اپنے اپنے تھان میں بند ہیں سارے

ملک سانول رضا

1
ایک بوٹ والوں کی آم شام ہے
تو دوسرے جبہ و دستار کی پناہ میں ہیں
تیسرے کو سوٹ والوں نے مصروف کر رکھا ہے
تو چوتھا گروہ کے ایف سیکے برگر پر ترقی کا راگ الاپ رہا ہے۔

باقی جو بچتے ہیں ان کو سیلاب اور بیماری نے بڑی مہارت سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے
سیلاب جہالت کے بیماری دماغ کی بھی ہوتی ہے۔

ریاست ملک وطن قوم کی اصطلاحات کو درسی کتب کے منشی اساتذہ کے ذمے لگا دیا گیا ہے۔

یہ ہے منظر نامہ

اب ہجرت کرنے سے رہے
ایٹمی مار سے بھی آبادی کم نہ ہوئی۔۔۔
تو پھر کیا جائے۔۔۔

زندگی نے کوئی سکھ آسانی سے دیا ہے کیا۔ ایک پھول کے لئے کئی کانٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
ان حالات میں کیسے پتا چلے کہ کس دوا میں شفا ہے اور کس شفا میں زہر چھپا ہے.

شمالی کعبے کے بت گرے تو دور مغرب میں کہیں سے نعرہ لگا۔۔۔
پھر ہم نے مذہبی انقلابیوں کو بھی اس کے تابوت چومتے دیکھا۔۔۔
لیکن آج معلوم ہوا کہ اس کی 35 سالہ بیٹی ملک کی سب سے امیر خاتون ہے۔۔۔
پھر کسے راہنمائی کرے کوئی۔۔۔

دوسرا ستم یہ بھی ہو رہا ہے (جس پر ہمارے خان زمان نے لکھ کر بھڑوں کے چھتے کو چھیڑا ہے دیکھیں اس شریف کی کیا حالت بناتے ہیں) اس کلاس نے ہر معصوم کو بھکاری اور ہر بے نظیر کو درباری۔
ان حالات میں کام بہت آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔
بہت مشکل اس لئے کہ دھارے کے الٹ چلنے کے لئے لوہے کا جگر چاہیے۔
آسان ایسے کہ سارے جھوٹ بول رہے ہیں آپ تھوڑا کم بولیں
سارے لوٹ رہے ہیں آپ کچھ کم پہ گزارا کر لیں
سارے ننگے پھر رہے ہیں آپ بہت تھوڑے کپڑے سے بھی ستر ڈھانپ سکتے ہیں

صرف اتنا کریں
کوئی گیت گائیے
کوئی سر چھیڑئیے
کسی مندر سے روتی ناری کا سر ڈھانپ دیجئے

لیکن
بینر لگائے بغیر
تصویر اتارے بنا
تالیاں بجائے بغیر
واہ واہ کے سہارے بنا

Comments are closed.