ٹوٹتے اور بدلتے خوابوں کے درمیان

بیرسٹر حمید باشانی

اس دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے، جس کے سارے خواب پورے ہوئے ہوں۔ بیشتر لوگ خوابوں کی ایک برات لے کر زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی ایسا نہیں ہوتا، جس کے سارے خواب پورے ہوئے ہوں۔ ان میں دنیا کی کامیاب ترین اور مشہور شخصیات بھی شامل ہیں۔ سائنسدانوں، شاعروں ،ادیبوں اور سیاست دانوں کی ہزاروں سوانح عمریاں اس کی گواہ ہیں۔ کوئی زندگی میں استاد بننے کا خواب دیکھ رہا تھا تو وہ پارلیمان کا ممبر بن گیا۔ جو پائلٹ بننا چاہتا تھا وہ سائنسدان بن گیا۔ کوئی حکمران اشرافیہ کا حصہ بننا چاہتا تھا وہ تاجر بن گیا۔

اپنی خواہشات اور خوابوں کے آئینے میں ناکام ہونے کے باوجود کچھ زندگی میں کامیاب ترین لوگ ثابت ہوئے۔ انہوں نے اپنے میدان میں ، جس کا انہوں نے انتخاب کیا، یا محض حادثاتی طور پر اس میں چلے گئے ، اس میں بے پناہ کامیابیاں اور شہرت حاصل کی، جس کی وجہ سے ان کی ناکا میاں یا ٹوٹے ہوئے خواب پس منظر میں چلے گئے۔ دنیا ان کو کامیاب لوگوں میں شمار کرتی ہے،مگران کے ٹوٹے خوابوں اور ناکامیابیوں کا کسی کو نہ علم ہوتا ہے، نہ ہی اس سے دلچسبی۔ لیکن جن لوگوں کے خواب ٹوٹے ہوتے ہیں، یا جن لوگوں نے زندگی کی مجبوریوں کے پیش نظر اپنے خواب ہی بدل دیے ہوتے ہیں، ان کے کے لیے یہ بات بڑی اہم ہوتی ہے کہ ان کے کچھ خواب ادھورے رہ گئے، انہیں اپنے ٹوٹے ہوے خوابوں کا احساس ہوتا ہے۔ انہیں اپنے ادھورے رہ جانے والے خوابوں پر افسوس ہوتا ہے۔ انہیں اس بات پر بھی افسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے خوابوں پر ایڈ جسٹمنٹ کرنے پر مجبور ہوئے، لیکن پھر وہ یہ سوچ کر یک گونا اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ اگروہ اپنے خوابوں پر ایڈجسمنٹ نہ کرتے، بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے خواب نہ بدلتے تو وہ زندگی میں مکمل طور پر ناکام اور تباہ ہو جاتے۔

یہ افراد اور اشخاص کا قصہ ہے۔ مگر اس میں جو اصول ہے ، وہ ریاستوں اور قوموں پر بھی صادق آتا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال، ان کی کامیابیوں اور تباہیوں کے پس منظر میں یہی اصول کارفرما ہوتا ہے۔ افراد کی طرح دنیا میں کئی قوموں، ریاستوں، اور سلطنتوں نے طرح طرح کےخواب دیکھے۔ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے کئی راستے اختیار کیے۔ جنگیں لڑیں۔ امن معاہدے اور سمجھوتے کیے۔ مگر تاریخ میں ہر قوم یا ریاست نہ تو اپنے خوابوں کی اصل تعبیر پا سکی اور نہ ہی اپنی خواشات کے مطابق زندگی کو ڈھال سکی۔ طویل تاریخی عمل کے دوران کئی قوموں اور ریاستوں نے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے خواب بدلے، اور اپنی بقا کے لیے نئے راستے تلاش کیے۔ جنہوں نے ایسا نہیں کیا وہ تباہ کن انجام سے دوچار ہوئے۔

 تاریخ کی دس بڑی ایمپائرز پر ایک نظر اس اصول کی تصدیق کرتی ہے۔ ان میں سے برٹش ایمپائر کا قصہ توابھی تک جاری ہے، لیکن یہ خواب بدلنے اور نئے حالات کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی ایک شہکار مثال ضرور ہے۔ جس سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اس نے اپنے آپ کو ایک چھوٹے سے جزیرے تک محدود کرنا گوراہ کیا، اپنے بدلتے خوبوں اور خواہشات کی روشنی میں ایک نیا روپ دھارن کیا۔ بدلتی ہوئی دنیا میں اپنے لیے نیا کردار اور نیا مقام تلاش کرنے کی کوشش کی۔ زندگی کو بہت سارے شعبوں میں اپنا لیڈرشپ رول برقرار رکھا۔ تعلیم، طبی سائنس، ٹیکنالوجی اور گورننس میں اپنا لوہا منوانے کی کوشش کی۔یہ قوم نئے رول میں اس دنیا میں اپنے لیے کیا مقام حاصل کرتی ہے ، اس سلسلے میں حتمی طور پر کچھ کہنا فی الحال مشکل ہے، لیکن اس سلطنت نے نیا روپ دھار کر اپنے اپ کو ماضی کی ان عظیم سلطنتوں کی فہرست سے نکال دیا، جن کا دنیا سے نام و نشان ہی مٹ گیا۔

اسی طرح ماضی کی دیگر عظیم سلطنتوں میں سائرس اعظم کی پرسین ایمپائر، چینیوں کی ہین ڈائینیسٹی، منگول ایمپائر، سپینش ایمپائر، سوویت ایمپائر سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس لمبی کہانی کا مقصد یہ ہے کہ افراد، اقوام اور ریاستوں کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے اپ کو بدلنا پڑتا ہے۔ پرانے خوابوں اور فرسودہ خواشات سے جان چھڑانی پڑتی ہے، اور یہی ان کی بقا یا نئی شکل میں ایک تسلسل کا راز ہوتا ہے۔ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی، لیکن حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ یہ خواب زمینی حقائق سے متصادم نہ ہوں۔

ہر ملک اور ریاست کے اپنے زمینی حقائق ہوتے ہیں، جنہیں ہم عام زبان میں معروضی اور موضوعی حالات کہتے ہیں۔ ملکوں کو ان حالات اور حدود کے اندر رہ کر خواب دیکھنے ہوتے ہیں۔ پاکستان کوئی استشناء نہیں ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ لیکن ترقی پذیری بھی اب ایک پرانی اصطلاح ہے، اب اس کی مزید ذیلی اقسام بنا دی گئی ہیں، جن کا تعین کسی ملک کی آمدن کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو ترقی پزیر ملک کی کسی بھی قسمیا زیلی اقسام میں شامل کیا جائے ایک بات طے ہے کہ اس ملک کو ترقی پذیری کا عمل جاری رکھنے کے لیے کچھ بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے۔اس ضرورت کا ادراک کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک ترقی یافتہ ملک اور ایک پسماندہ یا ترقی پزیر ملک میں بنیادی فرق کیا ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ایک ترقی یافتہ ملک کے پاس اعلی درجے کی معیشت ہوتی ہے۔ یہ معیشت عموما ایک اعلی درجے کی صنعتی ترقی پر استوار ہوتی ہے۔ یہ معیشت جدید ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے۔اس کے پاس ایک مضبوط انفراسٹرکچر ہوتا ہے۔ متنوع معیشت ہوتی ہے۔ جما جمایا اور قابل اعتماد مالیاتی نظام ہوتا ہے۔ اس کے پاس ایک منظم اور مربوط نظام صحت اور تعلیم ہوتا ہے۔ایک مناسب فی کس آمدن ہوتی ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی ایک خاص سطح تک بلند ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی کم یا ناقص ہے تو وہ ملک ترقی یافتہ ملک نہیں ہو سکتا۔ ترقی یافتہ ملک بننے کے لیے ان چیزوں پر فوکس ضروری ہے۔

پاکستانی لیڈرشپ نے کبھی کوئی ایسا خواب ہی نہیں دیکھا جس کا دور پرے کا تعلق بھی مذکورہ بالا چیزوں کے بارے میں ہو۔ اس کے برعکس یہاں کی حکمران اشرافیہ اور لیڈرشپ اس ملک کو ایک سیکیورٹی سٹیٹ بنانے کا خواب دیکھتی رہی ہے۔ یہاں گھاس کھا کر بم بنانے کی باتیں ہوتی رہیں۔اور اس پر تالیاں بجتی رہی۔ یہاں قرض لیکر میزائل بنانے کے منصوبے بنتے رہے۔ مگر یہاں کسی نے انفرا سٹرکچر بنانے کا خواب نہیں دیکھا۔ عالمی معیار کے مطابق مالیاتی نظام بنانے کی بات نہیں کی گئی۔ عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے بارے میں کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ اور عملی طور پرکوئی ایک ایسا قدم بھی اٹھایا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے یہاں کسی کے دل میں ترقی یافتہ بننے کی کوئی خوہش کوئی خواب ہے۔

پاکستان میں اس وقت کسی بھی سطح پر انفراسٹرکچر کا کوئی بڑا منصوبہ زیر غور نہیں۔ مالیاتی نظام کو ایف اے ٹی ایف(فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کی شرائط پوری کرنے کے بعد مکمل سمجھا جا رہا ہے، اس میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بنیادی تبدیلی کا کوئی خیال کئی موجود نہیں۔ صحت و تعلیم کو پسماندگی اور فرسودگی سے نکالنے کے لیے کوئی بجٹ ، کوئی سوچ موجود نہیں۔ حکمران اشرافیہ کے سارے منصوبے واجب ادا قرض کی ادائیگی اور مزید قرض کے حصول کے گرد گھومتے ہیں۔ ان حالات میں اگر کسی نے اس ملک کو کبھی ترقی یافتہ ملک بنانے کا خواب دیکھا بھی تھا تو وہ خواب اب یا تو ٹوٹ کر بکھر چکا ہے، یا حالات کے مطابق بدل گیا ہے۔

Comments are closed.