سچ پر حملہ۔۔۔ پاکستانی میڈیا کتنا آزاد ہے

خان زمان کاکڑ

attack-on-hamid-mir-in-karachi-geo-news-special-transmission-19th-april-2014


عظیم جرمن فلاسفر فریڈرک نطشے کا کہنا ہے ’’ کوئی سچ نہیں ہے۔ صرف تشریحات ہیں ۔ سچ وہ جھوٹ ہے جس پہ اتفاق قائم کیا گیا ہو‘‘۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ’’جھوٹ‘‘ پہ اتفاق کیسے قائم ہو جاتا ہے یا ایک جھوٹ کس طرح سچ کی شکل اختیار کرلیتا ہے؟ مارکسی نقطہ نظر سے جن کے پاس ذرائع پیداوار ہوتے ہیں انہی کے ’فرمودات‘ سچ ہوتے ہیں اور انہی کے ’کارنامے‘ تاریخ بن جاتے ہیں۔

مابعدِ جدید نقطہ نظر سے سچ طاقت کے تعلقات میں جنم لیتا ہے، وہ جو بالادستی کے ایونیوز پہ پھرتے ہیں وہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔ ریاست مہربان ما ں کی مانند ہوتی ہے کبھی بھی اپنے بچوں کو جھوٹ نہیں سکھاتی ہے۔ اس ماں کے بچوں میں پھر ٹیکنا لوجی کے اس تیز ترین دور میں سب سے زیادہ سچ بولنے والا اور بے باک بچہ میڈیا ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں اگرچہ یہ بچہ سب سے کم عمر ہے لیکن سچ بولنے میں کبھی اپنی ماں سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔

ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ ایک لڑکا تھا جس کا باپ سالوں پہلے مرچکا تھا وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا، لڑکا روزانہ ہی باہر لوگوں سے لڑ تے جھگڑتے رات کو گھر واپس آتا تھا۔ اکثر وہ زخمی ہوتا۔ ماں پریشان رہتی تھی اور پوچھتی تھی کہ بیٹا تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے کیوں روز کسی کے ساتھ لڑتے ہواور لوگ تجھے مارتے پیٹتے ہیں؟ بیٹا ایک سادہ سا جواب دے دیتاتھا کہ امی میں سچ بولتا ہوں اس وجہ سے مجھے مار پڑتی ہے۔

ماں اس کی اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوتی تھی اور کہتی تھی کہ بھلا سچ پہ کیوں کوئی خفا ہوتا اور کسی کو مارتا پیٹتا ہے۔ ایک دن بیٹے نے کہا کہ امی اگر میں آپ سے بھی سچ بولوں تو آپ بھی مجھے مار ڈالوگے؟ ماں نے حیرت کے ساتھ کہا یہ کیسا ہوسکتا ہے میں سچ پہ کیوں ناراض ہوجاؤں گی؟ تو بیٹے نے کہا کہ آج میں آپ سے ایک سچ بولوں گا ۔

امی میرا باپ تو سالوں پہلے مرگیا تھا یہ رات کے وقت آپ کے بستر میں دو پاؤں تو آپ کے ہوتے ہیں یہ باقی دو کس کے ہوتے ہیں؟ یہ سنتے ہی ماں نے بیٹے کو زور سے تھپڑ رسید کیا تو بیٹے نے کہا کہ امی میرے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتاآیا ہے۔

لیکن اس کہانی سے ہمیں یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ بیٹا باہر کونسا او ر کتنا’’سچ‘‘ بولتا تھا لیکن ماں کے سامنے اپنے آپ کو سچا اور بے قصور ثابت کرنے کیلئے اس نے ایک’’تلخ سچ‘‘ بیان کیا۔ پاکستانی میڈیا میں اسی طرح کی ایک کہانی سنائی جاتی ہے کہ سچ بولنے کے جرم میں ایک ماں نے اپنے لاڈلے بیٹے کے ساتھ بڑا ظلم کیا۔ ایک سچ کی تحریک چلانے والے پر ریاست نے گولیاں چلائیں۔

اس واقعے کے ردعمل میں میڈیا میں بھی دو طبقے سامنے ہیں اور دونوں معذرت خواہ طبقے ہیں۔ ایک طبقے کا کہنا ہے کہ ماں کو بھی سچ تسلیم کرنا چاہیے اور دوسرے کی دلیل ہے کہ ماں جیسی ہستی پہ انگلی اٹھانا بداخلاقی کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم جیسے عدمِ تشدد پر یقین رکھنے والے لوگ ہر اس عمل کی مخالفت کرتے ہیں جس میں تشدد کا عنصر شامل ہو۔ انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر ایک پر تشدد عمل کی مذمت ضروری ہے ۔لیکن جب بات سیاست کی آجاتی ہے تو پھر’’تشدد‘‘اتنا سادہ مسئلہ نہیں رہتا جس کی صرف مذمت کی جائے بلکہ تجزیہ کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ جنگ اخبار کے کالم نگار اور جیو چینل کے اینکرپرسن حامد میرپر قاتلانہ حملے کی سخت مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اس واقعے کا گہرا تجزیہ ہی ہمیں کسی نتیجے کی طرف لے جاسکتا ہے۔

پاکستان نوآبادیاتی ساخت پر قائم ریاست ہے اس کو یورپی ریاستوں کے ماڈل پہ نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں مختلف نوعیت کے تضادات پائے جاتے ہیں۔ جب تک ان تضادات کو نہ سمجھا جائے اس وقت تک ہم مسائل کا تجزیہ صحیح طریقے سے نہیں کرسکتے۔ پاکستان کا سچ اس کی ریاست اور معاشرے کے معاشی، ثقافتی اور علمی بنیادوں پہ تشکیل پاتا ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ آرمی اور بیوروکریسی کی مخلوط سلطنت ہی تشکیل پاتی رہی ہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں عدلیہ نے بھی اس سلطنت میں اپنے لئے ایک بڑی جگہ بنالی ہے۔

نئے تشکیل پانے والے ریاستی ڈھانچے میں ’آزاد میڈیا‘ نے صرف ایک بڑا کردار ادا کیا بلکہ خود کو اس ڈھانچے میں ایک بڑا حصہ دار بھی بنایا۔ مختلف معاشی گروہوں کے درمیان نئے ابھرنے والے تضادات کو اگر ہم صرف سچ کی لڑائی تک محدود رکھیں تو اس سے نہ صرف ہم ریاست کو ایک واحد اکائی تصور کرکے مغالطوں کا شکار رہیں گے بلکہ اس سے ہم اس عوام کے حق میں بھی خیانت کریں گے جن کو ہمیشہ سچ کی لڑائی میں مار پڑی ہے۔

مشرف دور میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جب ’انکار‘ کیا تو اس کو ’غریب آدمی کے جج‘ کا لقب ملا۔اب جب حامد میر نے’انکار ‘ کی سزا کاٹی ہے تو اس کو بھی ’غریب آدمی کے صحافی‘ کا لقب ملا۔ چیف کے جانثار ریاست کے معاشی تعلقات کے تصادم میں آخر کار جب اپنے چیف سے مار کھا گئے تو ان کو ہوش آگئی اور میر کے جانثارسالوں سے جنگ اخبار اور جیو چینل سے مار کھاتے ہوئے ایک بار پھر مار کھانے کیلئے ایسے انداز میں تیار ہوچکے ہیں جیسے یہی ایک ٹی وی چینل اصلی انقلاب اور تبدیلی کا ضامن ہو، سچ کا علمبردار ہو۔ کیا لیفٹ، کیا انقلابی، کیا قوم پرست اور کیا دانشور! تمام میر کے جانثار بنے ہوئے ہیں۔

جماعت اسلامی کے منور حسن نے جب کچھ عرصہ پہلے فوج کے خلاف ایک بیان دیا تو یہی لوگ سارے فوج کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے اور ایک ایسا تاثر دے رہے تھے کہ وہ فوج اور جماعت اسلامی کے درمیان کشیدگی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ افسانوں پہ پلے بڑے ہوئے لوگ ہیں، ان کا انقلاب، قومی آزادی ، معاشی بہتری اور روشن فکری بھی کچھ اسی طرح کے افسانوں پہ کھڑی ہے۔

حامد میر نے جب اپنے اوپر قاتلانہ حملے کا براہ راست الزام آئی ایس آئی پر لگا یا تو ہم جیسے آئی ایس آئی کے مارے ہوئے لوگ کیسے میر صاحب کو داد دئیے بغیر رہ سکتے ہیں۔ وہ بلا شبہ ایک ’’جرأت مند صحافی ‘‘ ہیں جو براہ راست آئی ایس آئی پر الزام لگا سکتے ہیں۔ ادھرہمارے ہزاروں لوگ قتل ہوئے، تاریک راہوں میں مارے گئے لیکن کسی کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ کسی کے خلاف مقدمہ درج کریں۔ ہمارا مقدمہ ہمیشہ ’’اسمِ نامعلوم‘‘ کے خلاف رہا۔ حامد میر کی یہ ’’جرات‘‘ یا تو مورثی ہے اور یا اس کو یہ جرأت اسی ریاست نے دی ہے جس کے خلاف بعض لوگوں کے بقول وہ اب ایک بہت بڑی سازش کررہے ہیں۔

حامد میر تو اس پیپلزپارٹی سے بھی بڑے جرأت مند نکلے جس کی عوام میں بڑی گہری جڑیں ہیں، اقتدار کے مناصب پہ رہی ہے لیکن اپنی محترمہ کے قاتل پر براہ راست انگلی اٹھانے سے گریز کرتی آرہی ہے اورمیر صاحب اس اے این پی سے بھی بڑے جرأت مند نکلے جس کے کارکن کبھی جیلوں اور ٹارچرسیلوں کی خوراک ہوتے تھے اور اب خودکش حملوں اور بم دھماکوں کی نذر ہورہے ہیں لیکن جب اس کے لیڈر بات کرتے ہیں تو بڑے محتاط لہجے میں مختلف اصطلاحات کا سہارا لے کر کے قاتل کی طرف ایک ایسا اشارہ کرجاتے ہیں جس کو کچھ لوگ تو سمجھ جاتے ہیں لیکن اکثر مزید کنفیوز ہوجاتے ہیں۔

اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے کہ حامد میر میں یہ جرات کہا ں سے آئی؟ سیاسی لحاظ سے ہم کسی بھی قسم کی جرأت کو تحفہ الہی کبھی نہیں سمجھتے بلکہ اس کا کوئی زمینی ذریعہ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ حامد میر کو یہ جرأت امریکہ، انڈیا اور افغانستان نے بھی نہیں دی ا س لئے کہ انہوں نے ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے ان ملکوں کا خوب مذاق اڑایا ہے۔ وہ تو جب پاکستان انڈیا سے کرکٹ میچ جیت جاتا ہے وہ اس کو بھی 16دسمبر کا بدلہ قرار دیتے ہیں، بھنگڑے ڈالتے ہیں اور تلخ طنز سے بھرے قہقے لگا رہے ہوتے ہیں۔ کسی ایسی فضول کتاب کو ڈھونڈ لیتے ہیں جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو مظلوم اور امریکہ کو ظالم دکھایا گیا ہو۔ اس کی تعریف میں وہ کئی پروگرامز کرجاتے ہیں۔ پختونوں کے حوالے سے حامد میر نے کہا تھا کہ سانپ پر اعتبار کرلو لیکن کبھی کسی طوائف پر اعتبار نہ کرو اور طوائف پر اعتبار کرلو لیکن کبھی کسی پختون پر اعتبار نہ کرو۔

ایک پوری قوم کو یہ گالی صرف ایک ’’جرأت مند صحافی ‘‘ ہی دے سکتاہے۔ انہوں نے یہ گالی اس لئے دی تھی کہ کرزئی پہ اعتبار نہ کیا جائے۔ ان کی وجہ سے پختونوں کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور بھارت نے وہاں پہ پاکستان کے خلاف ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔ میر صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ کرزئی پاکستان سے افغانستان گئے تھے اور ان کی واپسی بھارت میں ہوگی۔ بھارت اور افغانستان کے اتنے بڑے دشمن صحافی پر اگر اپنی ہی ریاست نے حملہ کیا ہے تو پھر یہ ریاست نہایت ہی نمک حرام اور نادان ریاست ہے۔ حامد میر نے ہمیشہ کہا ہے کہ جو جناح اور اقبال کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا وہ نظریہ پاکستان کے خلاف ہے اور پاکستان کا دشمن ہے۔ اس سے بڑا سچ کیا ہوسکتا ہے؟

ہمارا تو ایک معصومانہ سا خیال ہے یا ہمارا ایک سازشی نظریہ ہے کہ میر صاحب پہ یہ حملہ امریکہ، انڈیا اور افغانستان کے ایجنٹوں نے کیا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس حملے کے بعد میر صاحب کا ’’سچ‘‘ مزید طاقتور اور مقبول ہوگیا جس سے آزاد میڈیا کو اتنا بڑا فائدہ پہنچا کہ اب ایسا کوئی سچ نہیں ہوگا جوکہ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا سے باہر کوئی وجود رکھتا ہو۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ اس حملے کے بعد ہمارے قوم پرست، ترقی پسند اور لبرل دوستوں کی زیادہ تر سیاسی مشاورت اب حامد میر کے ساتھ ہوگی۔ یہ تعلقات کوئی پانچ چھ سال سے بڑے دوستانہ ماحول میں چلے آرہے تھے لیکن اب اس میں اور بھی اعتماد، وسعت اور پختگی آئے گی۔ ہمارا سیاسی اور نظریاتی زوال تب شروع ہو گیا جب ہم نے سیاست کو ٹی وی سکرین پہ کرنا ، دیکھنا اور سیکھنا شروع کردیا۔ اب کسی کو بھی یہ خیال نہیں کہ سیاست ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں نہیں بلکہ گلی کوچوں اور دیہاتوں میں لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے۔

طالبان کو اخلاقی جواز دینا، عمران خانی مغالطوں کو رواج دینا، پانی سے مو ٹر چلانا، دہشت گردوں کو اپنے ٹاک شوز میں روز بلانا، انصار عباسی کو بغل میں رکھنا اور بہت سارے دیگر تاریخی کارنامے اسی آئی ایس آئی کے دشمن حامد میر نے کیے ہیں۔ اگر کسی کی یاد داشت کام کرتی ہے تو آئی ایس آئی کے اس مخالف نے طالبان کے مُلاعمر کے اتنے اچھے قصیدے لکھے تھے جن کی کوئی مثال نہیں ملتی، یہ وہی شخص ہے جو طالبان کے افغانستان کو ساری دنیا میں سب سے پرامن ملک ثابت کرتا تھا۔

میر صاحب نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے لانگ مارچ پر پروگرام کرنے سے ان سے ناراض تھی۔ بہت سارے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ میر صاحب نے بلوچوں کا بڑا ساتھ دیا ہے اور وہ خود بھی کچھ اسی طرح سمجھ رہے ہیں۔ حقیقت میں بھی میر صاحب ریاست کو یہ نصیحت کرتے ہوئے سنا گیا ہے کہ بلوچ ہمارے اپنے لوگ ہیں، خان آف قلات جناح کے بہترین دوست تھے، بلوچ محب وطن پاکستانی تھے، ہم نے ان سے برا سلوک کیا جس کی وجہ سے وہ ناراض ہوگئے، ہم ان کو اپنے وسائل پر اختیار دے کر انہیں مناسکتے ہیں۔ میر صاحب ایسے معذرت خواہانہ جملوں اور نصیحت آموزی میں نہ صرف تاریخ کا مذاق اڑاتے ہیں بلکہ سیاست کو بھی ایک انتہائی سطحی اور اخلاقی عمل ثابت کرتے ہیں۔

حامدمیر کا بلوچوں کے ساتھ جو تعلق ہے اس کو بلوچ قومی تحریک کے ایک راہنما ڈاکٹراللہ نذر نے ان کے نام ایک خط میں بہت واضح کرکے بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر میر صاحب کے نام لکھتے ہیں

’’جناب حامد میر! نو آبادیاتی ریاست کے فرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے دانشوروں میں آپ کی ایک لیڈنگ پوزیشن ہے۔ ریاست کی زیادہ تر پالیسیاں آپ کی برادری کی مشاورت سے بنتی ہیں۔ لیکن علم اور شعور سچ کی طرفداری کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ جان پال سارتر نے فرانسیسی ہونے کے باوجودنو آبادیاتی ریاست کے خلاف الجزائر کی تحریک کو اپنے قلم کے ذریعے سپورٹ کیاا ور تاریخ کا ایک سنہرا باب لکھ دیا۔

سارتر کی طرح آپ بھی ایک دانشور ہو۔ لیکن آپ نے نہ صرف بلوچستان میں استعماری ریاست کے غیرانسانی، غیر اخلاقی اور دہشتگردانہ روئیے کی حمایت کی ہے بلکہ آپ نے سرگرمی سے ریاست کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ بلوچ سرمچاروں کو کس طرح ختم کیا جائے اور ان کی سرزمین کو کس طرح قبضے میں رکھا جائے۔ آپ نے شہید اسد مینگل کے چھوٹے بھائی اختر مینگل اور ایجنسیوں کے درمیان معاہدے میں ایک پل کا کردار ادا کیا ہے۔ آپ نے کبھی بھی بلوچ کو ایک قوم کی حیثیت نہیں دی ہے اور نہ یہ تسلیم کیا ہے کہ آزادی ہر قوم کا بنیادی حق ہے۔ یہ تو صرف ایک دانشورانہ سازش سے ایک قوم کو آزادی سے محروم رکھنا ہے‘‘۔

2013کے الیکشن میں جب بلوچستان میں اخترمینگل کی پارٹی کو شکست ہوئی تو حامد میر نے ایک ٹویٹ میں لکھاکہ آج ڈاکٹر اللہ نذر غلط ثابت ہوئے۔ اگر اخترمینگل اور ایجنسیوں کے درمیان کوئی معاہدہ ہوتا توآج اخترمینگل کی پارٹی جیت جاتی۔ کیا خوبصورت دلیل ہے۔ جن لوگوں نے سیاست کو جنگ اخبار اور جیو چینل سے سیکھا ہے وہ حامد میر کے ایسے خوبصورت دلائل دیکھ کرکے ان کے شیدائی بن جاتے ہیں۔

لیکن اس حقیقت کو بہرحال تسلیم کرنا ہوگا کہ جناب حامد میر اور اس کے اخبار اور چینل نے پاکستانی ریاست اور بلوچوں کا ’’صلح‘‘ کروانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ بلوچ قومی تحریک کا تجزیہ ایک ایسے انداز سے کرنا جہالت کی انتہاء ہے کہ ہم کو اپنے لوگوں سے ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے ویسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں اگر کوئی آئی ایس آئی کا نام لیتا ہے تو یہ کون سا بڑا کارنامہ ہے۔ یہ نام تو اب ساری دنیا لیتی ہے۔ اگر حامدمیر کی زبان سے نکل جائے تو کون سا آسمان گرے گا۔ کیا ہم اس کیلئے حامدمیر کی دانش کے محتاج ہیں؟ کیا بلوچ اس وجہ سے پاکستان سے نفرت کرتے ہیں کہ وہ حامدمیر کا ٹی وی پروگرام دیکھتے ہیں اور کیا بلوچ سرمچاروں نے پہاڑوں میں کوئی ٹی وی کیبل لگا رکھاہے؟

پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ’ الم ترکیف ہر کسی کو آتا ہے لیکن اس کیلئے منہ مْلا عثمان کا چاہیے‘۔ مْلا عثمان کس طرح بن جاتا ہے، کون اسے بناتا ہے اور اس کے منہ میں کیا رکھا گیا ہے؟ ان سوالات پر گہرائی سے غور کرنے والے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا میں ہر چینل میں تلاوت دراصل ’’الم ترکیف‘‘ کی ہی ہوتی ہے اور سچ کے اداروں نے جن لوگوں کو مْلا عثمان بنایا ہوا ہے، وہ آپس میں کبھی ’’صحافی برادری‘‘ بن جاتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بھی درج کرجاتے ہیں۔ یہ سچ بناتے بھی ہیں، پھیلاتے بھی اور مقبولِ عام بھی کرتے ہیں۔

ریاست اور حامدمیر میں کوئی فرق نہیں، ہمارے لئے حامد میر اور مبشر لقمان میں کوئی فرق نہیں ہونا چائیے، جاوید چوہدری اور نجم سیٹھی دونوں کے شوز دیکھنا وقت کا ضیاع ہے، میڈیا کے نئے لبرل ڈارلنگز کے کاسمیٹک انگلش سے لطف اندوز ہونا خطرے سے خالی عمل نہیں، پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز میں آئی ایس آئی کے لکھے ہوئے خطبے پڑھے جاتے ہیں اور حامد میر نے یہ خطبے سب سے زیادہ پڑھے ہیں۔ (ماہنامہ نیا زمانہ مئی 2014)۔
Twitter:@khanzamankakar

Comments are closed.