پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پاڑا چنار سے گرفتار ہونے والوں کا تعلق شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے ثابت ہوا ہے جو سرحد پار افغانستان کے علاقے میں مضبوط ہو رہی ہے۔
اتوار کی دوپہر ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتےہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا پاکستان میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کا باقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں لیکن تحریک طالبان پاکستان کے چند منحرف گروپ اُن کی جانب مائل ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری لیتے ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار عبداللہ فاروقی کے مطابق میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ان کے خلاف آج سے پاکستانی فوج نے آپریشن ردالفساد کے تحت خیبر ایجنسی کی وادی راجگال میں خیبر فور کے نام سے ایک زمینی آپریشن شروع کیا ہے۔‘
اُنہوں نے آپریشن خیبر فور کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ مشکل ترین علاقوں میں شامل ہے جو 250 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور 12 سے 14 ہزار فٹ کی بلند پہاڑی چوٹیاں اِس علاقے میں موجود ہیں۔
اِس آپریشن کی اہمیت کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ یہ اِس لیے بھی بہت اہم ہے کہ افغانستان میں مضبوط ہوتی ہوئی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کا پاکستانی علاقے میں اثر روکا جا سکے۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ نے فوجی عدالتوں کے بارے میں بتایا کہ فوجی عدالتوں میں پاڑا چنار سے گرفتار ہونے والے 17 ملزمان کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں تیزی سے چلائے جائیں گے۔
اُن کے مطابق ‘ فوجی عدالتوں کی پچھلی مدت کے دوران کل 274 ملزمان کو مختلف سزائیں دی گئیں جن میں سے 161 کو سزائے موت سنائی گئی تھی اور 53 پر عمل درآمد ہو چکا ہے، فی الحال 40 مختلف مقدمات فوجی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔‘
میجر جنرل آصف غفور نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جن امریکی ممبران کانگریس نے ایوان زیریں میں پاکستان کی امداد کو مشروط کرنے کا بل پیش کیا اور منظور کرایا ہے اُن کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ انڈیا کے زیرِ اثر ہیں اور ایسے بل پہلے بھی پیش کر چکے ہیں لیکن اِس کی حتمی منظوری میں ابھی کافی مراحل موجود ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی کارکردگی اور رپورٹ سے پاکستانی فوج کا براہ راست کوئی تعلق نہیں۔
اُن کا کہنا تھا ‘یہ وہ معاملہ ہے جس کا پاکستانی فوج کا براہ راست کوئی تعلق نہیں، جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی تھی اور اُس میں دو ممبر تھے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اور اُنھوں نے محنت اور ایمانداری سے کام کیا ہے، مقدمہ زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ فیصلے کرے گی‘۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ آپریشن ایک بار پھر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کیا جارہا ہے ۔دنیا کو بتایا جا سکے کہ پاکستان کی فوج کیسے دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی ہے ۔ پاکستان آرمی جن علاقوں میں آپریشن کر سکتی ہے وہاں سے کسی کو رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہوتی۔ دنیا کو وہی کچھ بتایا جاتا ہے جو پاک فوج کے ترجمان بتاتے ہیں۔
یاد رہےکہ پاک فوج سنہ 2006 سے دہشت گردوں کے خلاف مختلف آپریشن کر رہی ہے جو آج تک جاری ہیں اور دہشت گرد بھی مسلسل اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
BBC/News Desk