بلوچستان : کشور ناہید کا تاریخ کے ساتھ کھلواڑ

منظور بلوچ

 
کٹی پھٹی ‘ نکالی گئیں آنکھیں ‘ بھیجہ مٹی میں اٹا ہوا ‘ ہڈیاں ٹوٹی ہوئیں کہیں یہ سگریٹوں کے داغ ‘ کہیں پہ ڈرل کئے جانے کے نشانات ۔۔۔ کون جانے ۔۔۔ کل تک جینے والا کون تھا ؟ کس گھر نے اس کو جنم دیا تھا ۔۔۔ کتنے ارمان اس کی مسکراہٹوں سے وابستہ ہونگے ۔۔۔ کتنے دلوں کی دھڑکن تھا ۔۔۔ لیکن اب اسے کوئی کیسے پہچانے ۔۔۔ ؟ جیب میں کوئی کاغذ یا کوئی دستاویز مل جائے ۔۔۔ شاید ۔۔۔ جوتوں سے پہچانا جائے ۔۔۔ یا ازار بند سے ۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔ بلوچ قوم اس عمل سے گزاری جا چکی ہے ۔۔۔ آگے کیا ہو ۔۔۔ کون جانے ؟

لیکن ۔۔۔ یہ کٹی پھٹی ۔۔۔ بے نور آنکھیں ۔۔۔ بھیجہ تو سرے سے غائب ۔۔۔ ایک ہڈی بھی نہیں سلامت ۔۔۔ نہ سر نہ پاؤں۔۔۔ کہیں پھندے سے گلے پر نشانات ۔۔۔ کوئی جانے ۔۔۔ تو کیسے جانے ۔۔۔ یہ ہماری نئی تاریخ ہے ۔۔۔ حکمرانوں اور ان کے دم چھلے درباری مورکھوں کا ہمیشہ سے یہ شوق رہا ہے کہ تاریخ کو مسخ کیا جائے ۔۔۔ اس بری طرح سے ۔۔۔ کہ کوئی جاننا چاہے تو بھی نہ جان سکے ۔۔۔ پوری دنیا میں یہ عمل ہوتا آیا ہے ۔۔۔ اور بلوچ خوش نصیب ہے کہ مسخ شدہ لاشوں کے ساتھ مسخ شدہ تاریخ اور مسخ شدہ دانش ور بھی اس کے حصے میں آئے ۔ 

پہلے پہل ہم ”جاہل “ بلوچوں کا یہ خیال تھا کہ تاریخ کا حلیہ بگاڑنے کا کام انگریز ہی کرتا ہے ۔۔۔ ہنری پوٹنگر سے لے کر جنرل ڈائر تک ۔۔۔ کیونکہ انہوں نے ہم پر حکمرانی کرنی تھی ۔۔۔ پھر ہمیں بتایا گیا کہ ان انگریزوں کا ایک منشی لالہ ہتو رام بھی تھا ۔۔۔ اس سے بھی ایک عدد تاریخ لکھوائی گئی ۔ 

بلوچ کا مسئلہ یہ بھی رہا ۔۔۔ کہ وہ جس محل وقوع میں مقید ہے ۔۔۔ اس کے باعث اس پر علم کے دروازے بند رکھے گئے ۔۔۔ وہ تاریخ میں دیر سے آیا سکولنگ سسٹم سے واقفیت بھی دیر سے ہوئی انگریزوں کے زمانے میں اخبار نکالنا تو کیا اخبار بینی پر بھی پابندی تھی ۔۔۔ جس طرح جنگ عظیم دوم میں ریڈیو سننا قابل سزا جرم تھا ۔۔۔ اسی طرح بلوچستان میں اخبار لکھنا ‘ مضمون لکھنا ‘ چھاپنا ‘ پڑھنا اور تقسیم کرنا جرم اور گناہ تھا ۔ آج بھی ہے ۔

مختلف شہروں میں کتابوں کے بک سٹالز اور کالجز کے ہاسٹلز پر چھاپے پڑتے ہیں تربت میں ڈاکٹر مالک جیسے عظیم المرتبت ”ترقی پسند “ ” مارکسسٹ “ روشن خیال “ اور ”دانشور “ کے ہاتھوں ڈیلٹا جیسی تعلیمی اکیڈمی کی بندش اور اس کا بلڈوز کیا جانا ‘ ابھی کی بات ہے ۔۔۔ ڈاکٹر مالک صاحب ۔۔۔ ترقی پسند کیسے بنے ۔۔۔ اور یہ لقب عظیم ان کو کس نے دیا ۔۔۔ اس جانب بھی بات ہوگی ۔۔۔ کیونکہ اس مضمون کا تعلق ہے کشور ناہید کے ایک حالیہ کالم سے جس میں انہوں نے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ اور ”ترقی پسندی “ سوشلزم کا بار ان کمزور اور بیچارے کاندھوں پر ڈالا ہے جو اس کے سزاوار اور گناہ گار ہو ہی نہیں سکتے ۔

بلوچستان میں صحافت ‘ میڈیا ‘ ریڈیو ‘ ٹیلی ویژن پر آبادکاروں کے قبضے کے بعد یہاں کے مقامی لکھنے والے ایک ایک کر کے منظر سے ہٹتے چلے گئے اور پھر انعام الحق کوثر ‘ امداد نظامی ‘ عرفان احمد بیگ ‘ آغا گل ‘ فصیح اقبال ‘ مقبول رانا ‘ بیرم غوری ‘ جیسے لوگ لائے گئے اور تیرہویں کھلاڑی کی حیثیت سے کچھ بلوچوں کو بھی ”دانشوری “ کے اس کھیل میں رکھا گیا ۔۔۔ اور اس کمک کار ٹیم کی کپتانی ڈاکٹر شاہ محمد مری کے حصے میں آئی اور ان کے ساتھ ساتھ افضل مراد ‘ قیوم بیدار جیسے لوگوں کو بھی رکھا گیا ۔۔۔ اور کچھ نوجوان خلیفے بھی مقرر کئے گئے تاکہ بوقت ضرورت اگر آباد کار ”دانش وروں “ پر اعتماد نہ رہے ‘ تو ان کو میدان میں اتارا جائے ۔

ڈاکٹر انعام الحق کوثر کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ وہ بلوچستان کی تمام قابل ذکر شخصیات کو بیک جنبش قلم مسلم لیگی بنا ڈالتے تھے اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ مظلوم شخصیت نواب یوسف عزیز مگسی کی ہے جس کو سب سے پہلے مسلم لیگی رہنماءکے طور پر ہمارے ”کولمبس “ کوثر صاحب نے دریافت کیا ۔۔۔ اور وہ مسلسل بلوچستان کی تاریخ کو مسلم لیگی جامہ پہناتے رہے ۔

امداد نظامی کا وصف یہ تھا کہ وہ ہر حکومت کے گن گاتے تھے حکومت جیسی بھی ہو اسے انقلابی ‘ ترقی پسند ثابت کرنے میں ان کا قلم قینچی کی طرح چلتا تھا ۔ انہی دنوں حکمران طبقات کو ایک ”ریزروڈ “ ٹیم کی ضرورت بھی پیش آئی۔ کیونکہ 70ءکے عشرے کی مزاحمتی تحریک کے زخم بھرے نہیں تھے اس لئے ان کیلئے جو شخص سب سے زیادہ قابل اعتماد ٹھہرا وہ ڈاکٹر شاہ محمد مری کے سوا کوئی اور نہیں تھا ۔

بلوچ نیشنلزم ‘ بلوچ مزاحمتی تحریک کو اول روز سے جس شخص نے نشانے پر رکھا ‘ وہ ہمارے یہی ”ترقی پسند “ دانشور تھے اور مارکسزم ‘ انقلاب کے ساتھ جو گھٹیا مذاق کئے گئے ۔۔۔ افسوس کہ ان کا تعلق بلوچستان سے جوڑا گیا۔

 آباد کار صحافی اپنا اپنا کام کر رہے تھے ‘ اب بھی کرتے ہیں ‘ حکومتوں کو بدلنا ‘ بنانا ‘ پریشر میں رکھنا جبکہ ”ریزروڈ فورس “ کا کام بنیادی طور پر مزاحمتی اور بلوچ نیشنلزم کی نظریاتی اساس پر ضرب لگانا ہے اور یہ بہتر کام بلوچوں کے اپنے لوگوں کے سوا اور کون کر سکتا ہے ۔۔۔ 
ضیاءالحق کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد نام نہاد جمہوری عمل‘ ووٹ ‘ جلسہ ‘ پارلیمانی سیاست کی وجہ ۔۔۔ حکمران طبقات بلوچ مزاحمتی تحریک کو بھول گئے ۔۔۔ لیکن بلوچ نیشنلزم کی گنجائش اب بھی نہیں تھی ۔۔۔ اس لئے اب کی جو ”دانش وری“ کی کھیپ آئی ۔۔۔ اسے عرف عام ایوارڈ وصول کنندہ گروپ کے نام سے جانا جاتا ہے جس کے سرخیلوں میں عرفان بیگ ‘ بیرم غوری ‘ افضل مراداور ان کے ساتھ ساتھ نوجوان خلیفوں کا بھی ایک سلسلہ موجود ہے ۔

اس ” کار خیر “ کے لئے جنگ اخبار کا ہفتہ وار فیچر جسے عرفان بیگ سے لکھتے ہیں ۔۔۔ ” ادبی صفحہ “ جس کے مرتب کنندہ بیرم غوری اور ایک اور مورچہ ”اکادمی ادبیات “ کا دفتر ہے جس کے ڈائریکٹر افضل مراد ہیں گو کہ اصل ڈائریکٹرز کچھ اور لوگ ہیں ۔

چونکہ لکھنے والوں کے لئے فیشن کے طور پر ”ترقی پسندی “ ” لبرل ازم “ میں زیادہ کشش پائی جاتی ہے گو کہ ترقی پسندی کا مردہ گھوڑا مختلف ہاتھوں میں تقسیم ہے اور ان سب کا ہدف نیشنلزم اور قومی تحریکیں اور بالخصوص بلوچ قومی تحریک ہے ۔۔۔ کامریڈ لال خان سے لے کر کشور ناہید کی جعلی ”ترقی پسندی “ کا سب سے آسان ہدف بلوچ ‘ ان کی جدوجہد اور ان کی تاریخ ہے ۔

گزشتہ روز کشور ناہید جو پاکستان کی صف اول کی دانش وروں میں شمار ہوتی ہیں اور افسوس کے ساتھ ان کے ساتھ فیض صاحب جیسے بڑے لوگوں کا بھی ذکر آتا ہے‘ نے بلوچ عوام کو حسب سابق ”جاہل “ سمجھ کر ‘ ایک الف لیلوی داستان کی طرز پر ترقی پسندی کی تاریخ کو بلوچستان کے نام نہاد لٹھ خانہ اور ڈاکٹر شاہ محمد مری کے کھاتے میں ڈال دیا ۔۔۔ انہوں نے اپنے کالم میں جتنی بھی باتیں کیں ‘ ان کو بلوچ عوام نے نہ کبھی دیکھا نہ سنا ۔۔۔ اور نہ ہی پایا ۔

 جس طرح پرانے زمانے میں متھسس اور اساطیر بنائی جاتی تھیں اسی طرح یہاں بھی مارکسزم اور مارکس کی تعلیمات کو بدنام کرنے کی خاطر ایک متھ کی بنیاد ڈالی گئی جسے لٹھ خانہ کا نام دیا گیا یہ لٹھ خانہ کیا تھا ؟ اس کی اصل حقیقت کیا تھی ؟ اس کے بارے میں پھر کبھی تفصیل سے بات ہوگی ۔۔۔ لیکن ترقی پسندی انقلاب کا ان لوگوں سے ناطہ جوڑنا انتہاءدرجے کی بے ایمانی اور بددیانتی ہے ۔

چونکہ کشور ناہید صاحبہ ایک ”نیک کام “ کر کے بلوچستان میں ترقی پسندی کی تاریخ ‘ لٹھ خانے اور شاہ محمد مری کو زیر بحث لائی ہیں تو اس پر کھل کر بات ہونی چاہئے ۔۔۔ کہ بلوچستان میں کون کمیونسٹ تھا ؟ یا ہے ؟

ایک نواب خیر بخش مری کے سوا ‘ جو سوشلزم اور مارکسزم کی تعلیمات کو انسان کی نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے اور وہ عالمانہ طور پر بھی ان تعلیمات سے کما حقہ واقف تھے لیکن انہوں نے بھی کبھی خود کو کمیونسٹ ‘ سوشلسٹ نہیں کہا ۔۔۔ البتہ انہوں نے طبقاتی جدوجہد کی اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ کہا کہ پہلے قومی مسئلہ کو حل ہونا چاہئے ۔۔۔ کیونکہ پہلا تضاد بلوچستان میں قومی مسئلہ ہے نہ کہ طبقاتی جدوجہد ۔۔۔ اگر کوئی اب مرحوم سردار بہادر خان بنگلزئی اور ڈاکٹر مالک بلوچ کو بھی محترمہ کشور ناہید صاحبہ کی عینک سے کمیونسٹ ‘ سوشلسٹ وغیرہ ثابت کرے ۔۔۔ تو ہنسی ہی آئے گی اور پاکستان کے صف اول کے دانشوروں کی دانش مندی کا پول بھی کھل جاتا ہے ۔

خود پاکستان میں ترقی پسندی کے خاتمے پر اب تک کوئی مدلل بات نہیں ہوئی ہے۔ فیض صاحب کی گرفتاری کے ساتھ ہی ترقی پسندی اپنے منطقی انجام کو پہنچی ۔۔۔ سوائے ایک شاعر عوام حبیب جالب کی آواز کے ‘ اور کس کی صدا گونجتی رہی ؟ ۔۔۔ خود فیض صاحب اور ضیاءالحق اور بلوچستان میں گل خان نصیر کے سابق مارشل لاءگورنر رحیم الدین کے ساتھ تعلقات کو چھپایا جاتا ہے جس ترقی پسندی کی مسخ شدہ تاریخ کو محترمہ نے بیان کیا ہے اس کے سارے کردار اپنی عمر کے کسی نہ کسی حصے میں مراعات یافتہ بنتے رہے ۔۔۔ اور بلوچ نیشنلزم کے خلاف اپنی تبلیغ کو جاری رکھا ۔۔۔ اور ان میں سے کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی ۔

یادش بخیر 1998ءمیں جب سردار اختر مینگل کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کیلئے ان کی جماعت بی این پی کو دس کروڑ روپے کی ”خطیر “ رقم کے عوض تقسیم کیا گیا تو اس تقسیم کے اصل کرداروں میں حاصل بزنجو ‘ طاہر بزنجو کے ساتھ ساتھ ” انقلابی “ لٹھ خانہ کے سردار بہادر خان بنگلزئی بھی شامل تھے جو بی این پی سے منحرف ہونے والے اراکین صوبائی اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر بنے۔ اس سے قبل وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ایم پی اے بھی بنے ۔۔۔ کیا ۔۔۔ یہ لوگ کمیونسٹ تھے ؟ کیا یہ کالم مزاحیہ کالم تھا ۔۔۔ یا اتنا ہی بے حس ‘ بے رحم ‘ ان قاتلوں کی طرح جنہوں نے بلوچ قیدیوں کو جلا کر ‘ زندہ ڈرل کر کے ‘ قتل کر کے ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیا ۔

 ایک لحاظ سے دیکھا جائے ‘ کمیونزم کے نام پر محترمہ نے ڈاکٹر مالک بلوچ کیلئے بڑی ہاتھ کی صفائی سے سوشلسٹ لیڈر بنانے کی راہ نکالی ‘ ان کے اسی ممدوح کے ہاتھوں تربت میں ”ڈیلٹا “ اکیڈمی کی لاش گرائی گئی ۔۔۔ اور اگر یہ کمیونسٹ ‘ سوشلسٹ اور ترقی پسند ہیں ۔۔۔ تو ہماری دعا ہے کہ خدا ہر صاحب ضمیر کو ترقی پسندی سے دور رکھے۔ محترمہ کشور ناہید کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی زبان ضرور قینچی کی طرح چلتی ہوگی لیکن ان کی تحریر اب اس طرح کی قینچی کا کام نہیں کر سکتی جو آج سے ایک یا دو دہائی قبل کر سکتی تھی ۔

پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ۔ 

اس سے قبل بلوچ نیشنلزم کی نظریاتی اساس پر اجمل کمال اور وجاہت مسعود بھی حملہ آور ہوئے لیکن پسپائی ان کا مقدر ٹھہری ۔ 
محترمہ ! یہ بات ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ حکمران طبقات کا بنیادی ٹکراؤقومی تحریکوں سے ہے ۔۔۔ بلوچ قومی تحریک ان کے لئے سوہان روح کا درجہ رکھتی ہے جب کے اثرات سندھ ‘ کراچی اور خیبرپختونخواءاور سرائیکی و سیب تک پھیلتے جا رہے ہیں مشال خان کا بہیمانہ قتل اس کی واضح مثال ہے ۔

اس کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ نیشنلزم کی بنیادی اساس پر ضرب کاری کی جائے ۔۔۔ خواہ مولانا طارق جمیل کے ذریعے یہ ”نیک “ کام سر انجام پائے ۔۔۔ جے یو آئی ہو یا نیشنل پارٹی ۔۔۔ پشتونخوامیپ ہو یا بی این پی ۔۔۔ رہی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ۔۔۔ وہ تو بلوچ قاتل جماعتیں ہیں لیکن نظریاتی اساس کو مسخ کرنے کیلئے تاریخ کو مسخ کرنا ضروری ہے ۔۔۔ اور اس کیلئے ”ترقی پسندی “ کے چلے ہوئے کارتوس کو استعمال میں لانے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ 

اگر حکمران طبقات میں کچھ عقل ہوتی تو وہ آپ جیسے لکھنے والوں کو بہت پہلے جبری ریٹائر کر دیتے اس لئے کہ ادب کی سطح پر بھی یہ تحریک 60کی دہائی سے آگے چل نہیں پائی ۔ ایک اکیلے شمس الرحمان فاروقی کے دلائل نے اس کو ڈھیر کر دیا ۔

اب جبکہ ساری صورتحال ہی تبدیل ہو چکی ہے اس میں پرانے اور کھوٹے سکے کس کام کے ۔۔۔ 2000ءسے قبل تک شاہ محمد مری ‘ عرفان بیگ ‘ افضل مراد کے ٹیبل کے لوگ شاید کچھ کام آتے ۔ لیکن اب یہ لوگ آج کی صورتحال سے بچھڑے ہوئے ‘ بہت دور کھڑے ہانپ رہے ہیں ۔

محترمہ ! آپ کا شکریہ ‘ کہ آپ نے اس مردہ موضوع کو چھیڑ دیا ۔۔۔ تاکہ ماضی کے حکمران طبقات کی بی ٹیم کے لوگوں کی حقیقت سامنے لائی جا سکے ۔ 
یہ کام آج کی نوجوان نسل کا تھا ۔۔۔ لیکن آپ نے جس بھونڈے اور بے بنیاد انداز میں اس مسئلہ کو اٹھایا ۔۔۔ اس کیلئے آپ کا ایک بار پھرشکریہ لیکن محترمہ ۔۔۔ ایک بات ذہین نشین رہے کہ تاریخ ہمارے سامنے بن رہی ہے۔ آپ بلوچستان سے کوسوں دور بیٹھ کر ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے غائب ہونے والے شہزادوں کے درد کو افسانہ طرازی میں نہیں بدل سکتے ۔

 یہ درست ہے کہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں ان کے ازار بندوں سے پہچانی جاتی ہیں لیکن آپ کی مسخ شدہ تاریخ کا تو ازار بند تک نہیں ۔

Comments are closed.