لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ کے جج مسٹر محمد قاسم خاں اور صدرہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن شیر زمان قریشی کے مابین ایک مقدمے کی سماعت کے دوران تلخی ہوگئی جو اتنی بڑھی کہ جج عدالت سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے گئے جب کہ بار کے صدرقریشی نے وکلا کو جج کے رویے کے خلاف ہڑتال کی کال دے دی جس کے نتیجے میں ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں کام بند کرا دیا گیا ۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے اس نا خوش گوار واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ملتان بنچ میں تعنیات چار ججوں کو واپس پرنسپل سیٹ پر طلب کر لیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ملتان بنچ کا عدالتی کام اب لاہور پرنسپل سیٹ پر ہوگا اور آئندہ مقدمات دائر بھی لاہور ہی میں ہوں گے جس کا مطلب ہے خواہ وقتی طور پر ہی سہی لاہور ہا ئی کورٹ ملتان بنچ نان فنکشنل ہوگیا ہے۔
ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شیر زمان قریشی نے کہا ہے کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ نہ صرف ہائی کورٹ ملتان بنچ کے جج صاحبا ن بلکہ راجن پور سے ساہی وال تک نو اضلاع کی ماتحت عدالتوں کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ جج اور وکلا کے مابین یہ تنازعہ ریاستی اراضی پر مسجد تعمیر کرنے کے ایک مقدمے کی شنوائی کےدوران ہوا ۔
وکلا اور ججوں کے مابین لڑائی جھگڑے روز معمول کا بن چکے ہیں۔ شاذ ہی کوئی ہفتہ یا مہینہ ایسا ہو جب وکلا اور ججوں کے مابین کسی تنازعہ یا لڑائی اور پھر عدالتوں کی تالہ بندی کی خبر اخبارات میں چھپی اور الیکٹرونک میڈیا پر نشر نہ ہوئی ہو۔ ان جھگڑوں اور تنازعات کے پس پشت وہ کون سے سماجی اور معاشی محرکات ہیں، ان کی ٹو ہ لگانے کی کوشش نہ کبھی وکلا انجمنوں نے کی ہے اور نہ ہی ہماری عدلیہ نے اس طرف توجہ کی ہے۔
جب کبھی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو چند دن اس کا پریس میں ذکر ہوتا ہے اور پھر پتہ چلتا ہے کہ فریقین میں صلح ہوئی اور باہمی معافی تلافی سے ’مثل‘ داخل دفتر ہوگئی ہے۔ اعلی عدلیہ نے آ ج تک کوئی ایک میٹنگ ، سیمنار یا مشاورتی اجلاس ایسا منعقد نہیں کیا جس میں وکلا ، ججوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز میں روز افزوں بڑھتے ہوئے تنازعات اور لڑائی جھگڑوں کے حقیقی محرکات کو جاننے، سمجھنے اور ان کے ممکنہ حل تلاش کرنے کی کی کوشش کی گئی ہو۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو وکلا انجمنوں کی کارکردگی بھی اس مسئلہ کے حوالے سے صفر ہے۔
کیا ججوں اوروکلا کے مابین لڑائی جھگڑوں کے اکیلے وکلا ہی ذمہ دار ہیں یا اس کی کچھ ذمہ داری ججو ں اور عدالتی عملے پر بھی عائد ہوتی ہے؟ کیا یہ وکلا کی ون وے ٹریفک ہے جو عدالتوں اور ججوں کو روندتی چلی جارہی ہے ؟ ججوں کا موقف ہے کہ ہاں یہ ون ٹریفک ہی ہے اور ان تنازعات اور لڑائی جھگڑوں کے ذمہ دار وکلا بالعموم اور بالخصوص ان کی منتخب قیادت ہے۔ وکلا عدالتوں سے زبردستی اور دھونس دھاندلی کی بل پر اپنے مطلب کا انصاف حاصل کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور جب انھیں عدالت انھیں ان کا مطلوبہ ریلیف نہیں دیتی تو وہ ناراض اور مشتعل ہوکر عدالت اور ججوں کی توہین پر اترآ تے ہیں۔
ججوں کے بر عکس وکلا اور ان کے منتحب عہدیدار بار اور بنچ میں بڑھتی ہوئی آویزش کی ذمہ داری ججوں کے ناشائستہ رویوں، بر وقت، مستعد اور قانونی تقاضوں کا لحاظ کرتے ہوئے عدالتی ذمہ داریوں پوری کرنے سے گریز اور اور عدالتی عملے کی رشوت ستانی ، کام چوری اور غیر انسانی رویوں پر عائد ہوتی ہے۔ جج کسی مقدمہ کا فیصلہ میرٹ پر کرنے کی بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ کونسا وکیل پیش ہورہا ہے اور کس فریق کی طرف سے پیش ہورہا ہے ۔
اگر تو کوئی تو’بڑا‘ وکیل پیش ہورہا ہےتوجج کا انداز تخاطب بدل جاتا ہے جب کہ عام وکیل کی صورت میں جج کارویہ گستاخی کی حدوں کو چھونے لگتا ہے۔ جج مقدمات کے حقا ئق کو پیش نظر رکھ کر نہیں بلکہ پیش ہونے والے وکلا کا چہر ہ دیکھ کرمقدمات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حکمران سیاسی جماعتوں کے اعلی عہدوں پر براجمان وکلا، وکلا انجمنوں کے عہدیداران ، موجود یا سابق ججوں کے بیٹے، بیٹیاں یا دیگر رشتہ داروں کے لئے انصاف مہیا کرنے کے پیمانے عام وکیل جو نہ کسی جج کا بیٹا ہے اور نہ ہی کسی کا داماد ، کی نسبت بہت مختلف ہیں۔
جب جج قانون اور میرٹ کی بجائے چہرے دیکھ کر فیصلے کریں گے تو ان کی توہین ہوتی رہے گی یہ نہیں ہوسکتا کہ وکلا انجمنوں کے عہد یدار عدالت میں جائیں تو جج انھیں خصوصی پروٹوکول دیں اور ان کے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سنیں جب کہ عام وکلا کو جھاڑ پلا کر بیٹھ جانے کا کہہ دیں اور کسی نہ بہانے ان کے موکلوں کی موجودگی میں ان کی توہین کی جائے ۔
وکلا کی اکثریت کا تعلق نچلے درمیانے طبقے سے اور ان کا سماجی ثقافتی پس منظر دیہی ہوتا ہے ۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ بڑے وکلا کی آل اولاد ، ججوں کے بیٹے ،بیٹیوں اور رشتہ دار وکلا ہر وہ کام کر والیتے ہیں جو ایک عام وکیل کے بس کی بات نہیں ہوتی تو ردعمل کے طور پر ان میں مایوسی، بددلی اورغم وغصہ پیدا ہوتا ہے جو انھیں ججوں کی توہین کرنے اور عدالتوں کو توڑ پھوڑ پر اکساتا ہے۔ اگر جج چاہتے ہیں کہ وکلا ان کی عزت اورعدالتوں کا احترام کریں تو انھیں بھی مشہور و معروف وکلا، ججوں کے بیٹے اور بیٹیوں کی چاپلوسی کو ترک کرکے عام وکلا سے عزت و احترام سے پیش آنا ہوگا ۔ انھیں مقدمات کا فیصلہ صرف اور صرف میرٹ پر کرنا ہوگا نہ کہ ججوں کے رشتہ داروں اور وکلا انجمنوں کے عہدیداروں کی خواہشات اور مطالبات کے مطابق۔
♦