۔ سیاست میں عدم شرکت یا کنارہ کشی کی اصل وجہ عورتوں کی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ اس فرسودہ معاشرتی نظام کے اثرات ہیں” اب بات یہاں آکر رک جاتی ہے کہ آخر عورت نے اس فرسودہ معاشرے کو اتنی اجازت ہی کیوں دی ہے کہ اُسے سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی کرنے پر مجبور کریں۔
میری ناقص رائے کے مطابق فرسودہ معاشرتی نظام کی مضبوطی میں عورت برابر کی شریک ہے جو وہ اپنے سیاسی مستقبل کے لئے مثبت قدم اُٹھا کر مستقل سیاسی عمل کا حصہ بننے کے بجائے فرسودہ نظام کے سامنے دستبردار ہوتے ہیں۔ عورت کو تصوراتی دنیا سے نکل کر یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ سیاست کرنے کا اُتنا ہی حق عورت کو ہے جتنا کہ مرد کو ہے۔ عورت کو بس یہ احساس کرنا ہوگا کہ یہ حقوق کہاں اور کیسے استعمال کریں۔ بلوچ سماج میں عورتیں بھی اُتنی ہی ذمہ داریاں نبھائیں جتنا ایک مرد نبھا رہا ہے کیوں کہ یہ سرزمین صرف مردوں کی نہیں ہے، اور اِس تحریک پہ حق صرف مردوں کا نہیں ہے۔ بلکہ اِس تحریک کا ہم عورتوں پر اْتنا ہی حق ہے جتنا اِس کا ایک مرد پر ہے۔
آخر میں یہ نہ چیز کچھ مختصر سوالات بلوچستان کے ترقی پسند پارٹیوں کے لیے چھوڑتی ہے۔ کیا ہم بر حق ہے کہ تمام ملبہ عورت پہ ڈالیں ؟ اگر عورت نے اپنا فیصلہ خود نہیں کیا یا اُس کے خوف نے عورت کو یہ قدم اُٹھانے کی اجازت نہیں دی تو اُن تمام تنظیم و پارٹیوں نے کیا کردار نبھایا جو ترقی پسند بلوچستان کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے؟
اگر اُن کی خواتین سیاسی کارکنان فرسودہ نظام کی شکار ہو گئیں یا ہورہی ہیں تو اُن کا سیاسی مستقبل داؤ پہ لگ رہا ہے تو ان ترقی پسند تنظیموں نے اِس سنجیدہ معاملے پر کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے ؟ کیا ان تنظیموں نے اپنے کارکنان کے سامنے فرسودہ سماج اور ترقی پسندانہ سماج کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے؟ فرسودہ نظام کے ازدواجی زندگی کے خلاف درس و تدریس کا عمل سرانجام دیا ہے؟ اپنی خواتین سیاسی کارکنان کو فرسودہ معاشرتی نظام کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا ہے؟ شاید ہماری نام نہاد ترقی پسندانہ سوچ بھی اِن فرسودہ روایتوں کی نذر ہوگئی ہے کہ خواتین کسی اور کی ملکیت ہے ۔
مجھ جیسی نا چیز یہ سمجھتی ہے کہ یہ تمام سوالات حل طلب ہیں ہر اُس تنظیم و پارٹی کے لئے جو ترقی پسند بلوچ سماج کا خواب دیکھتی ہے ۔پارٹی پلیٹ فارم میں اگر آج اس بحث کی ابتدا نہ کی گئی تو ترقی پسند بلوچ سماج کا خواب ایک خواب ہی رہے گا ۔
♦