نواز شریف کی بر طرفی اور پاکستان کے جدلیاتی تضادات

خادم حسین

اٹھائیس جولائی2017کے دن پاکستان کے 17ویں منتخب وزیر اعظم کو آئین کے آرٹیکل63 کے تحت بظاہر ملک کی عدالت عظمی نے بر طرف کر دیا۔ اس بر طرفی نے جہاں اور اہم سوالات کو جنم دیا ہے وہاں پاکستانی ریاست کے اندرونی تضادات کو بھی ایک بار پھر واضح کر دیا ہے۔ پاکستان کے اندر بسنے والے پسے ہوئے طبقات اور محروم قوموں کی سیاسی تحریکوں کے لئے ان تضادات کو سمجھنا از بس ضروری ہے۔ 

پاکستان کا پہلا ریاستی تضاد جمہوری اور غیر جمہوری اور منتخب اور غیر منتخب اداروں کے درمیان ہے۔ دنیا کے نقشے پر نمودار ہوتے ہی یہ کشمکش شروع ہوا اور وقت کے گزرنے کے ساتھ اس میں شدت آتی گئی۔ چار مارشل لاؤں کے ساتھ ساتھ اب تک سترہ سویلین اور منتخب وزرائے اعظم کو بر طرف کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے ایک وزیر اعظم کو سولی پر چڑھایا جا چکا ہے اور دو وزرائے اعظم کو قتل ہو چکے ہیں۔ غیر منتخب اداروں کی مطلق سیاسی طاقت نے ایک طرف خارجہ اور دفاعی پالیسیاں بنانے کے عمل پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تو دوسری طرف سر پرستی کے ایک اٹوٹ نیٹ ورک کے ذریعے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو تخلیق کرنے اور پھر انکو تحلیل کرنے میں بھی مہارت حاصل کر لی۔ ان غیر منتخب اداروں اور قوتوں نے اب تک اپنے ہاتھوں میں مطلق اختیار اور طاقت کو مرتکز کر لیا ہے۔ آمریت اسکا لازمی نتیجہ ہے۔

پاکستانی ریاست کا دوسرا بڑا تضاد مرکز (شمالی اور مرکزی پنجاب) اور کناروں پر آباد قوموں (پشتونبلوچسندھی اور سرائیکی) کے درمیان ہے۔ وسائل اور طاقت پر مرکز کے بلا شرکت غیرے تسلط کو میڈیا کے بیانیوں اور سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے محفوظ کر لیا گیا ہے۔ پاکستان میں بسنے والی مختلف قوموں اور ثقافتوں کے تنوعشناخت اور خود مختاری کو منظم طریقے سے تحلیل کرنے کا منصوبہ رواں دواں ہے۔ متنوع زبانوں اور نسلی اکائیوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ فاٹابلوچستان اور خیبر پختونخوا کی پسماندگیبے اختیاری اور غیر نمائندگی اس عمل کی زندہ مثالیں ہیں۔

ہاکستان کے اندر تیسرا بڑا تضاد طبقاتی ہے۔ شہریوں کی عمومی اکثریت کو وسائل پیداوار،ذرائع پیداوار، طریقہ پیداوار اور تقسیم پیداوار میں شرکت سے محروم کیا گیا ہے۔ مقتدر طبقات کے بنائے ہوئے ان اقتصادی رشتوں نے بد ترین قسم کی اشرافیت کو جنم دیا ہے۔ نتیجے کے طور پر اس اشرافیت نے سماجی عدم انصاف اور خون نچوڑنے والے افلاس کے اژدہا تخلیق کر لئے ہیں۔ 

پاکستان کے اندر چوتھا بڑا تضاد صنفی نا برابری کا ہے۔ ریاستی ساختوں کے سبب قائم شدہ پدر سری نے عورتوں کی ایک پوری آبادی کو اجتماعی فیصلہ سازیسماجی کرداراقتصادی سرگرمیوں اور سیاسی رول سے محروم کر دیا ہے۔ پدر سری کے اس نظام کو برقرار رکھنے کے لئے جو قانونی اور اخلاقی ساختوں کو تراشا گیا ہے انہوں نے نہ صرف سماجی رشتوں کو عدم توازن کا شکار کر دیا ہے بلکہ اجتماعی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی زنگ آلود کردیا ہے۔

پاکستانی ریاست کا پانچواں بڑا تضاد مذہب کی ایک مخصوص توجیہ کو ریاستی نظریہ کے طور پر اپنانا ہے۔ اس عمل سے عقیدوں کے تنوع کو جرم بھی قرار دیا گیا ہے اور انتہا پسند بیانئے کو سماجی ساختوں میں بھی سرایت کر دیا گیا ہے۔ بد قسمتی سے ریاست کا ایک حصہ سمجھتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کو خارجہ پالیسی کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پر تشدد انتہا پسند اور فرقہ پرست تنظیموں کا خودرو گھاس کی طرح اگنا اس پالیسی کا لازمی نتیجہ ہے۔انتہا پسند فکر اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ریاست کا ایک حصہ دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار نظر آتا ہے جبکہ دوسرا حصہ پر تشدد انتہا پسندی کے اقتصاد کے پھیلاؤ کا باعث بنتا آرہا ہے۔ 

ان تمام تضادات پر ذرا گہرائی سے غور کرکے پتہ چلتا ہے کہ یہ تمام تضادات آپس میں سبب اور نتیجہ یا علت و معلول کے رشتوں کے ذریعے پیوست ہیں۔ لوگوں کا حق نمائندگیجمہوری اقدار،تکثیریت، سماجی انصاف اور صنفی مساوات ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ جب تک پاکستان میں عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا جاتاقوموں کی شناخت اور خود مختاری کا احترام نہیں کیا جاتا اور پالیسیاں بنانے کا اختیار منتخب نمائندوں کا حق نہیں مانا جاتا اس وقت تک آمریتاشرافیت اور پاپائیت کا بول بالا رہے گا۔نام نہاد کرپشن اور بیڈ گورننس علامات ہیں اسباب نہیں۔ 

Twitter: khadimhussain4

3 Comments