ارشد نذیر
مندرجہ ذیل ریاست اداروں سے ابھرنے والے یا “ابھارے جانے والے” عمومی تصورات
جمہوریت برابر ہے جمہور ہی کی خواہشات اور امنگوں کے تحت چلنے والا نظام
مقننہ برابر ہے قانون ساز ادارہ
انتظامیہ برابر ہے بنائے گئے قوانین کے نفاذ کا ادارہ
عدلیہ برابر ہے بلا امتیاز انصاف فراہم کرنے والا ادارہ
میڈیا برابر ہے جمہور یعنی عوام اورملک میں موجود سول سوسائٹی کی حقیقی آواز کا ترجمان
لیکن اس ملک میں یہ تمام ادارے “کس جمہور” کی حقیقی ترجمانی کرتے ہیں آج تک کسی کو کوئی پتا نہیں۔ ایک اور لفظ جو ہمارے ملک میں بہت زیادہ مستعمل ہے وہ ہے “اسٹیبلشمنٹ“۔ سادہ لفظوں میں تو اسٹیبلشمنٹ “بندوق والی سرکار” کو کہا جاتا ہے لیکن ہمارے جیسے سیاسی، سماجی اور ثقافتی پسِ منظر میں “اسٹیبلشمنٹ” کی تعریف متعین کرنے میں “بندوق والی سرکار” اور “غیر بندوق والی سرکار” اپنے اپنے مفادات کے لئے “ایک صفحہ” پر رہتے ہیں اور یہ اُس وقت تک “ایک صفحہ” پر ہی رہتے ہیں جب تک ان کے “معاشی مفادات” پر ضرب نہیں لگتی۔
جونہی ان کے معاشی مفادات پر ضرب پڑتی ہے تو پھر“بندوق والی سرکار” اور “غیربندوق والی سرکار” کے اس کھیل میں تاش کے پتوں کی طرح ری شفلینگ ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کام دونوں ہی کی مرضی اور مشاورت سے ہوتا ہے۔ البتہ جو کھلاڑی خود کو میدان سے باہر ہوتا محسوس کرتے ہیں وہ ان تضادات کو ہوا بھی دیتے ہیں اور منظرِ عام پر بھی لے آتے ہیں۔ “غیر بندوق والی سرکار” خود کو جمہورکا نمائندے ہونے کے ناطے سے ملک کی حکمرانی کا حقیقی حقداربھی سمجھتی ہے۔
یہی “غیر بندوق والی سرکار” عالمی بنک اور آئی ایم ایف سے قرض لیتی ہے اور ساتھ ہی پالیسیاں بھی لے آتی ہے۔ انہی پالیسیوں کو “جمہور” یعنی “عوام” پر مسلط کرتی ہے۔ ایسی پالیسیوں کے لئے وہ کبھی بھی جمہور سے پوچھنا گوارہ نہیں کرتی۔ ایجنڈا ان کا ہی چلتا ہے۔ ہمارے حکمران بس اس سارے نظام میں ٹھیکوں، کک بیکس اور کرپشن سے پیسے کی حد تک وابسطہ رہتے ہیں۔ ان کے اللے تللے بھی ہمیشہ کی طرح جاری و ساری رہتے ہیں۔ یہی غیر بندوق والی سرکار ہی ہوتی ہے جو درآمدات اور برآمدات کے توازن میں بگاڑ پیدا کر کے ملکی معیشت کو تباہ کرتی ہے۔ تجارتی خساروں اور جاری تجارتی خساروں میں اضافہ کرتی ہے۔ سالانہ بجٹ میں صحت اور تعلیم جیسے شعبوں پراخراج کو دوربین لگا کربھی دیکھیں، تب بھی وہ نظر نہیں آتے۔
زراعت کے مداخل کی مہنگائی چھوٹے کسانوں کی کمر توڑ رہی ہے۔ چھوٹے کسان جو کہ دیہی آباد کا 85٪ ہیں کے لئے جسم و روح کا رشتہ قائم رکھنا روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ خشک ہوتے دریاؤں اور پانی کی تقسیم کے مسائل کوبھی انہیں غیر بندوق والی جمہوری حکومتوں نے ہی مزید گہرا کیا ہے۔ شہروں اور دیہاتوں کی آبادیوں کا تناسب مسلسسل بگاڑ کا شکار ہے لیکن اس “غیر بندوق والی سرکار” کے پاس اس حوالے سے کوئی موثرمنصوبہ بندی نہیں ہے۔ اسے تو صرف اپنی جیبیں بھرنے سے غرض ہے۔
جمہور اور عوام ان کے لئے وہ الفاظ ہیں جو صرف بحرانوں کے دنوں میں یاد کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن بحران سے پہلے خواص کچھ بھی ہوتا رہے ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رنگتی۔ لوگوں کے لئے پینے کے صاف پانی، صحت و صفائی، تعلیم اور روزگار جیسے مسائل میں اضافہ بھی یہی کرتےہیں۔ ڈھٹائی کے ساتھ ہر سال بجٹ کے موقع پراعداد و شمار کے گورکھ دھندے بھی جاری و ساری رہتے ہیں۔ لیکن اپنے وجود اور اس نظام کی بقا کے لئے نعرہ “جمہور” ہی کے لگتے ہیں۔
بندوق والی سرکار کیری لوگر بل پر واویلا کرتی ہے۔ اپنا حصہ لینے کی بھرپور سیاست کرتی ہے۔ جب بات بن جائے تو پھرچپ سادھ لیتی ہے اوراپنے“حصہ پانی” پر گزارہ کرتی رہتی ہے۔
انتظامیہ بھی عوام ہی کے ٹیکسوں پر پلنے کے باوجود خود کو “عوام کا خادم” سمجھنے کے بجائے “حکمران” ہی سمجھتی ہے۔ تنخواہ بھی لیتی ہے، ظلم بھی کرتی ہے۔ رشوت بھی لیتی ہے۔ رشوت کے حوالے سے یہ سدا بہار واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ کیسا ہی بحران کیوں نہ ہو۔ ملک میں “صادق و امین” کا غلغلہ کیونکہ مچا ہوا ہو۔ اس کی رشوت کا بازار سدا کی طرح پررونق رہتا ہے۔ جمہور کے بنیادی مسائل ستر سال سے وہیں کے وہیں ہیں۔ آج بھی تھانوں میں ایف آئی آر تک نہیں درج ہوتی۔ غریب آدمی انصاف لینے کے لئے ایڑیاں رگڑ رگڑ کرمرجاتا ہے، کوئی پوچھتا نہیں۔ عوامی مسائل سے متعلق تمام محکموں اور بلخصوص پبلک سیکٹر کے محکموں میں آج بھی ڈھڑلے رشوت کے ریٹس بڑھے ہیں۔ انتظامیہ کو فوج کا خوف ہے اور نہ ہی عدلیہ کا۔ مققنہ تو ویسے بھی کرپشن انہی کے ذریعے سے کرتی ہے۔
عدلیہ جو خود کرپشن میں گردن تک دھنسی ہوئی ہے، انصاف اور عدل کی پاسدار بنی بیٹھی ہے۔ نواز شریف کوئی چار مہینے پہلے سے تو کرپٹ نہیں ہوا وہ تو گزشتہ چالیس سال سے کرپشن کررہا ہے۔ البتہ ہماری عدلیہ کو اس کا آج پتا چل رہا ہے۔ عدلیہ کے ایک حاضرسروس جج اور سابق فوجیوں پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں لیکن وہ تو ابھی تک صادق اور امین ہی ہیں۔ عدلیہ نے اس حقیقت سے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ ہماری عدلیہ کو زعم ہے کہ وہ عوام کو بلاامتیازانصاف فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔
وقت پڑنے پر یہ ججز پی سی او پر حلف بھی اُٹھا لیتے ہیں اورفضا تبدیل ہونے پرآئین کی بالادستی کے لئے یہی عدلیہ “صادق اور امین” جیسی اسلامی اصطلاحوں کی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامیائے گئے آئین کی تشریحات کی روشنی میں فیصلے بھی صادر کرتی رہتی ہے۔ اس اسلامائزڈ آئین کی روشنی میں فیصلے انگریزی میں لکھتی ہے ۔ حوالے انگریزی ملکوں کے دیتی ہے اور انصاف “صادق اور امین” والا کرنا چاہتی ہے۔
عوامی فیصلوں کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ جو قیدی انصاف کے انتظار میں جیلوں میں ہی اپنی جان تک کی بازی ہارجاتے ہیں، اُن کی بریت کے فیصلے بھی انہیں عدالتوں سے ان کی موت کے دو دو سال بعد جاری ہوتے ہیں۔ لیکن انہیں ذرا بھی شرم نہیں آتی۔ اگر کوئی عام آدمی چیخ اٹھے تو “توہینِ عدالت ” جیسی شقوں سے لال سرخ آنکھیں دکھاتی ہے۔ انتظامیہ اورعوام کے درمیان قانونی تعلق میں بہتری لانے کے حوالے سے عوام کا عدلیہ پرجواعتماد ہے، وہ اس کالم میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
جتنی موٹی موٹی گالیاں ان معزز ججوں کو عدالتوں کے باہر ہم عوام دیتے ہیں یا ان سے متعلق جس طرح کے لطائف مشہور ہیں ہو یہاں بیان نہیں کئے جاسکتے۔ لیکن عدلیہ بھی اپنا وجود بلا امتیاز انصاف کے “عوامی نعرے” پر ہی قائم رکھتی ہے اور بحران کی صورت میں “نظام کو بچائے جانے” کی استدعا اسی بنیاد پر ہی کرتی ہے۔
میڈیا جس طرح سے جمہور کے بجائے سرمایہ داروں کے موقف کی نمائندگی کرتا ہے اور ان کو کوریج دیتا ہےاس کی تو مثال نہیں ملتی۔ یہاں آپ کو کرائے کے تجزیہ نگار، مبصر اور اینکرپرسن سب مل جائیں گے۔ ایک سے بڑھ کر ایک اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے حاضر ہے۔ نان ایشوز کو ہوا دینا ہو، دہشت گردی کی خبروں پردوسروں سے سبقت لینی ہو، ریٹنگ بڑھانے کے تمام تر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا ہوں، غرض یہاں سب کچھ موجود ہے۔ آخر منڈی کی دنیا ہے یہاں سب بکتا ہے۔ آپ کو ہر چینل اس دوڑ میں شامل نظر آئے گا۔
عوام میں بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت موجود ہے۔ حکمرانوں کے پاس حکومت کرنے کے روایتی طریقوں کے علاوہ دیگر کوئی طریقہ نہیں ہے۔ عموماً موجودہ نظام میں اصلاحات کی تجاویز پیش کردی جاتی ہیں۔ ان اصلاحات میں سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوریت کا قیام، اداروں کی تطہیر، فوج اور سیاستدانوں میں متوازن تعلقات، اداروں کو اپنی اپنی حدود کے اندر رہ کرکام کرنے جیسی تجاویز، اختیارات کی عدم مرکزیت اور ان کی نچلی سطح تک منتقلی وغیرہ وغیرہ کے دانشورانہ طریقے عوام کوبتائے اور سمجھائے جاتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر آج ہمارے پاس بری جمہوریت ہے تو کل اچھی جمہوریت بھی آجائے گی۔ یعنی جمہوریت، مزید جمہویت اور مزید جمہوریت کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ لیکن جمہور کو یہ پوچھنے کی اجازت نہیں ہے کہ عوام کے حقیقی مسائل آخر اس مزید جمہوریت میں حل کیوں نہیں ہوتے۔ لیکن یہ تجاویزبھی قطعاً نئی نہیں ہیں، ان کی بازگشت بھی کوئی چارعشروں سے مسلسل سنائی دی رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخران تجاویز پرعمل کیوں نہیں ہورہا۔ ہمارے روایت پسند لبرل ان کا سہل پسندانہ جواب تلاش کرلیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا جاتا۔ اسٹیبلشمنٹ ہی اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
آخرہمارے دانشور یہ ماننے کے لئے کیوں تیار نہیں ہیں کہ ہماری فوج اب کوئی جنگ جیتنے کے لئے نہیں بلکہ ملک میں بنائے گئے “ایٹم بم” کی حفاظت کرنے کے لئے ہے۔ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ اب جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت جیسے نظریات بے وقعت ہوچکے ہیں۔ اس لئے اب وہ دینا کی سب سے بڑی “تجارتی کمپنی” ہے۔ اُس کے پاس جغرافیائی کے بجائے “نظریاتی سرحدوں” کی حفاظت کا فارمولہ موجود ہے۔
اُس نے ملک کے اپنے “گہرے تزویراتی اثاثے” بنائے ہوئے ہیں۔ یہ تزویراتی اثاثے ملک میں فرقہ واریت اور مسلکی نفرتیں پھیلاتے ہیں۔ افغانستان، ہندوستان اور ایران جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی یہی اثاثے کام آتے ہیں۔ کیا ہوا جو وقتاً فوقتاً وہ بھی اپنا حصہ مانگ لیتے ہیں۔ اس طرح ہماری اس “بندوق والی سرکار” کو “غیر بندوق والی سرکار” سے معاملات کرنے کے مواقع بھی مل جاتے ہیں۔ ہماری فوج کو بلوچ بھی ملک دشمن محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی سیاسی جدوجہد سے بھی انہیں ہندوستان کی بو آتی ہے۔ ویسے ہماری فوج کے نامہ اعمال میں جنگ جیتنے کی کوئی نوید بھی تو نہیں ہے ناں۔
آخر ہم یہ کیوں نہیں مانتے کہ جب ملک میں کوئی نظریاتی سیاست نہیں ہوگی تو پھر یہی ہوگا جو آج ہورہا ہے۔ آج ہماری اسٹیبلشمنٹ کے اپنے معاشی مفادات اور ایجنڈے ہیں۔ وہ ہر صورت میں اپنے معاشی مفادات کا تحفظ چاہتی ہے۔ “اسٹیبلشمنٹ” اپنی روایتی تعریف میں بھی خاصی لچکدارواقع ہوئی ہے اور توسیع پسندانہ ایجنڈے کے تحت اُن کو اپنا ساتھی بنا لیتی ہے جو اُن کی لائن پرچلتے ہیں اور باقیوں کو قبول نہیں کرتی۔ یہ صورتحال فطری طورپر تضادات کو جنم دیتی ہے۔ اُس کی اس توسیعی پسندانہ تعریف میں ہر وہ سیاسی پارٹی اورکچھ مخصوص حالات میں چند افراد جواُن کے ایجنڈے کو سیاسی رنگ بھی دے سکیں، کو شامل کرلیتی ہے۔
ایسے لوگوں کے لئے کسی وقت اور کسی بھی صورت میں اقتدار پر براجمان ہونے یا نووارد ہونے والی سیاسی پارٹی میں اپنا مقام بنانے کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ دیگر کے لئے فضا غیر ہموار ہی رہتی ہے۔ یہ “غیربندوق والے سیاسی کردار” بھی درحقیقت “بندوق والی سرکار” کے دستِ راست بن کر“اسٹیبلشمنٹ” ہی کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس طرح “اسٹیبلشمنٹ” موقع محل کے مطابق اپنی تعریف بدلتی رہتی ہے۔ اس سارے کھیل میں جمہور یا عوام کہیں بھی نہیں ہوتے لیکن “غیر بندوق والے سیاستدان” بھی عوام کے نام پر عوام دشمن پالیسیاں چلانے کی معافی مانگنے کے بجائے پھر سیاست سیاست اور جمہوریت جمہوریت کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔
ایسی صورتحال سے نکلنے کے دو ہی راستے ہیں ایک راستہ تو یہ ہے کہ مدارالمہام سنبھالنے والے یہ سب لوگ خود بخود ٹھیک ہوجائیں اور اعلیٰ اخلاق کا ثبوت دیتے ہوئے عوام پر رحم کھائیں اور اوپر بتائے گئے فارمولوں پرازخودعمل پیرا ہوجائیں اورملک میں سماجی، سیاسی اور معاشی انصاف کا بول بالا کریں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسی اخلاقیات سیاست میں کبھی چلی ہے اور نہ ہی کبھی کامیاب ہوسکی ہے۔ سیاست میں اخلاقیات کی بنیاد پر تبدیلیوں کا خواب دینے والوں کو یہ بات دل سے نکال دینی چاہئے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ عوام کو بڑے پیمانے پر سیاسی شعور دے کر ایسے استحصالیوں کے خلاف میدان میں لایا جائے اورعوام خود ہی بیان کردہ طرزِ حکومت کو اپنانے کے لئے ان حکمرانوں پر دباؤ ڈالیں۔ یہ بھی اوپر بیان کردہ طریقہ کی طرح کا ایک اصلاحی طریقہ ہے۔ اس کے لئے جس طرح کا سماجی، سیاسی اور معاشی شعور رکھنے والا معاشرہ درکار ہے، اس کی تخلیق کیسے کی جائے، ہمارے اصلاح پسندوں کے پاس اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔ اس لئے یہ ٹامک ٹویاں مارتے پھرتے ہیں۔ کبھی ایک سیاسی پارٹی سے امیدیں باندھ لیتے ہیں تو کبھی کسی دوسری سے۔ اس کے برعکس سیاست دان کمال بے غیرتی سے ایک پارٹی سے چھلانگ لگا کردوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں اور اقتدار کے مزے لوٹتے رہتے ہیں۔
جمہوریت کے حوالے سے ہم مغرب ہی کے مقلد ہیں اور انہی کے نظام کی تقلید کرتے ہیں، جمہوریت وہاں جس طرح سکڑ رہی ہے، اس حوالے سے ہمارے دانشوروں کے پاس کوئی تحقیق موجود نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے مخصوص جغرافیائی اور ثقافتی پسِ منظر میں کوئی متبادل طریقے سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
چین بھی جس طرح سے اپنا سامراجی تانا بانا پھیلا رہا ہے اس سے بھی ہم کنزیوم سوسائٹی بنتے جارہے ہیں۔ ہم جدید معاشرے کے ساتھ کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ نہ بین الاقوامی تجارتی منڈی اور نہ ہی بین الاقوامی سروسزسیکٹر میں ہمیں کوئی مانتا ہے۔
غربت اور امارت میں ہر روز وسیع ہوتے فاصلے نفرتیں بڑھا رہے ہیں۔ محنت کشوں میں بھی بے چینی بڑھ رہی ہیں لیکن اجتماعی سیاسی شعور کا وہاں بھی فقدان نظر آتا ہے۔ ہمارے نام نہاد لبرل اور نیولبرل اس کا کوئی سنجیدہ حل پیش نہیں کررہے۔
تیسرا راستہ یہ ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ یہ خرابیاں سرمایہ داری نظام کی جڑوں میں موجود ہیں۔ اگر سرمایہ داری نظام کے ساتھ چلنا ہے تو پھر ان بیماریوں اور برائیوں کو اپنی تقدیر سمجھ کر انہی کے ساتھ گزارہ کرنا ہوگا۔ لیکن جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے غلط ہے اور اسی نظام کی وجہ سے ہورہا ہے تو گویا ہم پورے نظام کو چیلنج کررہے ہوتے ہیں۔ جی ایسی سوچ کے پیدا ہوتے ہی پورا نظام ہی چیلنج کی زد پر آجاتا ہے۔ کیونکہ نظام کو چیلنج کرنا اور کوئی متبادل تخلیق کرنا معمولی کام نہیں ہوتا، اس لئے انسانی ذہن اس سے فرار ہی کے راستے تلاش کرتا ہے۔ اب چوائس ہمارا اپنا ہے کہ ہم نے اپنے لئے کونسا راستہ منتخب کرنا ہے۔
♥