سلمیٰ اعوان
میرے بغدادی ٹیکسی ڈرائیور افلاق نے کہا تھا “میں آپ کو ایران عراق جنگ کی یادگار اور نامعلوم سپاہی کی یاد گار پر لے جارہا ہوں”۔ بڑا دھیما سا لہجہ تھا۔
معلوم سپاہی کی یادگار۔میں نے زیرِلب کہا۔وطن کے نا معلوم سپاہی ہمیشہ فرنٹ پر لڑتے ہیں ۔بے چارے ہمیشہ گمنام رہتے ہیں اور صرف نامعلوم سپاہی کی یاد میں کا تمغہ پاتے ہیں‘‘۔
لمبی سانس کھینچ کر میں نے افلاق کو دیکھا اور کِسی قدر طنزیہ لہجے میں پوچھا تھا۔
’’ عراق سمجھتا ہے وہ فاتح تھا‘‘۔
’’ دونوں احمق یہی سمجھتے ہیں۔‘‘اُس کا جواب سنجیدگی سے بھرا ہوا تھا۔
’’پریڈ گراؤنڈ۔‘‘
اشارہ دائیں طرف ایک وسیع و عریض قطعہ زمین کی طرف ہوا تھا۔کچھ مزید معلومات بھی اِس نوعیت کی تھیں۔ہمارے دیگر مختلف تہوار بھی یہیں منائے جاتے ہیں۔
’’صدام کا کروّفر اور طمطراق دیکھنے کے قابل ہوتا تھا جب وہ یہاں آتا تھا‘‘۔
’’سارا رولا اور سیاپا اِسی کروّفر کا ہی تو ہے ۔یہی چین نہیں لینے دیتا۔‘‘نیم جیسی کڑواہٹ تھی لہجے میں۔
’’اکثر قومی دِنوں پر وہ یہاں قوم سے خطاب کرتا تھا۔اُس کا شاندار محل بھی یہاں سے تھوڑی دور ہے‘‘۔
گاڑی اسفالٹ کی وسیع و عریض سڑک پر جس کے اطراف میں اُگی جھاڑیاں اور سبزہ اِس گرم ترین شام کو قدرے بہتر ہونے کا تاثر دے رہا تھا۔ہم فتح کی یادگار کے نیچے سے گزر رہے تھے۔پہلی یادگار دیوہیکل سی تلواریں قوسی صورت میں اُوپر اُٹھتے اور ایک دوسرے سے ملتے ہوئے کراس بناتی تھیں۔فلڈ لائٹس سڑک کی شان میں اضافہ کررہی تھیں۔دوسری یادگار کے نیچے سے گزرتے ہوئے رُک گئے۔ان کا ایک نام قدسیہ کی تلوار بھی ہے۔ہوا تیز تھی۔شام کی دھوپ چمکدار بھی تھی اور گرم بھی۔
یہ یادگاریں اپنی اصلی صورت کے ساتھ میرے سامنے نہیں تھیں۔افلاق نے مجھے اِن کی پرانی تصوریریں دِکھائی تھیں۔1986ء میں ایران عراق جنگ کے خاتمے سے قبل ہی ان کی ڈیزائننگ اور جرمن کمپنی سے ان کے بنانے کی بات چیت شروع ہوگئی تھی۔صدام نے خود ہی فتح کو عراق سے منسوب کرلیا تھا۔اس کی ڈیزائننگ میں بنیادی تصور بھی اُسی کی دماغی اختراع تھا۔عراق کے صف اول کے مجسمہ ساز عادل کمال نے صدام کے تخیّلی خاکے کوحقیقت کا روپ دیا تھا۔اس کی وفات کے بعد یہ کام محمد غنی حکمت نے کِیا۔
میں جو کچھ دیکھ رہی تھی وہاں ہاتھوں کی صورت بگڑی پڑی تھی۔ہزاروں ہلمٹ لڑھکے ہوئے اورجال ٹوٹے پڑے تھے جن میں یہ مقید تھے۔
میں پتھر جیسا کلیجہ لیے افلاق کو سُنتی تھی۔
یہ ہزاروں لاکھوں ہلمٹ استعارے تھے یا حقیقی ؟میں نہیں جانتی تھی۔افلاق انہیں اصلی کہتا تھا۔یہ اُن لاکھوں نوخیز ایرانی لڑکوں کے تھے جنہیں فوری بھرتی کرکے محاذ پر بھیج دیا گیا تھا اور جو اس فضول جنگ کا ایندھن بن گئے تھے۔
ماں تھی نا میں۔پُھول کی پتیوں جیسی شکل کی اِس بیسمنٹ میں پڑے یہ ہلمٹ مجھے اُن کی سُرخ و سفید صورتیں اور اُن کی نامراد جوانیاں یاد دلارہے تھے اور میری آنکھیں بھربھرآتی تھیں۔اگر یہ علامتی طور پر بنائے گئے تو کتنی سفاکی کا مظاہرہ تھا۔اقتدار کتنا بے رحم ہوتا ہے؟انسان کوگوشت پوست کا تو رہنے ہی نہیں دیتا۔
دونوں جانب تلواروں کو تھامے آہنی ہاتھ جنہوں نے دستوں کو شکنجے کی طرح جکڑا ہوا تھا۔ان ہاتھوں کی نظر آتی فولادی انگلیاں جو دراصل صدام کے ہاتھ اور انگلیوں کا عکس تھے بنائے گئے تھے اور جنہیں میں نے تصویروں میں دیکھا تھا۔
ان ہاتھوں کی تو مٹی پلید ہوگئی جب نئی عراقی حکومت نے ایک کمیٹی بنائی۔حُکم دیا اُسے کہ صدام کے دور کی ہر یادگار کو ختم کردو۔ہتھوڑے چلے اور شاندار کامیابی بڑے بڑے ٹکڑوں کی صورت میں زمین بوس ہوئی ۔ لوگ انہیں اُٹھانے اور بیچنے کیلئے پاگلوں کی طرح بھاگے۔ابھی توڑپھوڑ جاری تھی جب اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی طرف سے بلند و بالا احتجاج ہوا۔وہ زور دار آوازوں میں چِلّاتے تھے۔
’’بند کرو یہ توڑ پھوڑ۔یہ تاریخ ہے۔اچھی ہے ،بُری ہے ،جو بھی ہے اِسے رہنے دو۔‘‘
وزیراعظم نورالمالکی کو ایک بڑی دھمکی امریکی سفیر زلمے خلیل زاد سے ملی جس کی سخت زبان نے سارے ہتھوڑے اور چھینیاں زمین پر رکھوادیں۔
پر عراقی گورنمنٹ خیر سے ابھی اُدھار کھائے بیٹھی ہے۔حکومت میں شیعہ عناصر زیادہ ہیں۔جب بس چلا وار ہوگا ۔اگر سُنی عناصر اقتدار میں آگئے تو پھر اس کی مرمت ہوجائے گی۔ واہ اقتدار کے بھی کیا کیا اور کیسے کیسے المیے ہیں؟
یادگار کا جس دن افتتاح ہورہا تھا۔صدام سفید براق گھوڑے پر سوار یہاں آیا تھا۔افلاق کا کہنا تھا کہ اُسنے خود کو نعوذ بااللہ حضرت امام حسین ؑ کے روپ میں پیش کِیا تھا۔
’’احمق کہیں کا۔‘‘
میوزیم بھی ساتھ ہی ہے۔اُسے تو میں نے بس باہر سے ہی دیکھا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔اب ایران عراق فتح کی اور یادگاریں تھیں۔
زوارہ پارک کے ہمسائے میں یہ یادگاریں ایک پیچیدہ علامتی طرزِ تعمیر کی عکاسی کرتی تھیں۔داخلے کا مرحلہ عراقی سپاہیوں کی اجازت سے سر ہوا تھا۔گیٹ پر تین فوجی کھڑے تھے۔
اندر دفتر کے آگے مزید تین سنگینوں کے ساتھ چوکس بیٹھے تھے۔چار پانچ ٹہلتے پھر رہے تھے۔عراقی بھی بہتیرے گورے چٹے ہیں اور امریکیوں میں بھی کئی کالے کٹے ہیں۔
اب یہاں والے خالص ہیں یا آمیزہ ہیں۔افلاق بتاتا تھا کہ یہ چھوٹی موٹی ڈیوٹیاں انہوں نے سقوط بغداد کے ابتدائی دنوں میں خود دی تھیں کہ لوگ خوف سے شہر چھوڑ گئے تھے۔اب تو وہ ہیڈکوارٹر میں بیٹھے ہیں۔یہ اُنکے چیلے چانٹے’’ یَس یَس سر ‘‘کہتے ہیں اور سلطنت چلاتے ہیں۔چھوٹے موٹے معاملات یہ خود نپٹاتے ہیں بڑے اور اہم وہ ۔یہ سب تو خیر عراقی ہیں۔
سپاہیوں کو ایک پاکستانی خاتون کا پتہ چلا تھا۔بڑی محبت کا اظہار کِیاتھا۔بڑی احترام بھری نظروں سے دیکھا تھا۔باتیں بھی کچھ کی تھیں۔افلاق نے ترجمہ کِیا کہ شکریہ ادا کررہے ہیں اور آپ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
خوبصورت وسیع و عریض پارک میں تھوڑی دیر کیلئے اس ماحول کا حسن حیرت زدہ کرتا تھا۔
غیر ملکی وفود یہاں پھولوں کی چادر چڑھانے آتے ہیں۔کیوبا کا فیڈل کا سترو بھی یہاں آیا تھا۔مجھے ہنسی آ گئی تھی۔
فیڈل کا سترو بھی ایک شے۔ پہلے صدام کی لن ترانیاں سُنی ہوں گی۔ بلند بانگ دعوے اور گپیں کہ وہ تو امریکہ کو جُوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔جو کاغذ اُسے بھیجتے ہیں وہ تو پڑھے بغیر ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے۔ پر کاہ برابر اہمیت نہیں دیتا۔ٹشو پیپر سے زیادہ کی حیثیت نہیں ہے میری نظر میں اُن کی۔بڑی بڑھکیں ماری ہوں گی کہ وہ ایسے ہی مارتا تھا۔
’’ہائے ‘‘میں نے لمبی سانس کھینچی۔ تدّبر اور سیاسی فراست سے خالی کھوپڑی ۔ کاش تھوڑی سی عقل کرلیتا ۔اُس وفد کی ہی بات مان لیتا جوفیڈل کاسترو نے 1990میں اُسے یہ سمجھانے بھیجا تھا کہ وہ کویت سے اپنی فوجیں واپس بُلالے۔اپنی تباہی کو آواز نہ دے۔امریکہ جیسے ہاتھی کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ ہائے بے چارہ ٹشو پیپر ہی کی طرح مَسل دیا گیا۔جی چاہا تھا آہوں کا ڈھیر لگا دوں۔
ہواؤں کے زور سے لہراتے پھڑپھڑاتے عراقی جھنڈے کو دیکھتے اس کی آزادی و خوشحالی کیلئے دعائیں مانگتی باہر آگئی تھی۔
گاڑی میں بیٹھی تو یہ جانی تھی کہ اب افلاق مجھے ” یادگار شہداء“لے جا رہا ہے۔یعنی عراق ایران ڈرامے کا ایک اور ایپی سوڈ ۔اب کیا کہتی جنّا تیری مرضی نچا بیلیا۔سچی بات ہے تیل کے قیمتی ذخائر سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصّہ اِن بے کار شوبازیوں پر خرچ ہوا۔چلو پارکوں کی ضرورت تھی وہ بنے۔تاریخ کی نامور شخصیات سے وہ سجے۔ اچھی بات۔مگر یہاں خود نمائیوں اور شجاعتوں کے جو اظہار تھے وہ خیر سے ملت اسلامیہ کی قیادت کے مفلس ذہن کے عکاس تھے۔
گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو بڑا دل خوش کُن منظر تھا۔اُس سے کہیں زیادہ خوبصورت اور حسین جو ابھی دیکھتی ہوئی آئی تھی۔قطعوں اور ٹکڑیوں میں بٹا۔داہیں باہیں بل کھاتی پختہ روشوں میں پھنسا، گھاس پھُولوں اور پودوں سے سجا ،اُونچے اُونچے درختوں میں گھرا۔ریگستانی زمین کو فردوس جیسا بنا چھوڑا تھا۔عورتوں، بچوں اور مردوں کے دم قدم سے آباد۔یادگار تو مجھے جھیل میں کھِلے کنول کے خوبصورت پھول جیسی لگی تھی۔
افلاق کچھ لوگوں کے پاس کھڑا تھا۔شاید وہ انہیں جانتا تھا۔میں سلیب پر بیٹھی اردگرد دیکھتی تھی۔پھر میں نے اُسے ایک جوڑے کے ساتھ اپنی طرف آتے دیکھا۔ہم سب متعارف ہوئے۔ماڈرن سی خاتون جومستنصر بازار میں گارمنٹس کا کاروبار کرتی تھی۔شوہر بزنس مین تھا۔تین پیارے پیارے بچے۔سچے اور کھرے لوگ۔خاتون صاحبِ نظر تھی۔صدام کی تعلیمی پالیسیوں کی مدّاح۔پورے مُلک میں کے جی سے یونیورسٹی لیول تک تعلیم فری۔نصاب ایک۔اُس کے قائم کردہ سٹڈی سرکل جہاں ہرپڑھی لکھی خاتون کوعورتوں کو پڑھانے کیلئے جانا لازمی ہوتا۔
کہہ لیجئیے تعلیم بالغاں سینٹر۔اُس نے ہر عراقی کو پڑھا لکھا بنایا۔یہ کریڈٹ اُسے دینا پڑے گا۔صحت کو اُس نے بڑی اہمیت دی۔پورے عراق میں تقریباََ دو سو پچاس فلٹریشن پلانٹ لگائے۔صنعتیں اُس کی ترجیح تھیں۔ وہ اوّل و آخر ایک عراقی تھا۔ظالم و جابر تھا۔مُلک میں امن امان تھا۔آزادی رائے پر پابندی تھی مگر لوگوں کی بہتری اور ان کی خوشحالی کا خواہاں تھا۔
’’عیاش نہیں تھا۔‘‘شوہر نے ٹکڑا لگایا۔
’’ہاں البتہ احمق ضرور تھا ۔‘‘افلاق بولے بِنا نہ رہ سکا۔
باتیں شروع ہوئیں تو جیسے پردے چاک ہونے لگے۔ایران عراق جنگ پر اُس نے لمبی سانس بھری تھی مگر فریقین کو لعن طعن کی بجائے اس کے پاس نئی نسل کا دُکھ تھا کہ اُس کے دو بھانجے بھی اِس آگ کا ایندھن بنے تھے۔
’’آپ سوچ بھی نہیں سکتی ہیں کہ دونوں اطراف کی نوخیز اور نوجوان نسل کیسے خزاں رسیدہ پتوں کی طرح فناکی دھول میں گُم ہوئی۔‘‘
اُس کا شوہر ابوبکر محمد الزکریا مجھے کم گو معلوم ہوتا تھاکہ اب تک کی گفتگو میں دوسری بار شامل ہوا تھا۔
’’اندازاََ کوئی پونے تین لاکھ ایرانی ڈھائی لاکھ عراقی اِس بے کار جنگ میں ختم ہوئے۔کوئی اسی ۸۰ ہزار تعداد زخمیوں اور دس لاکھ کے قریب متاثرین تھے۔باقی نقصان بھی بے شمار تھا۔ دُنیا نے تماشا دیکھا۔اور اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کیا اور خوش ہوئے کہ دو مسلمان مُلک جو بڑھتی ہوئی طاقت تھے کمزور ہوئے۔کاش صدام سمجھدار ہوتا۔کاش امام خمینی بصیرت سے کام لیتے اور دونوں مُلک تباہ ہونے سے بچ جاتے۔‘‘
لائبریری کے آڈیٹوریم میں بیٹھی اُسے سنتی تھی جو ادارے کا منتظم اعلی تھا۔ سلیمانیہ کا کُرد عبدلکریم احمد بڑے گہرے اور پھیلے ہوئے وژن کا مالک۔ میں نے امریکہ کے کردار کے بارے میں جاننا چاہا تھااوروہ بولا تھا۔
’’دراصل بنیادی خرابی یہیں تھی۔امریکہ سے انقلاب ایران ہضم نہیں ہو رہاتھا۔ وہ اپنے اُس پُٹھو شا ہ ایران کی دوبارہ بحالی کیلئے سرگرم تھا۔صدام حسین بھی اس جیسی خواہشات رکھنے والا اُسکا پیٹی بھائی بند تھا۔اسی لیے امریکہ کوصدام کے علاوہ کوئی اور موزوں بندہ نظرنہیں آتا تھا۔
امام خمینی بھی اُس سیاسی بصیرت سے محروم تھے جو اُن جیسے انقلابی کیلئے ضروری تھی۔انہیں عراق کی شیعہ آبادی پر کیے جانے والے جبر اور پابندیوں پر غُصہ تھا۔عراقی حکومت ان کے نزدیک شیطانی تھی اور وہ اپنی پوری توانائیوں سے نعرہ بازی میں مصروف تھے۔اور اس اہم نُقطے کو انہوں نے قابل توجہ نہیں سمجھاتھاکہ تب عراق کی شیعہ آبادی کی اکثریت مسلک سے کہیں زیادہ اپنے عراقی تعلق کی وفادار ہے۔اُن کیلئے اپنا مُلک ،قبیلہ اور تاریخ کہیں زیادہ اہم ہے۔
فوج میں 1920سے 1958تک شیعہ عنصر نہ ہونے کے برابر تھامگر آزادی کے فوراََ بعد اسمیں بہت اضافہ ہوا۔اب ذرابڑی طاقتوں کے مفادات کو تو دیکھیں۔
امریکہ اور برطانیہ کی سپورٹ عراق کے لئے۔اسرائیل عراق کی بڑھتی طاقت سے خائف، ایران کا مددگار اور حامی۔خیر سے برّی اور فضائی جنگ میں ٹینکوں اور طیاروں کے پُرزوں کی تیز ترین فراہمی اسرائیل کے توسط سے انجام پا رہی تھی۔ جنگ طول پکڑ رہی تھی اور لاشوں کے ڈھیر لگ رہے تھے۔
صدام کو اپنی حماقتوں کا تو شاید احساس نہ ہوا ہوپر اپنا مستقبل ضرور داؤ پر لگتا نظر آیا تھا۔جھُکنے میں عافیت جانی اور یک طرفہ جنگ بندی کی ذاتی پیش کش کر دی۔
قوموں کی تاریخ میں المیے شاید جنم نہ لیں اگر کہیں فہم و فراست اور تدبرکے دئیے کوئی ایک طرف ہی جلا دے۔
اب امام خمینی نہیں مانے۔۱۹۷۵ والی بین الاقوامی سرحد کو مستقل تسلیم کرنے اور امام خمینی سے انکی پسند کے کِسی مقام پر ملنے کاصدام کی طرف سے اظہار ہوا۔ مگر وہاں ٹھوس انکار تھا۔آٹھ سال خون مسلم کی ارزانی۔اسلحہ کے بیوپاریوں کی موجیں۔جنگ کا اختتام جب ہوا۔نتیجہ یہ تھا کہ اِس لاحاصل جنگ کا کوئی فاتح نہیں تھا۔دونوں کے حصّوں میں تباہی بربادی اور کمزوری آئی تھی۔
♠