قلعہ ڈیراول کے آخری بین

ڈاکٹر مزمل حسین۔ لیہ

img_0144-1_tn1
قدیم تاریخ سے سرائیکی وسیب کی اپنی منفرد شناخت اور پہچان ہے۔ روہی تھل ، دامان او رکچھی کے علاقے اس کے دلفریب رنگ ہیں۔ فطرتی حسن، دریا اور صحرا اس کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ صوفیاء کی یہ دھرتی اپنے سینے پر آثار قدیمہ اور لوک ورثہ کے کئی نایاب اور الگ نشان رکھتی ہے۔ اس دھرتی کا مرکز ملتان اپنی قدامت کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنا تعارف رکھتا ہے۔ روہی، چولستان اور تھل نہ صرف اپنا اپنا لوک ادب، ریت روایت اور موسمی تغیرات کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں بلکہ یہاں پر بعض آثارِ قدیمہ سرائیکی دھرتی کی تاریخی اہمیت کو اجاگر بھی کرتے ہیں۔ ان آثار قدیمہ میں ایک ’’قلعہ ڈیراول ‘‘بھی ہے۔

احمد پور شرقیہ سے نکلتی ایک ٹوٹی پھوٹی سنگل سڑک سیدھی قلعہ ڈیراول کو جاتی ہے۔ یہ قلعہ یزمان نامی شہر میں موجود ہے۔ یہیں سے چولستان کا آغاز ہوتا ہے چولستان میں چالیس سے زائد تاریخی قلعے اور دیگر تاریخی مقامات ہیں جن میں ’’قلعہ ڈیراول‘‘ نقش اولین ہے۔ اسی پس منظر میں اس قلعے کو چولستان کا’’ گیٹ وے‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ قلعہ ڈیراول اپنی ساخت اور فن تعمیر میں منفرد اور نرالی شان والی پرشکوہ عمارت ہے۔ فنکارانہ انداز میں گولائی میں بنائی گئی اس کی بلند وبالا دیواریں ہر ناظر کو متوجہ کرتی ہیں۔ اس کی شان وشوکت او رجاہ وجلال بتاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں کوئی بڑی سج دھج اور ذوق والا بادشاہ حکومت کرتا ہوگا۔ اس قلعے کی بلندوبالا فصیلیں وقت کے کئی نشیب وفراز، جنگ وجدل کے دلخراش واقعات اور فتح وشکست کے مناظر کی چشم دیدگواہ ہیں۔ اس کے درودیوار میں کئی راز دفن ہیں۔

ہماراا لمیہ دیکھیے کہ ہم میں سے یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس نے او رکب اس کا سنگ بنیاد رکھا؟ اس حوالے سے تاریخ محوخواب ہے۔ کہتے ہیں کہ صدیوں پہلے اسے کسی بھٹی ذات کے مہاراجے نے تعمیر کروایا تھا جبکہ ایک اور روایت کے مطابق یہ قلعہ جیسلمیر کے شہزادے’’دیوراول سنگھ بھاٹیہ‘‘ نے پانچ ہزار سال قبل وسطی ایشیاء اورہندوستان کے درمیان تجارتی اشیاء کی حفاظت کی غرض سے تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ زیادہ عرصہ تک راجستھان کے راجپوت حکمرانوں کے پاس رہا۔

1735ء کے لگ بھگ بہاول پور کے عباسی حکمرانوں نے اسے اپنے قبضے میں لے کر دارالحکومت کا درجہ دیا۔ قلعے کی موجودہ پختہ عمارت اسی دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ قلعے کی بیرونی دیواروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں تعمیر کرنے کی غرض سے اینٹیں خصوصی طور پر اُچ شریف سے منگوائی گئی تھیں کیونکہ اُچ شریف اولیاء اللہ کی سرزمین سمجھی جاتی ہے۔ اسی لئے کام کرنے والے مزدوروں نے عقیدت کے طور پر اینٹوں کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک لاتے ہوئے قلعے تک پہنچایا تھا۔1744ء میں شکار پور کے نواب نے عباسیوں سے یہ قلعہ چھین لیا تھا لیکن1804ء میں عباسی نواب مبارک خان نے قلعہ ڈیراول پر دوبارہ اپنا تسلط جمالیا۔ بہت سے لوگ اسے قلعہ دراوڑ کے نام سے بھی پکارتے ہیں جو کہ غلط العام ہے۔

1804ء سے اب تک یہ قلعہ عباسی نوابوں کی ملکیت ہے اور اس وقت نواب صلاح الدین عباسی اس کے مالک ہیں(بحوالہ کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک از غلام عباس سیال) عباسی خاندان کے نامور فرمانروا نواب صادق خان عباسی کے عہد تک اس قلعے کی برابر دیکھ بھال اور مرمت کی جاتی رہی مگر بعد میں نکمے او ربے حس نوابوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ جس سے اس کی حالت مخدوش ہوتی گئی۔
قلعہ کا داخلی دروازہ لکڑی اور لوہے سے اپنی تشکیل پاتا ہے یہ دروازہ بلندی پر نصب کیا گیا ہے جہاں کھڑے ہوکر ہم گردونواح کا جائزہ لے سکتے ہیں او ریہیں سے نوابوں کے قبرستان کا مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔یہ قبرستان نوابوں کی شان و شوکت اور خود نمائی کی دلیل ہے، کچھ ہی فاصلے پر ایک شاندار مسجد ایستادہ ہے جو کسی حد تک لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی موتی مسجد کی یاد دلاتی ہے۔ یہ مسجد نواب بہاول خان نے 1849ء میں تعمیر کروائی تھی، اس کی کشادگی اور فن تعمیر سے نکھرتاحسن نوابوں کی اسلام سے وابستگی کا پتہ بھی دیتا ہے۔ قلعے کے گردونواح میں کچے مکانوں کے کھنڈرات کسی ایسی داستان کی یاد دلاتے ہیں جس میں’’ظالم دیو‘‘ نے آبادی کو ہڑپ کرلیا ہو اور چہار سوسناٹوں کا بسیرا ہو۔

قلعے کی بلند وبالا فصیلوں کے اند رجگہ جگہ گڑھے، ٹوٹی پھوٹی بکھری اینٹیں او رپراسرار اور دل دہلا دینے والے مناظر میں نواب محل، پھانسی گھاٹ، جیل خانہ، سرنگیں، خستہ سیڑھیاں، کھنڈرات کا روپ دھارچکی ہیں۔ نواب محل میں بلندی پر تعمیر کی گئی عمارت میں جو حصہ ہے وہاں کی کھڑکیوں اور بالکونیوں(Bolconies) سے صحرا کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ شاہی حصہ، شاہی قلعہ لاہور شاہی محل کے مشابہ ہے۔ اس کی چھت کا اندرونی نظر نقش اور پچی کاری سے مزین ہے۔ قلعے کے کھلے دالان میں دوخستہ توپیں اور چند نامعلوم لوگوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ سارے کا سارا قلعہ اتنی بے توجہی کا شکار ہے کہ نہ تو یہاں پر کوئی محافظ، نہ پانی کا انتظام اور نہ ہی قلعے سے متعلق کوئی ایسی تحریر ہے جس سے سیاح اس سے متعارف ہوسکیں۔ داخلی دروازے کی چابی نواب کے کسی ملازم کے پاس رہتی ہے۔ جو نذرانہ لے کر اسے کھولتا ہے۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی آپ کا استقبال چمگاڈریں کریں گی، چمگادڑوں کا یہ حال ہے کہ اس دروازے کی دیواروں او رچھت پر گویا چمگادڑوں کا لیپ کردیا گیا ہو، قلعے کے اندر کمروں میں بھی یہی حالت ہے او راتنی ناگوار بدبو ہوتی ہے کہ الامان۔

قلعے کا اندرونی منظر شہنشاہوں اور نوابوں کے جاہ وجلال کی خبردیتا ہے۔چاندنی سے لطف اندوز ہونے کی الگ جگہیں تو چولستان کی وسعتوں سے دل لبھانے کے الگ مقام، نوکروں چاکروں اور قیدیوں کے لئے الگ عمارتیں اور آرام دہ خواب گاہیں الگ مگر ہنستے بستے اور پر رونق اس قلعے کی موجودہ حالت زار ہر آنے جانے والوں کو اشکبار کردیتی ہے لمحہ موجود میں یہ قلعہ فقط چمگادڑوں کا رین بسرابن کر رہ گیا ہے، بعض کمروں میں اُگنے والی جھاڑیاں تناور درخت بن کر کمروں کی چھتوں کو بھی کراس کرگئی ہیں۔

بین کرتی قلعے کی مجموعی شخصیت اپنے لاوارث ہونے کی دہائی رہی ہے۔ اس کا مالک نواب صلاح الدین عباسی، جس کو شاید اب اپنے خاندانی وقار کا احساس بھی نہیں رہا۔ چوبیس گھنٹے میں چوبیس بار اپنا سیاسی موقف بدلنے والا یہ نواب، تاریخ اور فطرت کے فیصلوں اور اصولوں سے بے خبر صرف اسی قلعے کو رونق بخش دے تو ہمیشہ کے ایک کے لئے اس کا نام تاریخ میں امر ہوجائے گا۔ سنا ہے یو اے ای کی حکومت نے نواب صاحب سے قلعے کو پندرہ برس کے لئے لیز پر لینے کی درخواست کی ہے مگر ڈرا سہما مصلحت پسند یہ نواب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اگر یہ قلعہ یو اے ای کے پاس کچھ عرصے کے لئے چلا جائے تو اس کی حالت سنورسکتی ہے۔ نہیں تو آنے والی نسلیں اس کا ذکر حرف کتاب اور لوک گیتوں میں سنیں گی۔

اداسیوں اور سناٹوں کی پوشاک پہنے یہ قلعہ ہمارے ریاستی ذہنیت کا عکاس بھی ہے۔ لق ودق صحرا میں ایستاد ہقلعہ ڈیراول اور دیگر آثار قدیمہ نہ صرف ہمارے ماضی کے محافظ ہیں بلکہ ہماری تہذیب کے انمٹ نقوش بھی ہیں۔ اُن کی حفاظت کرکے ہم آنے والی اپنی نسلوں تک اپنی تاریخ بھی پہنچا سکتے ہیں اور سیاحت کے شعبے کو فروغ دے کر قومی آمدنی بھی بڑھا سکتے ہیں۔ مگر ہماری ریاست کی ترجیحات اور ہیں بطور خاص پنجاب کی حکومت مخصوص مائنڈسیٹ کے پس منظر میں، تہذیبی حوالوں پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دیتی، یہ اُن اربن (Urban) املاک پر تو لالچی نگاہ رکھتی ہے جہاں شاپنگ سنٹر اور پلازے بنائے جاسکیں مگر تہذیب وثقافت او رتاریخ کے درخشاں نشانوں کو نظر انداز کردیتی ہے کیونکہ ہماری ریاست کے مخصوص مقاصد اسی رویے اور مائنڈسیٹ میں پنہاں ہیں او رپھر جب قلعہ ڈیراول جیسے آثار قدیمہ سرائیکی وسیب کے حوالے میں آئیں تو خاموشی اختیار کرنی ہی پڑتی ہے، یہ تو نواب صلاح الدین عباسی کا تہذیبی شعور کام آئے تو کام بنے ناکہ قلعہ ’’ڈیراول‘‘ کی حفاظت اور دیکھ بھال نہ صرف نوابوں کے خاندانی جاہ ووقار کو محفوظ رکھے گا بلکہ سرائیکی وسیب میں بسنے والوں کو بھی تاریخی حقائق سے آگاہ رکھے گا۔

سنا گیا ہے کہ نواب صلاح الدین عباسی، عباسی خاندان کے آخری نواب ہیں اور ان کی وفات کے بعد حکومت پاکستان کے ساتھ کئے گئے ایک آئینی معاہدے کے مطابق یہ قلعہ، احمدپور شرقیہ میں قائم شاہی محل اور بہاول پور میں موجود عباسی خاندان کی جملہ تاریخ عمارات حکومت پاکستان کی زیر نگرانی آجائیں گی(بحوالہ کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک از غلام عباس سیال) اس معاہدے کی روشنی میں تو نواب صاحب کے لئے یہ بات او ربھی ضروری ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی ہی میں اپنے خاندان اور دھرتی کے پرشکوہ نشانوں کو ماضی کی طرح ہنستا بستادیکھ جائیں، اور سناٹوں بھرے اس عظیم قلعے کو جیتی جاگتی زندگی کا خوشنما رخ عطا کرجائیں۔یہی اُن کی اپنی دھرتی کے ساتھ کمٹ منٹ کا لازوال ثبوت ہوگا۔*

One Comment