پشتونوں کیلئے سکول کھولنے پر تین سال قید کی سزا ۔۔۔

خان باچا

bacha_khan_reading_newspaper_-_pukhtoogle__3_

۔۔۔جب میں نے 1921 میں پہلا آزاد سکول کھولا توہمارے پاس استادوں کی بہت کمی تھی۔اس لیے بھی کبھی میں خود بھی بچوں کو پڑھاتاتھا۔دوسری بات یہ کہ ہمارے پاس پیسوں کی کمی تھی اور استادوں کو اچھی تنخواہیں بھی نہیں دے سکتے تھے۔

لاہور میں خلافت کانفرنس کیلئے گیاتھا وہاں ضلع بنوں کے گاوءں میراخیل سے تعلق رکھنے والے امیرمختارخان سے ملاقات ہوئی اس نے اپنے دو بیٹے ھمارے سکول میں پڑھانے کیلئے بخش دیئے ۔بڑے کانام امیرممتازخان اورچھوٹے کانام مقصودجان تھا۔مقصودجان سکول کاپہلا ہیڈماسٹرتھا۔

انگریزکو ہمارے سکول پسند نہیں تھے۔وہ ہمارے استادوں کو ڈراتے دھمکاتے اس پہ کام نہ ہوتاتو اچھی تنخواہ کا لالچ دیتے وہ ہمارے سکولوں میں استادوں کو نہیں چھوڑتے تھے۔

لوگوں میں تعلیم ،بھائی چارہ،محبت اور قوم پرستی کاجذبہ پیدا کرنے کیلئے میں نے گاؤ ں گاؤ ں گھر گھر کے دورے شروع کئے۔میرے ان دوروں سے انگریز خوفزدہ ہوگئے۔

سرہملٹن گرانٹ ہمارے صوبے کا چیف کمشنر تھا انہوں نے میرے باپ کوبلایا اور کہا کہ آپ کا بیٹا باچاخان کیا کررہاہے سب لوگ خاموش بیٹھے ہیں وہ سکولیں کھول رہاہے دورے کررہا ہے۔انگریز حکومت سے آزادی کیلئے لوگوں کو اکسا رہاہے۔یہ ٹھیک کام نہیں ہے بیٹے کوسمجھاؤ اور منع کرو ان کاموں سے ۔

سعداللہ جو چیف کمشنر کا سیکرٹری تھاانہوں نے میرے بابا کو کہا کہ چیف کمشنر آپکی بہت عزت کرتا ہے۔آپ چیف کمشنرکیلئے اپنے بیٹے کو نہیں روک سکتے۔

میرا باپ آیا مجھے بٹھایا اور سمجھانے لگا کہ غفار خان بیٹے آپ بڑے اور معزز گھرانے کے بندے ہو زندگی کی تمام سہولیات آپ کومل سکتی آپ کیوں اتنے طاقتور اور ظالم لوگوں سے دشمنی مول لے رہے ہو۔ سب لوگ خاموش ہیں آپ کیوں حکومت کو ناراض کررہے ہو۔

میں نے کہاٹھیک ہے بابا آپ چاہتے ہیں تو نہیں کرونگا۔بہت لوگوں نے نماز چھوڑی ہے میں بھی نماز نہیں پڑونگا۔ پھر آپ یہ نہ کہے کہ نماز کیوں نہیں پڑھتے۔بابا نے کہا نماز تو بیٹا فرض ہے وہ کیسے چھوڑا جاسکتاہے۔میں نے کہا نماز کی طرح علم بھی ہر مرد و عورت پر فرض ہے ۔تعلیم کے بعد انگریز شاید نماز پہ بھی پابندی لگائے تو نماز بھی چھوڑنی پڑیگی۔

کل میراباپ کمشنرکے پاس گیااور کہا کہ آپ لوگوں کی خوشنودی کیلئے ہم اپنے دین کو نہیں چھوڑسکتے۔

گیارہ دسمبر 1921 کو ہم سکول میں فٹ بال گراونڈ بنانے کے کام میں لگے تھے کہ پولیس والے آئے اور مجھے پکڑ کر لے گئے۔کل ڈپٹی کمشنر کے سامنے پیش کیاگیا۔میرا جرم سننے کے بعد ڈپٹی کمشنر نے مجھے 3 سال قید بمشقت کی سزا سنائی اور جیل بھیج دیا۔

One Comment