آصف جاوید
پاکستان کے موجودہ مسائل لاتعداد ہیں۔ مگر ان مسائل میں سرِ فہرست مادری زبان میں تعلیم، شرح خواندگی میں اضافہ، تعلیم یافتہ اور ہنرمند افرادی قوّت کی تیّاری کا عمل ہے۔
نوے90 فی صد سے زائدپاکستانی بچّوں کی مادری زبان اردو یا انگریزی نہیں ہے۔ اوران 90 فیصد سے زائد بچّوں کو تعلیم زبردستی اردو یا انگریزی میں دی جاتی ہے۔ یہی پاکستان کا سب سے بڑا قومی المیہ ہے۔ جسے اربابِ اقتدار ماننے کو تیّار نہیں ہیں۔
بچّوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینا اسلامی تعلیمات اور اصولِ فطرت کے عین مطابق ہے۔ مگر ہم ہیں کہ نہ فطرت کی مانتے ہیں نہ دین کی راہنمائی پر چلتے ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ 70 برسوں سے قومی سطح پر ریاستی پالیسی کے تحت فطرت سے بغاوت کا عمل مسلسل جاری ہے۔
دنیامیں تعلیم عام کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے منصوبے “تعلیم سب کے لیے” میں جواہداف مقررکیے گئے ہیں ان میں سے ایک، بچوں کوان کی مادری زبان میں تعلیم دینے کے عمل کو یقینی بنانا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق زبان کے مسائل کی وجہ سے بچے اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان کے مسائل کی وجہ سے بچّے بے ساختہ اظہار نہیں کرسکتے، زبان کی رکاوٹ کی وجہ سے بچّے اپنی فطری تخلیقی صلاحیتوں کو پروان نہیں چڑھا پاتے۔ مین اسٹریم معاشرے میں گھل مل نہیں پاتے اورتعلیمی اداروںمیں اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتے ہیں، نتیجتاً دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بچوں کو مادری زبان میں ہی تعلیم دینی چاہیے تاکہ بچے اپنے دل کی بات اپنی زبان میں بلا جھجک اور روانی سے کرسکیں ۔ اور ان میں جھجک اور شرم کا مادّہ پنپنے نہ پائے۔
مادری زبان میں پیغام رسانی اور ترسیلِ علم کی اہمیت خود اللہّ تعالی‘ کے نزدیک بہت اہم ہے۔
مذہبِ اسلام کی مقدّس کتاب قرآنِ پاک میں مادری زبان کی اہمیت کے بارے میں 16ویں پارے کی سورۃمریم ، آیت نمبر 97 میں ارشادِ باری تعالی‘ ہے
فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا (۹۷)۔
اے پیغمبر ہم نے یہ قرآن تمہاری ہی زبان میں آسان بنا کر نازل کیا ہے، تاکہ تم اس سے پرہیزگاروں کو خوشخبری پہنچا دو اور جھگڑالوؤں کو ڈر سنا دو۔
پاکستان ایک کثیر الّسانی ملک و معاشرہ ہے۔ یہاں اردو کے علاوہ پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، بلوچی اور دیگر علاقائی زبانیں باقاعدہ بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ زبان صرف بولنے اور رابطے کے لئے نہیں ہوتی۔ زبان کے ساتھ ایک پوری ثقافت، رِہن سِہن، بود وباش، معاشرتی حرکیات جڑی ہوتی ہے۔ زبان، روایات، ثقافت، احساسات و جذبات کی ترجمانی، اظہارِ جذبات اور رابطے اور شخصیت کا ایک مکمّل پیکیج ہوتی ہے۔
کثیر الّسانی معاشرے میں مادری زبان ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتی ہے، اور زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ماہرین تعلیم و نفسیات کے نزدیک بچّوں کے ذہنی ارتقا کے لیے مادری زبان کے استعمال کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے، ماہرین کے نزدیک بچوں کو بنیادی تعلیم و تربیت مادری زبان میں ہی دی جانی چاہیے تاکہ بچے اپنے کلچر اور ماحول کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور اپنی زمین اور جَڑوں سے جُڑے رہیں۔ ماہرینِ تعلیم کے نزدیک مادری زبان ہی بچے کی شخصیت کے ارتقا کا ضامن ہوتی ہے، وہی اسے انسان بناتی ہے۔ مادری زبان کسی بھی ثقافت کی روح ہوتی ہے، اور روح کے بغیر انسان زندہ نہیں ہسکتا۔ مادری زبان انسان کی شناخت ہوتی ہے، اور اپنی شناخت کھو کر کوئی بھی اپنا نام و نشان مٹانا نہیں چاہتا۔
اِس تناظر میں پاکستان کی پنجابی اشرافیہ اور پنجابی عسکری اسٹیبلشمنٹ کو شرم آنی چاہیے کہ انھوں نے خود اپنے بچوں کو مادری زبان میں ابتدائی تعلیم سے محروم کرکے ، فطرت کے تقاضوں اور حکمِ الہی سے روگردانی کرکے 20 کروڑ عوام کو اپنے آبائی سماجی، ثقافتی، تہذیبی، ادبی ورثے اور ماخذ سے محروم رکھا ہوا ہے۔
پاکستان میں بولی والی جانے والی علاقائی زبانیں اپنے معروضی ماحول، ثقافت، رسم و رواج سے جڑی ہوئی ہیں۔ تمام پاکستانی زبانیں بقائے باہی کے اصول کے تحت ، آپس میں رابطے، اشتراک، جذب و انجذاب، پر چل رہی ہیں۔ کہیں کوئی تصادم نہیں ہے۔ صوفیا کرام کی تعلیمات ، لوک کہانیاں و گیت، اور علاقائی کلاسیکی ادب و موسیقی ان تمام زبانوں کو زندہ رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہیں۔ اردو قومی زبان کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ انگریزی بین الاقوامی رابطوں اور اعلی ٰتعلیم کے حصول کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اردو اور انگریزی کی اہمیت سے قطعی انکار نہیں ہے۔ مگر بچّوں کی ابتدائی تعلیم کے لئے ذریعہ تعلیم بچّوں کی مادری زبان ہی ہونا چاہئے۔ اور یہی ہمارا قومی مسئلہ ہے۔ جس کے حل کی شدید ضرورت ہے۔
گذشتہ 70 سالوں میں ہم نے بہت کچھ کھویا ہے، ہم اپنے بچٗوں کی تخلیقی صلاحتوں کو اب مزید ضائع نہیں کرسکتے۔ قومی تعمیر نو کے لئے ، خواندگی بڑھانے، تعلیم یافتہ ، ہنرمند افرادی قوّت پیدا کرنے کے لئے ہمیں مادری زبان میں تعلیم کے معاملے پرکوئی فیصلہ کرنے کے لئے بحث و مباحثہ ، ریفرینڈم اور قانون سازی کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ مادری زبان میں تعلیم دینے کے مسئلے کے حل کا یہ ایک بہترین موقعہ ہے۔
جمہوریت اپنے تسلسل میں ہے، سِول سوسائٹی، اساتذہ اکرام، اہلِ علم و دانش ، اہلِ ادب ، ٹیکنوکریٹس، سیاستدان اور مجلسِ قانون ساز پوری طرح فعال ہے ۔ ملک کو قائم ہوئے 70 سال ہوچکے ہیں۔ ان 70 سالوں میں تعلیمی اداروں اور اساتذہ اکرام کا تعلیمی تجربہ، طلباء و طالبات ، اساتذہ اکرام، والدین کے تجربات اور مشکلات کی روشنی میں قومی ترقّی کی رفتار میں نظام تعلیم اور ذریعہ تعلیم کی فعالیت کی جانچ پڑتال کے لئے اور مادری زبان میں تعلیم دینے یا نہ دینے کے مسئلے کی جانچ پڑتال اور اِس گمبھیر قومی مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل کرنے کے لئے رائے شماری، ریفرنڈم، پارلیمنٹ میں قانون سازی اور قومی تعلیمی پالیسی کی تشکیل کا سنہری موقعہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اس کو ضائع نہ کیا جائے۔
♦
6 Comments