پائند خان خروٹی
افکار اور علوم میں گہری ذاتی دلچسپی کے باعث مجھے مارکسزم کی تفہیم حاصل کرنے کابے پناہ شوق رہا ۔ اس غرض سے جس قدر ممکن ہوا مختلف کتابوں ، مضامین اور ذرائع ابلاغ سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ۔ علاوہ ازیں جاننے پہچاننے مارکسی حلقوں اور مارکسزم کے حوالے سے معروف سیاسی رہنماؤں ، ٹریڈ یونین لیڈروں اور علمی وادبی شخصیات سے ملاقاتیں کیں ۔ا لیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے مسلسل دس سال تعلق کے دوران لیفٹ کے نام سے منسوب سیاستدانوں ، ادبیوں اور دانشوروں سے باقاعدہ ربط وتعلق رکھا ۔ ان سب کاوشوں کااصل مقصد مارکسی علم وفلسفہ کاشعور حاصل کرنا تھا ۔ترقی پسند پشتو اور ا ردو ادب پاروں کا بطورخاص مطالعہ کرتا رہا ۔ مارکسی مشاہیر کارل مارکس ، فریڈرک اینگلز ، ولاد میرلینن ،جوزیف اسٹالن اور چی گویرا وغیرہ پر بننے والی ڈاکومنٹریز کامشاہدہ بھی کیا تاہم مجھے اعتراف ہے کہ آج تک میں مارکسی تھیوری کی مکمل تفہیم حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔
اس ریسرچ آرٹیکل کو پورا کرنے کے دوران مجھے اردو زبان کی کم آئیگی کااس وقت بہت احساس ہوا جب تھیوری اور آئیڈیالوجی جیسی بنیادی اصطلاحات کاعلیحدہ علیحدہ ترجمہ دستیاب نہ ہوسکا اور اس حقیقت کاپتہ چلا کہ ان دونوں اصطلاحات کیلئے اردو میں ایک ہی لفظ ’’نظریہ ‘‘ کااستعمال ہوتا ہے جو بعض جگہوں پر گمراہ کن ہوجاتا ہے ۔ قارئین کیلئے اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ آئیڈیالوجی ایسے مفروضوں اور اعتقادات کامجموعہ ہوتی ہے جیسے عقلی بنیادوں پر ثابت کرنا ضروری تصور نہیں کیاجاتا ہے جبکہ تھیوری ایسے اصولوں کامجموعہ ہوتی ہے جنہیں سائنسی بنیادوں پر مشاہدہ ، تجربہ اور تحقیقی طریقہ کار کے بعد وضع کیاجاتا ہے ۔ انقلابی رہنما ولاد میرلینن نے تھیوری کی اہمیت اس طرح بیان کی ہے کہ کسی تھیوری کے بغیر انقلابی تحریک کاتصور نہیں کیاجاسکتا ہے ۔
“Without a revolutionary theory, there can be no revolutionary movement.”(1)
مارکسزم کے علمبردار خاص کر پاکستان میں زیادہ طور پر وہ لوگ ہیں جنہوں نے کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کو بھی براہ راست نہیں پڑھا ہیں بلکہ اکثریت نے صرف مارکس اور اینگلز کی تمام کتابوں کو پڑھنا تو دور کی بات ہے سرے سے دیکھی بھی نہیں ہیں اور اِدھر اُدھر سے ہاتھ آجانے والی مارکسی تعلیمات کو بطور تبرک محفوظ رکھتے ہیں ۔ سادہ ،معصوم اور خاص کر نئے کارکنوں پر اپنی علمیت اور جھوٹی شان کارُعب جمانے کیلئے انہیں بطور محاورہ استعمال کرتے ہیں ۔
یہ پیپر ٹائیگرز عام طورپر نئے نوجوانوں سے ملاقات کے دوران اُن کی باتیں اور سوالات کوسننے کی بجائے کارل مارکس اور فریڈک اینگلز کے رٹا کیے گئے مخصوص اقتباسات کی جگالی یادیگر مارکسی دانشوروں کے چند اقوال زریں سے گفتگو کاآغاز کرتے ہیں ۔ نئی نسل کومارکسزم کی تفہیم دینے سے قاصر ہونے کی وجہ سے انہیں غیر ضروری سوالات، علمی اصطلاحات ا ور مشکل انگلش الفاظ میں الجھائے رکھتے ہیں ۔ پورے پاکستان کے موجود مارکسی رہنماء ا ور دانشور موجودہ حالات حاضرہ کے تناظر میں مارکسی تھیوری کاتخلیقی اطلاق کرنے سے قاصر ہیں اور دوسری جانب ویسے بھی ڈاگمیٹک مارکسزم اور تخلیقی اطلاق دو متضاد چیزیں ہیں۔ براہ راست مظلوم اور محکوم طبقات تک رسائی حاصل کرنا، غیر منظم زیارکشوں ، نوجوانوں اور بالخصو ص کسانوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر منظم کرنا اور درپیش مصائب ومشکلات کے حوالے سے زیردست طبقے کے عوام کوسننا شروع ہی نہیں کیا ہے بلکہ وہ شہروں کے عالیشان ہوٹلوں ، کانفرنس ہالوں اور پریس کلبوں وغیرہ میں جو کچھ بولتے ہیں اس میں بھی ایسی کوئی خاص چیز نہیں ہوتی جس سے مارکسی اصولوں کی تفہیم حاصل ہوسکیں یاجس سے ایلٹ کلاس کوئی خوف وخطر محسوس کرسکیں ۔
اس طرح خاص طور سے لیون ٹراٹسکی کے پیروی کرنے والے اس کی محبت میں اس قدر مستغرق ہے کہ وہ اشتراکی مفکر اعظم ، کارل مارکس ، فریڈرک اینگلز ،ولاد میر لینن اور جوزیف اسٹالن کو بھی براہ راست پڑھنے اور دیکھنے کے روادار نہیں ہیں بلکہ وہ ان مشائیر کو بھی ٹراٹسکی کی توسط سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں ۔ ٹراٹسکی کی تصویر یاپوسٹر لگا نے کوترجیح تو دیتے ہیں مگر کسی دوسرے کی تقریب میں اگر مارکس ، اینگلز ، لینن ، اسٹالن یا کسی ریجنل ہیرو صنوبرؔ ،سورگل ؔ ،آباسین ؔ اور بنگش ؔ وغیرہ کی تصویر لگائی جائے تو اسے شخصیت پرستی قرار دینے سے گریز نہیں کرتے لیکن ٹراٹسکی کی تصویر آویزاں کرنے کو وہ کسی طور پر بھی شخصیت پرستی کے زمرے میں نہیں لاتے ۔
جہاں تک مارکسز م کاتعلق ہے ا س میں کوئی شبہ نہیں کہ مارکسزم سرمایہ دارانہ نظام کابہترین تنقیدی جائزہ اور عالمی زیار کش طبقہ کیلئے ظلم و استحصال کے خلاف موثر ہتھیار ہے جس کو دنیا بھر کے معاشی غنڈے اور رُجعت پرست عناصر جھوٹا ثابت کرنے کیلئے مسلسل مختلف حربے و ہتھکنڈے استعمال کرتے آرہے ہیں جبکہ مارکسزم کی حقانیت مزید واضح ہوتی جارہی ہے۔ مارکسسٹ تھیوری بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی تنقید اور اسی سے اخذ کردہ نتائج پر مشتمل ہے جس کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام کے بعد سوشلسٹ معاشرے کی جانب سفر کو دو مراحل میں تقسیم کیاگیا ہے ۔ پہلا مرحلہ ایک عبوری اور ابتدائی دور ہے جس میں ذاتی ملکیت کایکسر خاتمہ نہیں ہوتا جبکہ دوسرے مرحلے یعنی کمیونسٹ معاشرہ میں نجی ملکیت کاکوئی تصور نہیں ہوتا ۔ اشتراکی مفکر اعظم مارکس کے کہنے کے مطابق کیمونسٹ سماج کو ایک جملے میں اس طرح بیان کیاجاسکتا ہے کہ ہر قسم کی نجی ملکیت کاخاتمہ ہوجائے گا۔
“The theory of communism may be summed up in one sentence : abolish all private properties.”(2)
اشترا کی مفکر اعظم کارل مارکس اپنے دور کاایک عنایت ہی ممتاز فلاسفر تھا جس نے ماضی اور حال کا عمیق مشاہدہ و مطالعہ کیا اور خاص طور پرتین عناصر یعنی روایتی جرمن فلسفہ ، انگلش پولیٹیکل اکانومی اور فرنچ یوٹو پیائی سوشلزم کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد ہی ان کی ضد/ حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوا ۔اسی طرح مذکورہ تین عناصر کے مقابلے میں تین اجزاء ترکیبی کی بنیاد پر مارکسی نظریہ وجود میں آیا ۔ گویا مارکسزم تین اجزاء ترکیبی یعنی مارکسسٹ فلا سفی، پولیٹیکل اکانومی اور سائنٹیفک سوشلزم پرمشتمل ہے ۔جس کاذکر تاریخ میں پہلی مرتبہ ولاد میر لینن نے اپنے شاہکار مضمون مارکسزم کے تین ذرائع اور تین اجزاء ترکیبی میں کیا ۔(3)۔
میں یہاں اپنے قارئین کے لئے ان تین اجزاء کی مزید وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں ۔
۔مارکسی فلسفہ سے انسان کو جدلیاتی مادیت اور تاریخی مادیت کاشعور ملتا ہے ۔ فطرت کے قوانین اور ترقی وارتقاء کے مراحل میں حرکت اور نشو ونما کے راز ونیاز افشاں ہوجاتے ہیں ۔
۔ پولیٹیکل اکانومی پردسترس حاصل کرنے کیلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ معاشرے کی پوری عمارت اس کی معاشی اساس پر کھڑی ہے ۔ معیشت کی بنیادی حیثیت (زیربِنا) معاشرے کا بالا ئی ڈھانچہ (روبِنا) میں انسانی رویے ،ادبی رجحانات اور سیاسی نظریات کاتعین کرتی ہے ۔سیاسی معیشت دراصل ریاستی حدود میں معاشی ترقی، سیاسی اقتدار تک رسائی اور سماجی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے اچھی طرز حکمرانی کا وہ تصور ہے جس کے تحت معیشت اور سیاست نہ صرف ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو اپنے مفاد میں کنٹرول بھی کرتے ہیں ۔
۔ سائنٹفک سوشلزم بنیادی طورپر جدلیاتی قوانین اور اصولوں کے انسانی معاشرے میں تخلیقی اطلاق کے ہنر کانام ہے ۔ اس پر عملدرآمد ہو وہ لوگ کرسکتے ہیں جو مارکسی تعلیمات ، اپنے معروض ومعروضی حالات کاسوجھ بوجھ رکھنے کے ساتھ ساتھ تخلیقی اطلاق کے اصولوں سے بھی واقف ہوں۔ واضح رہے کہ نظام اور نظریہ کو قبول یا رد کرنا انسانی ضروریات سے مشروط ہے ۔ ا س ضمن میں فریڈرک اینگلز نے بہت پہلے کہا تھا کہ آزادی اصل میں انسانی ضروریات کے اعتراف کانام ہے ۔
“Freedom is the reorganization of necessity.” (4)
تمام ترقی پسندمفکرین و قائدین اس بات پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ سماجی تبدیلی کسی بھی عمل کوتنظیم اور نظریہ کے بغیر موثر نہیں بنایاجاسکتا کیونکہ انقلابی تنظیم اورانقلابی نظریہ ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہے۔اکتوبر انقلاب کے ہیرو کے مطابق بہترد نیا کی تعمیر کیلئے ایک کامیاب حکمت عملی کاانقلابی تنظیم اورعمل کی بنیاد پر ہونا لازم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تاریخی علم ، سیاسی قوانین اور انقلابی نظریے کی بنیاد پر بھی لازمی ہے۔
“A successful strategy for building a better world must be based on organization and action, but it must also be based on historical knowledge, political principles and revolutinoary theory.” (4)
مارکسی نظریہ کے سامنے آنے کے بعد معاشی وسیاسی دنیا میں غیر معمولی ہل چل پیدا ہوئی۔ ا س انقلابی نظریہ ومبارزہ کی بنیاد پر بنی نوع انسان کو سامراجی اور استحصالی نظام سے نجات ملی ۔دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکوں کو نئی زندگی ملی اور سب سے بڑھ کر انسانی تاریخ میں پہلی بار زیارکش طبقہ کی قیادت میں اکتوبر انقلاب برپا ہوا اور سوویت یونین وجود میں آیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے متعدد دیگر ملکوں میں قومی اور سماجی نجات کی تحریکیں نہ صرف آگے بڑھیں بلکہ کئی ممالک چین ، کیوبا ، لاؤس، کمبوڈیا، ویت نام اور افغانستان میں خلق خدا سے جڑی ہوئی خلقی قیادت کی توسط سے شاندار انقلابات بھی برپا ہوئے ۔
مارکسز م کاجادو اتنا موثر ٹھہرا کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود مارکس کے بتائے ہوئے اضافہ پیدا وار کے بحران سے آج تک باہر نہ نکل سکا ۔ دنیا کے بورژوا تھینک ٹینکس اور فلاسفرز نے مارکس اور مارکسزم سے بچنے کیلئے کئی قسم کے نئے پیچیدہ اور مجرد علمی وادبی رجحانات کو فروغ دیکر ابہام پیدا کرنے کی متعدد کاوشیں کیں جن میں وجودیت ، تحلیل نفسی ، ماڈرنزم ، لبرلزم ، عدم تشدد اور پوسٹ مارڈرنزم وغیرہ شامل ہیں لیکن یہ تمام بورژوازی حربے وہتھکنڈے مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں اور آج بھی براعظم یورپ سمیت تمام دنیا میں انحطاط پذیر سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل کے طوپر ایک ہی نام ، ایک ہی نظریہ بلکہ ایک ہی اینٹی تھیسز سامنے آتا ہے اور وہ ہے مارکسزم ۔
آج سرمایہ دارانہ نظام کے بڑے دانشور اور محقق ایمونیوئل والر اسٹین کایہ اعتراف دنیا بھر کے معاشی غنڈوں اور استحصالی عناصر کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے دن گنے جاچکے ہیں اور آنے والے بیس سے چالیس سال میںیہ عالمی نظام زمین بوس ہوجائیگا۔
“Capitilism’s days are numbered and in 20 to 40 years it will be gone.” (5)
حوالہ جات:
1. What is to be done? by Vladmir Lenin, 1901.
2. Manifesto of the communist Party by Karl Marx, Fredrick Engels.1848.
3.The three sources and three component parts of Marxism,by V. Lenin,Wikipedia.
4. The Origin of the Family, Private Property and the State.1902.
5. State & Revolution by Vladmir Lenin, 1917.Page 34
6. Immanuel Wallerstein on the End of Capitalism by KPFA organization 2017.
8 Comments