مُلا عمر کا المیہ اور خورشید احمد ندیم کا نوحہ

سید چراغ حسین شاہ

mullah ummar

ابھی زید حامدکی سعودی عرب میں اسلامی نظام کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی خبریں ختم نہیں ہوئیں تھیں کہ امت مسلمہ کو اوپر تلے کئی اندوہناک خبروں کا سامنا کرنا پڑا۔پہلے خبر آئی کہ ملک اسحاق پاکستانی ریاست کے ہاتھوں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مُلا عمر کے انتقال کی خبر بھی مذہبی حلقوں میں انتہا ئی دکھ اور غم کے ساتھ سنی گئی اور اگلے دن ہی ایک اور مجاہد اسلام جلال الدین حقانی کے انتقال پرمُلال کی خبر بھی آگئی۔

ملک اسحاق کی شہادت پر مذہبی حلقوں خاص کر سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی جانب سے کوئی مذمتی بیان جاری نہ ہوا۔شاید حکیم اللہ مسعود کی شہادت کے بعد ان کو چپ سی لگ گئی ہے۔لیکن مجاہد اسلام حافظ سعید مدظلہ ابھی ماشاء اللہ حیات ہیں۔ انہوں نے مُلا عمر کے انتقال کی خبر سنتے ہی بلا تاخیرغائبانہ نماز جنازہ ادا کی ہے ۔سنت بھی یہی ہے۔

مولانا مودودی کے ایک ذہین مرید اورجاوید احمد غامدی کے اولین شاگرد ،خورشید احمد ندیم شاید مُلا عمر کی نماز جنازہ میں بروقت شامل نہ ہوسکے لیکن انہوں نے ان کی وفات پر یکم اگست کو روزنامہ دنیا میں اپنا قرض اتارنے کی کوشش کی ہے ۔ خورشید احمد ندیم ایک صلح جو قسم کے کالم نگارہیں۔ ان کی تحریر میں کوئی سختی نہیں پائی جاتی بلکہ مولانا مودودی جیسا دھیما پن اور جاوید غامدی جیسا مدلل انداز پایا جاتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی لفظوں میں چھپی گہری سرزنش کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کی شخصیت بھی انتہائی دل گداز اورمتاثر کن ہے ۔ انتہائی میٹھے اور نپے تلے انداز سے اساطیری داستانوں کو بیان کرنے کا فن جانتے ہیں ۔جب بولتے ہیں تو طبیعت سیر نہیں ہوتی۔

ان کے سٹائل کو دیکھ کر شہید جنرل ضیاء الحق کی یاد آجاتی ہے ۔ مرحوم بھی انتہائی ، غریب پرور،منکسر المزاج ، انتہا ئی سادہ اور حلیم طبیعت کے مالک تھے ۔ امت مسلمہ کا درد اپنے دل میں لیے ہوتے تھے۔ان کی بھی خواہش تھی کہ پوری دنیا میں تو نہیں لیکن کم ازکم اس خطے میں اسلام کا بول بالا ہو ۔اگرچہ کچھ ناپسندیدہ عناصر یا دشمنان اسلام ان کی راہ میں آجاتے تھے جن سے سختی سے نمٹنا ضروری ہو جاتا تھا کیونکہ وہ سربراہ مملکت کے ساتھ ساتھ سپہ سالار بھیتھے۔

جبکہ خورشید احمد ندیم ابھی دعوت کے مرحلے میں ہیں ،اقتدار ملا نہیں، اس لیے سختی ان کے مزاج میں جگہ نہیں پاسکی ہے۔لیکن جس انداز سے انہوں نے مُلا عمر کا تعزیت نامہ لکھا ہے اس سے مجھ جیسے گناہگار فقیر کو خوف کی ایک جھرجھری سی محسوس ہوئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ مُلا عمر کی وفات کا اعلان عام ہو گیا، حریت کی داستان اپنے انجام کو پہنچی، دکھ کا گہرا احساس دامن گیر ہے۔ لیکن اس حسرت کے ساتھ کہ کاش ان کی رخصتی اہتمام کے ساتھ ہوتی ۔ ۔۔‘‘شاید ان کا اشارہ خلفائے راشدین یا امام عالی مقام یا امیر المومنین جنرل ضیاء الحق کی طرف ہے۔

مُلا عمر کے متعلق لکھتے ہیں’’ انہوں نے اپنے جہاد کا آغاز 1994 میں ایک مقامی کمانڈر کے خلاف کاروائی سے کیا۔ اس نے ایک نوجوان کو یرغمال بنایا اور اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنائے رکھا۔ جہاد کے نام پر مسلط ہونے والے ان کمانڈروں کے خلاف عوام کا پیمانہ صبر سے لبریز ہونے کو تھا۔ یہ واقعہ ناقابل برداشت ثابت ہوا ۔ مُلا عمر کھڑا ہوا اور پھر لوگوں نے اس کمانڈر کی لاش کو سربازار لٹکتے دیکھا‘‘۔

مزیدلکھتے ہیں کہ ’’ مُلا عمر ایک سادہ طبیعت آدمی تھے ۔ یہ سادگی ان کے اسلوب اقتدار میں آئی تو حسن بنی۔ یہی سادگی ان کے فہم دین کا حصہ بنی تو اس نے صرف انہی کو نہیں اسلام کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔لوگ بظاہر طالبان کا نام لیتے اور درحقیقت اسلام کو نشانہ بناتے ۔ اسے ایک ماضی کی داستان ثابت کرتے ایک فرسودہ خیال جو آج کے دور میں ناقابل عمل ہے۔ زیادہ بلند آہنگ مذہب اور تہذیب کو بھی متصادم ٹھہرانے لگے۔ یہ رویہ اگر تعصب نہیں تو جہالت کا مظہر ضرور تھا۔۔۔ طالبان بت توڑیں تو فرد جرم اسلام کے خلاف، وہ عورتوں کو تعلیم سے روکیں تو بدنامی اسلام کے نام پر۔ وہ فنون لطیفہ پر پابندی لگائیں تو تہذیب دشمنی کا الزام اسلام کے سر۔ مُلا عمر کی سادگی نے ان کے فہم اسلام میں ظہور کیا تو اسلام کو دفاعی جگہ پر لا کھڑا کیا‘‘۔

اسے بھی اسلام کی آفاقی سچائی ہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے دین کی آواز اٹھانے والے مجاہدین اسلام، انتہا ئی سادہ اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ملک اسحاق رحیم یار خان کے گاؤں ترنڈہ وساوے والا میں پان کی دکان کرتا تھا اور مُلا عمر قندھار کی کسی مسجد کا امام تھا۔ جبکہ مُلا فضل اللہ لفٹ آپریٹر تھا اور منگل باغ بس کنڈکٹر تھے، افغان جہاد کے ایک اہم کردار ،غازی میجر مست گل جہاد سے واپسی پر چائے کا کھوکھا چلانے لگ گئے ۔لیکن کسے معلوم تھا (سوائے آئی ایس آئی کے) کہ اللہ نے انہیں ایک بڑے مقصدکے لیے چنا تھا مگر وائے افسوس کہ یہ افراد اس نادر موقع سے فائدہ کیوں نہ اٹھا سکے ۔ مجھ جیسے گناہگار فقیر کو یہ معمہ ابھی تک سمجھ نہیں آیا کہ اسلام کی کشتی جیسے ہی بیچ منجدھار میں پہنچتی ہے تو اسلام کیوں بدنام ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ شاید یہ جدید تعلیم کا فتور بھی ہو سکتا ہے ۔ قبلہ ندیم صاحب ہی اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں گے۔

قبلہ ندیم صاحب لکھتے ہیں کہ ’’مُلا عمر کا کوئی ایجنڈہ نہیں تھا۔ القاعدہ کا ایجنڈا تو تھا ہی عالمی۔ مُلا عمر مگر روایت کے اسیر ہو گئے۔ مطالبہ ہوا تو اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا کہ وہ ان کا مہمان ہے۔ اس کی ایک قیمت افغانستان، پاکستان اور ساری امت مسلمہ( اس کی نشاندہی نہیں کی) کو ادا کرنا پڑی۔مہمان نے بھی ابھی اپنی ذات کے لیے پوری امت کو ایک عذاب میں جھونک دیا۔۔۔‘‘

آخر میں فرماتے ہیں ’’ اگر اسامہ اپنی جان دے کر امت مسلمہ کو اس عذاب سے محفوظ کر سکتے تو یہ ان کی ایک خدمت ہوتی۔۔۔ افسوس کہ مُلا عمر نے روایت کو اور اسامہ نے جذبات کو ترجیح دی کوئی اس پیغمبرانہ بصیر ت سے فیض نہیں پا سکاجس کا مظاہرہ صلح حدیبیہ میں ہوا۔۔۔ مُلا عمر یہ نہیں کر سکے اس لیے ہم آج انہیں حسرت کے ساتھ رخصت کر رہے ہیں۔ دل اداس ہے ، ان کے بارے میں وہی تبصرہ کیا جا سکتا ہے جو ایک صاحب علم نے اسامہ بن لادن کے بارے میں کیا تھا ۔ دل ان کی عزیمت پر رشک اور ان کی بصیر ت پر ماتم کر تا ہے۔ میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کرے اور ان کو اپنی مغفرت سے نوازے‘‘۔

Comments are closed.