مادھو لعل حسین کا میلہ المشہور میلہ چراغاں

لیاقت علی

پنجابی ادب سنگت لہور میں پنجابیوں کا ایک ایسا فورم ہے جہاں پنجاب کے لسانی ثقافتی،سیاسی،ادبی اورتاریخ سےجڑےموضوعات اورمسائل بارے بحث و تمحیص ہوتی ہے۔آج کل سنگت کے سیکرٹری منے پر منے پنجابی شاعر اتے دانشور افضل ساحر نئیں جنہاں دی پنجابی زبان و ادب نال کمٹمنٹ بہت پکی پیڈھی اے۔

آج لاہور میں جگت منے پنجابی شاعر اور دانشور مادھولعل حسین کا سالانہ عرس منایا جارہا ہے اوراس وجہ سے لاہور میں مقامی تعطیل ہے اور سنگت کا اجلاس بھی اسی حوالے منعقد کیا جارہا ہے۔ سنگت نے اس اجلاس کا موضوع رکھا ہے،مادھو لعل حسین دےمیلے نال کیہہ واپری( مادھولعل حسین کے میلے پر کیا گذری)۔

منتظمین یقیناً جانتے ہوں گے کہ شاہ حسین دا میلہ روایتی طور پر مارچ کی آخری جمعرات کو شروع ہوکر تین دن جاری رہتا ہے لیکن کیونکہ اس سال مارچ میں روزے آگئے ہیں لہذا مادھولعل حسین کے میلے کی تاریخ بدل دی گئی ہے۔میلے کی تاریخ کے بدلاو سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر کیا گذری ہے اور آگے چل کر کیا گذر سکتی ہے۔

مادھو لعل حسین کا میلہ ہو یا دیگر مقامی تہوار اور موسمی میلے سب کو دو قومی نظریہ کھا گیا ہے۔ ایمن آباد( گوجرانوالہ) میں منعقد ہونےوالا وساکھی کا میلہ پنجاب کا بہت بڑا میلہ ہوا کرتا تھا جس میں بلا مبالغہ پنجاب کے سبھی علاقوں سے پنجابی شریک ہوا کرتے تھے لیکن اب وساکھی کا یہ میلہ محض ماضی کی یادگار بن کر رہ گیا ہے۔ میلے اور عرس پنجاب کے کمپوزٹ کلچر کو جو بلا لحاظ مذہب صدیوں پر محیط مشترکہ تاریخ ثقافت اور زبان کے رشتوں میں بندھا ہوا تھا،دوقومی نظریہ کا اژدھا نگل گیاہے۔ مادھولعل حسین کا میلہ جو تقسیم پنجاب سے قبل پنجابیوں کا بہت بڑا تہوار ہوتا تھا جس میں سکھ پنجابی جوان بولیاں بولدے تے بھنگڑے پاندے آوندےسن۔ہندو دوکاندار مٹھائی کی دوکانیں سجاتے تھے اور مسلمان مادھو لعل حسین کے مزار پر چراغ روشن کرتے تھے۔ یہ ایک تہوار تھا جس میں شریک ہونے کی لئے عورتیں سسرال سے میکے آیا کرتی تھیں اور سسرال والے اپنے جوائیوں کو میلے کے موقع پر تحفے اور نقد رقوم دیا کرتے تھے لیکن تقسیم کے بعد دوقومی نظریہ کے زیر اثر یہ سب کچھ ماضی کے دھندلگوں میں کھوکر رہ گیا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد دو قومی نظریہ کے زیر اثر مادھو لعل اور حسین کے رشتے کو بدلنے کی کوششیں شروع کردی گئی تھیں اور ان دونوں کے باہمی تعلق کو محض مبالغہ آرائی افسانہ یا پھر زیادہ سے زیادہ روحانی قرار دے کر ان کے تعلق کو چھپایاگیااور ایسی کوششیں بہت حد تک کامیاب بھی رہی ہیں۔

یہ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج بڑے بڑے پنجابی دانشور مادھو لعل حسین لکھنے کی بجائے شاہ حسین لکھ کر اپنے ارد گرد پھیلے مذہبی اور فرقہ وررانہ سماج میں اسے قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔میلے سے جڑی بیشتر سرگرمیوں کو ثقافت سے زیادہ مذہب سے جوڑدیا گیا ہے ۔پنجاب کے سبھی صوفی دانشوروں اور شاعروں کے مزاروں کے ساتھ بڑی بڑی مساجد بنادی گئی ہیں اور ان مساجد نے ان شاعروں کی قبور کو غیر اہم بنادیا ہے۔

لاہور کے پیٹرن سینٹ داتا صاحب ہیں نہ کہ مادھو لعل حسین کیونکہ داتا صاحب مذہبی تفریق، تبدیلی مذہب، سماجی اور سیاسی سٹیتس کو کے حامی اور موید ہیں۔ ریاست پاکستان کو ان کے نظریات اپنی پالسیوں سے ہم آہنگ لگتے ہیں اس لئے ان کی شخصیت اور ان کے نظریات کو ریاستی اور حکومتی سرپرستی میں پرموٹ کیا جاتا ہے۔

قیام پاکستان سے قبل داتا صاحب کامزار چھوٹا سا تھا۔قیام پاکستان کے بعد بالخصوص ستر کی دہائی میں اس کو زیادہ وسعت دی گئی۔ بھٹو شہید نے ایران سے ملنےوالا سونے کا دروازہ مزار کو عطیہ کیا تھا۔جس سے داتا صاحب کی اہمیت ،حیثیت اور شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔ن لیگ کے اسحاق ڈار نے تاریخی اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ کی خوبصورت عمارت کو منہدم کرواکر اس کی جگہ قوالی ہال بنوادیا تھا اور اب نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی نے مزار کے ارد گرد 21 کنال مزید زمین ایکوائیر کرکے اس کو وسعت دینے کا پروگرام بنایا ہے۔ یہ زمین خریدنے پر پنجاب کے بجٹ سے اگراربوں نہیں تو کروڑوں روپے تو ضرور خرچ ہوئے ہونگے۔

اس کے برعکس مادھو لعل حسین اور بلہے شاہ کے نظریات اور شاعری کمپوزٹ کلچر اور انسانوں کو بلا لحاظ مذہب جوڑتی ہے لہذا انھیں ہماری ریاست اور حکومت ہمیشہ نظر اندازکرتی ہے۔نہ کوئی حکومتی عہدیدار اور نہ ہی ریاستی اہل کار ان دونوں کے مزاروں پر حاضری دیتاہے جب کہ داتا صاحب اور آج کل بیبیاں پاک دامناں کے مزاروں پر حکومتی عہدیداروں اور ریاستی اہلکاروں کا جانا آنا لگا رہتا ہے۔

بلہے شاہ کا مزار ہو یا مادھو لعل حسین کا مزار دونوں کی یہی صورت حال ہے۔ معروف دانشور اور ماہر تعمیرات ڈاکٹر غافر شہزاد کا یہ کہنا بہت بجا ہے کہ طریقت کی کمائی سے شریعت(مولوی) کی دال روٹی چل رہی ہے۔مزاروں پر چڑھنے والے چڑھاوں سے ان شاعروں اور دانشوروں کے نام پر کوئی علمی ادبی کام کرنے کی بجائے فرقہ پرستی کو پرموٹ کیا جاتا ہے۔

بلہے شاہ مادھو لعل حسین پنجابی دانشوروں کی اس کھیپ سے تعلق رکھے تھے جو پنجاب کے مشترکہ کلچر کی پیداوار تھے جس میں مذہب اور عقیدے کے نام پر تفرقہ نہیں تھا آج کا پاکستان مذہب فرقے اور عقیدے کے نام پر تفرقہ کرتا ہے۔ اس تفریق کی بدولت جو پاکستان کے عوام پر واپری ہے اور وہی مادھو لعل حسین کے میلے پر واپری ہے۔ مادھو لعل حسین کے میلے کو اس کی حقیقی روح اور مزاج سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان بالخصوص پنجاب کے سماج اور لوکائی کو غیر فرقہ ورانہ خیالات و نظریات کی بجائے انسان دوست اور روشن خیالی پر مبنی نظریات سے جوڑا جائے بصورت دیگر مادھو لعل حسین کے میلے جو بچا کچھا ڈھانچہ موجود ہے چند دہائیوں بعد شائد یہ بھی نہ رہے۔

Comments are closed.