لیاقت علی ایڈووکیٹ
جمشید مارکر کا شمار پاکستان کے مایہ ناز سفیروں میں ہوتا ہے۔ کوئٹہ کے پارسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے جمشید کا تعلق ایک معروف کاروباری فیملی سے ہے۔ ابتدائی طور پر ان کو کرکٹ کمنٹری سے شہرت ملی تھی ۔1964میں انھیں جنرل ایوب خان کے عہد حکومت میں سیکرٹری خارجہ عزیز احمد نے فارن آ فس جائن کرنے کی آ فر کی تھی ۔ وہ وزارت خارجہ کا حصہ کیا بنے پھر انھوں نے پیچھے مڑکر نہ دیکھا ۔
اگلے تیس سال تک دنیا کے درجن بھر سے زائد ممالک میں پاکستان کے سفیر رہے۔ اقوام متحدہ میں مستقل مندوب تو کئی سال تک رہے۔ اپنے عہد سفارت پر محیط سالوں کی روائداد انہوں نے ’خاموش سفارت کاری‘ میں بیان کی ہے۔ انھوں نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، بھٹو ، جنرل ضیا ء الحق، بے نظیر ، نواز شریف اور پرویز مشرف کے ساتھ کام کیا ۔
ان کا فوکس پاکستان کے خارجہ تعلقات ہیں ۔ پاکستان کی اندرونی صورت حال کے بارے میں ان کے تاثرات بہت کم زور ہیں۔ وہ جنرل ضیا ء الحق کی انکساری اور سادگی سے متاثر ہیں اور اس کے ساتھ اپنی پہلی ملاقا ت کو بہت ’خوشگوار‘ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے بھٹو کے سب سے چھوٹے بیٹے شاہ نواز کی فرانس کے شہر نیس میں بے وقت موت کو بھی اپنی یاد داشتوں میں بیان کیا ہے۔
جب شاہ نواز کی موت کی خبر پاکستان پہنچی تھی تو ملک میں مارشل لا تھا اور جنرل ضیا ء الحق کی جابرانہ حکومت اپنے عروج پر تھی۔ آمریت کی فضا میں میڈیا پوری طرح مارشل لا کے ضابطوں کے پنجے میں تھا ۔ لہذا شاہ نواز کی موت کا الزام جنرل ضیا پر لگایا گیا اور اس الزام کو آ ج تک سچ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جنرل ضیا، بھٹو کو عدالت کے ذریعے قتل کر چکے تھے اس لئے اس الزام کو سچ تسلیم نہ کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی لیکن جمشید مارکر نے جو ان دنوں فرانس میں تعینات تھے اس الزام کو اپنی یاد داشتوں میں بے بنیاد قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ
فرانس میں بطور سفیر تعیناتی کے دوران ایک دن صبح مجھے فرانسیسی صدر مترا ں کے معاون خصوصی ڈی گروز کا پیغام موصول ہوا کہ میں انہیں فوری طور پر ملوں۔ میں جب ان سے ملا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کے عملے نے انہیں کچھ ہی دیر قبل بتایا ہے کہ شاہ نواز بھٹو نیس( فرانسیسی شہر) میں پر اسرار طور پر فوت ہوگئے ہیں۔میں نے فوری طور پر اسلام آباد کو اس بارے مطلع کیا ۔ اسلام آباد سے جواب میں مجھے حکام نے بتایا کہ محسن منظور نامی ایک افسر جو لند ن کے پاکستانی سفارت خانے میں متعین ہے نیس پہنچے گا تاکہ اس قتل کی تفتیش میں فرانسیسی حکام کی معاونت کرسکے۔اس دوران ( شاہ نواز کے قتل سے متعلق ) میں ڈی گروز اور ان کی انٹیلی جنس ٹیم کی فراہم کردہ معلومات کی مدد سے خود کو باخبر رکھتا رہا کیونکہ اس بارے معلومات حاصل کرنے کا یہ موثر ترین ذریعہ تھا۔
شاہ نواز کے قتل بارے حتمی رپورٹ واقعہ کے چھ ہفتے بعد زبانی طور پر ڈی گروز ہی نے مجھے دی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ قتل پر منتنج ہونے والے اس ڈرامے کا آغاز نیس کے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں ہوا تھا جہاں بھٹو فیملی کے تمام افراد۔ بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، مرتضی بھٹو ، صنم بھٹو اور شاہنواز اپنی بیویوں کے ہمراہ ڈنر کے لئے اکٹھے ہوئے تھے۔ڈنر کے دوران بھٹو خاندان کے مابین بہت گرما گرم بحث و مباحثہ ہوا جس کا مرکزی نکتہ مبینہ طور پر مالی امور تھے ۔
باہمی تند و تیز گفتگو نے اس قدر طول کھینچا کہ بھائیوں میں گھونسے چل گئے ۔وہاں موجود اہل خانہ نے دونوں بھائیوں کے مابین معاملہ رفع دفع کرایا اور شاہنواز اپنی بیوی کے ساتھ ہوٹل چلے گئے لیکن مرتضی بھٹو نے بھائی کا پیچھا کیا اور ہوٹل کے کمرے میں ایک دفعہ پھر دونوں بھائیوں میں لڑائی جھگڑا ہوا ۔ اس واقعہ کے کچھ دیر بعد جب فرانسیسی پولیس موقع پر پہنچی تو اس نے شاہ نواز کو ہوٹل کے کمرے میں مردہ پایا جس پر پولیس نے شاہنواز کی بیوی اور مرتضیٰ کو گرفتار کر لیا تھا۔
مرتضی بھٹو کو گرفتاری کے کچھ دیر بعد رہا کردیا گیا کیونکہ انھوں نے فرانسیسی حکام کو اپنا سفارتی پاسپورٹ پیش کردیا جو انھیں شام کی حکومت نے جاری کیا ہوا تھا۔رہا ہوتے ہی وہ فورا فرانس چھوڑکر چلے گئے تھے۔شاہنواز کی بیوی پر فرد جرم عائد کی گئی تھی کیونکہ فرانسیسی قانون کے مطابق اگر کوئی شخص مصیبت یا مشکل میں گھرے فرد کومدد اورتعاون فراہم نہ کرے تو وہ قابل مواخذہ قرار پاتا ہے۔مجھے بتایا گیا تھا کہ شاہ نواز کی بیوی نے عدالت میں دفاع کرنے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کی تھیں لیکن بعد ازاں بھٹو خاندان کے سمجھانے بجھانے پر وہ اس ارادے سے باز آ گئی تھیں۔
بعد میں دونوں خواتین( شاہ نواز کی بیوہ اور مرتضے کی بیوی) فرانس چھوڑ کر چلی گئیں۔گو کہ شاہ نواز کا پوسٹ مارٹم تو نہیں ہوا تھا لیکن مجھے فرانسیسی حکام نے بتایا تھا کہ شاہ نواز کی موت کا باعث منشیات کی زیادتی سے ہوئی تھی۔ مجھے ڈ ی گروز نے بتایا تھا کہ فرانسیسی وزیر قانون رابرٹ بیڈنٹر جو بھٹو خاندان کے قریبی دوست نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے شاہ نواز کی ناگہانی موت کی فائل بند کروائی تھی۔فرانسیسی انٹیلی جنس حکام کے مطابق ان کی تفتیش کے مطابق شاہ نواز کی موت دہشت گردی کا واقعہ نہیں تھا اور اس میں کوئی فرانسیسی شہری بھی ملوث نہیں تھا ۔ انہی وجوہات کی بنا پر فرانس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تفتیش ختم کرکے فائل بند کردی تھی۔
♦