بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اس واقعے میں نامعلوم حملہ آوروں نے، جو ایک موٹر سائیکل پرسوار تھے، نسلی طور پر ہزارہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کے ارکان پر اس وقت فائرنگ شروع کر دی، جب وہ اپنی گاڑی میں شہر کی مرکزی آر سی ڈی شاہراہ پر سفر میں تھے۔
مقامی پولیس اہلکار محمد اسحاق نے بھی تصدیق کی کہ یہ حملہ مستونگ شہر میں کیا گیا، جو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 75 کلومیٹر یا 45 میل جنوب کی طرف واقع ہے۔ پولیس کے مطابق اس حملے میں پانچ افراد مارے گئے۔ ہزارہ شیعہ خاندان کے چار ہلاک شدگان میں ایک خاتون بھی شامل ہے جبکہ اسی حملے میں مارا جانےو الا ڈرائیور ایک سنی شہری تھا، جو اس خاندان کا رکن نہیں تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اس حملے کی فوری طور پر کسی بھی عسکریت پسند یا فرقہ پرست گروپ نے ذمے داری قبول نہیں کی۔ ماضی میں سنی مسلم شدت پسندوں کی مختلف ممنوعہ تنظیمیں ایسے حملوں کی ذمے داری قبول کرتی رہی ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں کسی مسلح حملے میں ملکی سطح پر شیعہ مسلم اقلیت کے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ماضی میں بھی وہاں خاص طور پر مذہبی منافرت کی بناء پر ہزارہ شیعہ برادری کے افراد یا اجتماعات پر خونریز حملوں کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ہلاک شدگان کے لواحقین کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
مستونگ ہی میں اس سال 12 مئی کو پاکستانی سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین اور جمیعت علمائے اسلام (ف) نامی مذہبی سیاسی جماعت کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کے گاڑیوں کے ایک سفری قافلے پر بھی ایک بڑا خود کش بم حملہ کیا گیا تھا، جس میں کم از کم 26 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے تھے۔
بلوچستان کو جو پاکستان کا سب سے کم آبادی لیکن سب سے زیادہ رقبے والا اور معدنی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے، ایسے بلوچ قوم پسندوں کی چند مسلح تحریکوں کی وجہ سے علیحدگی پسندی کے مسئلے کا بھی سامنا ہے، جو اس صوبے کی علیحدگی یا اس کے لیے زیادہ خود مختاری کا مطالبہ کرتے ہوئے صوبے میں تیل، گیس اور معدنیات کے وسائل میں سے بلوچ آبادی کے لیے زیادہ حصے کے مطالبے بھی کرتے ہیں۔
DW
♦