نوازشریف کے پاس اب کونسے آپشنز ہیں؟

 سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اثاثے نہ ظاہر کرنے پر نا اہل قرار دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر پاکستان الیکشن کمیشن نے ان کی نا اہلی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ نواز شریف صادق و امین نہیں۔ پانچ رکنی بینچ نے یہ متفقہ فیصلہ بھرے ہوئے عدالتی کمرے میں سنایا، جہاں ملکی اور بین الاقوامی میڈیا اور سیاسی رہنما بھی موجود تھے۔

عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ نواز شریف، ان کے بیٹی مریم شریف اور بیٹے حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف ریفرنس دائر کیے جائیں اور ان مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ میں کیا جائے۔

مبصرین کے مطابق پاکستانی سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے پاکستان میں ایک طرح سے سیاسی عدم استحکام کی فضاء پیدا کردی ہے۔ معروف وکیل عاصمہ جہانگیر نے ایک مقامی چینل کو بتایا،  ’’اس فیصلے نے جنرل ضیاء کی یاد تازہ کر دی ہے۔ یہ فیصلہ عدالتوں کو مستقبل میں پریشان کرے گا۔ فیصلے کا زبردستی احترام نہیں کرایا جا سکتا ہے‘‘۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے قانونی اور سیاسی راستے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔

قانونی ماہرین کے خیال میں یہ فیصلہ بہت سخت ہے اور نواز شریف کے پاس کوئی زیادہ قانونی آپشنز نہیں ہیں۔ اس مسئلے پر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری کاشف پراچہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’نواز شریف کے پاس صرف نظرِ ثانی کا آپشن ہے ۔ وہ ایک پٹیشن فائل کرسکتے ہیں، جس میں وہ عدالت سے اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی اپیل کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں بینچ بھی وہی ہوگی اور قانونی ماہرین کی ٹیم بھی پرانی ہوگی‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ہمیں بمشکل ہی کوئی قانونی مثال ملے گی، جہاں عدالت نے نظرِثانی کے اپیل میں اپنا پرانا فیصلہ بدلا ہو۔ ہائی کورٹ ایسے معاملے میں اپنے پرانے فیصلے نہیں بدلتی، توسپریم کورٹ تو پھر سپریم کورٹ ہے۔ ہاں اگر ریکارڈ میں کوئی ایسی چیز غائب ہوئی ہو، جو بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اگر نواز شریف کے وکلاء اس کی نشاندہی کریں یا پھر کوئی بہت ہی بڑی بد انتظامی ہوئی ہو، تو شاید اس صورت میں عدالت اپنے فیصلے کے بارے سوچے۔ بادی النظر میں ایسا نہیں لگتا کہ کوئی بڑی بد انتظامی ہوئی ہو یا کوئی بڑی چیز ریکارڈ سے غائب ہوئی ہو۔ تو میرے خیال میں تو میاں صاحب کے پاس بہت ہی محدود قانونی آپشن ہے اور اس میں بھی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘‘۔

لیکن پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اختر حسین کے خیال میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قابل وصول اثاثوں کا ذکر کیا ہے، ’’میرے خیال میں پہلی بار کسی عدالت نے اثاثوں کی تشریح اس طرح کی ہے۔ جو چیز جائیداد یا کسی اور صورت میں آپ کے پاس موجود ہے، وہ اثاثوں کے زمرے میں آتی ہے لیکن ایک رقم، جو قابلِ وصول تھی، لیکن آپ کے پاس نہیں تھی، وہ اثاثوں کے زمرے میں کیسے آسکتی ہے؟ یہ وہ نقطہ ہے جس کو قانونی طور پر نظرِ ثانی کی اپیل میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ نواز شریف کے پاس نظرِ ثانی کی اپیل کے لئے تیس دن کا وقت ہے‘‘۔

سوشل میڈیا میں بھی نواز شریف کی نااہلی پر دلچسپ تبصرے ہورہے ہیں۔ لوگوں کی رائے کے مطابق نوازشریف نے زرداری دور میں جو گڑھا کھودا تھا وہ خود اسی میں گر گئے ہیں۔نواز شریف جب اپوزیشن میں تھے تو جمہوری رویے اپنانے کی بجائے ایسٹیبشلمنٹ کے ساتھ مل کر سازشیں شروع کردیں تھیں جن میں میمو گیٹ اہم کیس تھا۔

مبصرین کے مطابق اٹھارویں ترمیم کا بل جب پارلیمنٹ قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوا تو پیپلز پارٹی نے آرٹیکل62-63 کو ختم کرنے کی تجویز دی تو مذہبی سیاسی جماعتوں کی ہمنوائی میں سب سے زیادہ مخالفت ن لیگ نے کی تھی۔ ان دنوں ن لیگ یہ سمجھتی کہ ان آرٹیکلز کو پی پی پی کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔

DW

Comments are closed.