ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ
تاریخ کے بارے میں مشہور مفروضوں میں سے سب سے موثر مفروضہ یہی ہے کہ تاریخ ایک گول دائرے میں گھومتی ہے،یا تاریخ گھڑی کی سوئی کی طرح ایک جیسی منزلوں سے گزرنے کا نام ہے، خود کو دہرانا ہی اسکی اٹل سُنت ہے۔ لیکن پاکستانی سیاست کی تاریخ پر جب نظر پڑتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں واقعی تاریخ وقفوں وقفوں سے ایک جیسی کرامات کرانے میں خاصی مستقل مزاج رہی ہے۔ جمہوریت کی بساط لپٹنے پر مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں، بیرون ملک جلا وطن صدر کی آمد پر بھی یہی ہوتا ہے ، عوامی الیکشن میں جیت کی جشن بھی مٹھائیوں کے بغیر نامکمل ہوتی ہے۔ اسی خاطرآج کی اسلام آباد، لاھور، پشاور اور کراچی کے شہروں اور مضافات میں حلوائیوں کی عیاشی ہو گئی، انہوں نے عید پر بچ جانے والی ساری مٹھائی سجا دی ہے اور یقین ہے کہ غروب آفتاب تک جشن کناں عوام کے رگ و پے میں دوڑنے لگے گی۔
سال 2015 میں ایک جرمن اخبار زیتوشے زائتونگ سے ایک نامعلوم شخص نے رابطہ کیا اور اسے “موزیک فونیسکا” نامی مشہور لا فرم کے انتہائی کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس دینے کی پیشکش کی۔جرمن اخبار نے یہ تمام ڈاکومنٹس ” انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس” کے حوالے کر دیے جو اس سے قبل اسی اخبار کے ساتھ آف شور لیکس، لکس لیکس اور سوئس لیکس پر کام کر چکا تھا۔اس غیر قانونی فرم کے تحویل سے ملنے والے غالبا11.5 ملین خفیہ کاغذات نے عالمی سطح پر اچھے اچھوں کے پگڑیاں اچھالیں۔روسی صدر پیوٹین کے قریبی رفقا، چینی صدر کے بہنوئی، یوکرین کے صدر، ارجنٹینا کے صدر، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد، اور وزیر اعظم پاکستان کے چار میں سے تین بچوں کا ذکر بھی انہی دستاویزات کے طفیل منظر عام پر آئے جنہوں نے قانون سے نظر بچا کر اپنی پونجھی ایک جگے سے دسرے جگے منتقل کی۔
اپریل 2016 سے پاناما لیکس یا پاناما پیپرز کیس نےپاکستان میں عوامی سطح پر (جبری ہی صحیح ) جتنی توجہ کشف کی ہے شاید کسی اور مسئلے نے کی ہو۔چار مہنے تک جاری رہنے والا دھرنا ابھی تھما ہی تھا کہ یہ آفت ناگہانی بھی آن ٹپکی ، بقول عربی کے مشہور شاعر انوری کے آسمان سے اترنے والی آفت انوری کے گھر ہی کا پتہ پوچھتی ہے۔تین دفعہ منتخب ہونے والے وزیراعظم کو آخر کار تیسری دفعہ بھی نااہل ہونا پڑا۔ اگر وزیر اعظم کے منصب اور پارلیمان کو ایک علامت کے طور پر لیا جائے تو یہ کہنا مشکل نہ ہو گا کہ پاکستان میں جمہوریت کی ڈور کافی کچی ہے۔ غالبا نظریات کی حدت ، کردار اور استقامت کی کمی ہی اس کچے دھاگے کو دہاتی دھاگے میں تبدیل نہ کرسکنے کی وجہ ہوسکتی ہے۔ سیاست کے شہرگ کے گرد جو آہنی ہاتھ لپٹے ہوئے ہیں ، انہوں نے اکثر جمہوریت کے کچے دھاگے کو دھاتی مانجھے (ڈور) سے کاٹنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوشش کھبی براہ راست ہوئی ہے تو کھبی درپردہ۔
لیکن جمہوری روایات، اقدار اور علامتوں کے بے توقیری سے جو رد عمل عوامی سطح پر امنڈتی ہے وہ ایک نجات دہندہ کا تقاضا کرتی ہے، ظاہر ہے عوام کرامات اور معجزوں کے ذہنی حالت میں جیتے ہیں، روایتی طور پر کرامات اور معجزے افراد سے منسوب ہوتی ہیں، گروہ، اجتماع، تنظیم، نظام، یا قوم سے کھبی بھی کوئی معجزہ کسی راوی نےمنسوب نہیں کیا۔البتہ ہمارے کیس میں مخصوص ادارے اور اس کا سربراہان کو تبدیلی اور انقلاب کا پیش خینہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایک اُٹھتے ہوئے آہنی ہاتھ کیطرف توجہ ہونا پاکستانی سیاسی تاریخ کا ایک جزو رہا ہے،جو اب ایک سماجی حقیقت کے طور پر رونما ہورہا ہے۔
نواز شریف کی قیادت کا تجزیہ کرتے ہوئے بندہ آخر کار یہی کہہ سکتا ہے کہ لیڈر اور روپے پیسے درختوں پر نہیں اگتے۔ یا یہ کہ دولت کی فراوانی کردار اور قائدانہ صلاحیتیں نہیں خریدی جاسکتیں۔ بلکہ اس کیلئے ایک اور طرح کے پراسس سے گذرنا پڑتا ہے، جو کندھن بناجاتا ہے۔سیاسی پروگرام، نظریہ ، وژن، حکمت عملی، اوزار، روڈ میپ سارے ایک کنسلٹینٹ کو ٹھیکے پر دے کر آسانی سے بنائے جاسکتے ہیں، بلکہ کسی دوسری پارٹی کے ویب سائیٹ سے اکھاڑ کر اپنے وال پر چھپکائے جاسکتے ہیں ، لیکن مٹی کی سونی سونی خوشبو سے بےگانگیت کا کیا کریں گے، عوام سے گِن آنے اور انکے بیچ سانس پھولنے کی بیماری کا ابھی کسی حکیم نے علاج دریافت نہیں کی ، ابھی کوئی ایسی عینک بھی ایجاد نہیں ہوئی جس سے ہرسوں موجود غربت، تنگ دستی، محکومی، دربدری، اغوا، ریپ، بھوک، بے توقیری، بے بسی اور ناداری کی حالت کو دیکھا اور محسوس کیا جاسکے۔ اس صورتحال میں ایک منتخب عوامی وزیراعظم کا شہنشاہ بن جانا ایک فطری امر ہے۔
ستر کی دھائی تک ایسے قائد نظر آجاتے تھے۔ خصوصا نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) کے دور تک شاید کوئی ایسا سیاسی کارکن رہا ہو جنہوں نے اپنی زندگی کے چند ماہ و سال جمہوری عمل اور پارلیمان کی بالادستی کیلئے کال کھوٹری اور جیل کے سلاخوں کے پیچھے نہ گزارے ہوں۔سلاخوں سے خوف وہ واحد عنصر ہے جس سے کوتاہ قد سیاسی اکابرین نے جنم لینا شروع کیا۔ جنرل ضیا خصوصی طور پر ایسے سیاست دانوں کی مصنوعی کھیپ تیار کی جنکی رگوں میں جمہوریت کے بجائے سرمائے اور ذاتی مفادات کا خون دوڑہو۔ سیاسی نظام چند جاگیردار اور سرمایہ دار خاندانوں کے ہاں پہلے ہی رہن رکھوا دی گئی تھی ، جو اب باری باری آکر عوامی نمائیندوں کے طور پر اپنے نسلوں کی عاقوبت سنوار جاتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوری اداروں کی بالادستی کا خواب ابھی اتنا ہی نامکمل ہے جتنا کہ سکندر مرزا کے زمانے میں تھا۔ بڑے مینڈیٹ کے ساتھ جب سیاسی لیڈر جمہوریت اور نظام کا بساط بِچاتے ہیں تو وہ جمہوری بساط سے یکسر خاندانی دسترخوان میں بدل جاتا ہے ، اس دسترخوان پر میزبان وزیر اعظم کے جوائنٹ فیملی کے ساتھ ساتھ، ماموں، تایا، بہنوی، بھانجا، بھتیجا، سمندھی، بھتیجا، بیٹا، بیٹی، وغیرہ سارے ہمہ وقت بیٹھے رہتے ہیں۔ جو جمہوری ایوانوں میں انکا ساتھ دیتے ہیں، ان کا ہاتھ و بازو، کان، آنکھ ، ناک اور زبان بنتے ہیں، وہ اس دسترخوان کے ریزہ چین کے طور پر اس سے استفادہ کرتے ہیں۔انکے لیے گیت گاتے ہیں ، قصیدے پڑھتے، گلو بٹوں کا اہتمام کراتے ہیں، سی پیک چرانے میں ہاتھ بٹھاتے ہیں، اور نجی ٹی وی چینلوں پر سدا بہار ٹاک شوز میں شریفوں پر برسنے والے نکتہ چینوں کا گلا پھاڑ کر جواب دیتے ہیں۔
نواز شریف کی نا اہلی اگرچہ ایک مربوط عدالتی نظام کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی ہے، اور اس کی نااہلی سے جمہوری قیادت پر عوام کی یقین ایک دفع پھر متذلذل ہوئی ہے ۔ اس کے پس پردہ عوامل یا پوشیدہ ہاتھوں کی کارستانی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگر پارلیمان پر انکے اعتماد کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ انہیں اپنے بھاری بھرکم مینڈیٹ پر کھبی بھی یقین نہیں رہا۔ پارلیمان کی بے توقیری اگر ایک طرف خاندانی طرز حکومت میں صورت پذیر ہوئی ہے تو دوسری طرف جمہور کے منتخب نمائندوں سے کٹ کر ایک شاہانہ انداز بھی انکے روئے کا حصہ رہا ہے۔ نااہلی کی ایک داخلی وجہ انکی پارلیمان کی بے توقیری بھی ہے۔
پیلڈیٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2014-15میں وزیر اعظم صاحب نے 36 فیصد اور سال 2015-16 میں صرف 5فیصد سیشنز میں شرکت کی۔ مجموعی طور پر آپ نے چار سال اور تین مہنوں میں پانچ دفعہ قومی اسمبلی کے سیشنز میں حصہ لیاہے۔ باقی یہاں بیس کروڑ پاکستانیوں کے نمائندے کن امور پر بات کرتے رہے، کس نوعیت کی قانون سازی کرتے رہے، اس میں انکا براہ راست کوئی حصہ نہیں رہا۔
♦