مہر بیتی

ڈاکٹر پرویز پروازی

book-review-the-genius-of-ghulam-rasul-mehr-by-khaled-ahmed-4745

مشہو ر صحافی جناب غلام رسول مہر کی خودنوشت ’’مہربیتی‘‘ کے عنوان سے محمد حمزہ فاروق نے مرتب کی اور الفیصل ناشران اردو بازار نے 2010 میں شائع کی ہے۔ غلام رسول مہر فرصت کے اوقات میں اپنی اولاد کو اپنی زندگی کے واقعات سناتے رہتے تھے۔ ان ہی واقعات کو ان کی اولاد نے مرتب کر دیا ہے اور یہ لکھ کر کہ ’’ مولانا مہرکی زبانی لکھے گئے حالات جو انہوں نے وقتاً فوقتاً لکھوائے‘‘ کتاب چھپنے کو دے دی۔ کتاب کے مرتب جناب حمزہ فاروقی اس سے قبل مولانا عبد المجید سالک کے افکار و حوادث کو مرتب کرکے شائع کر چکے ہیں۔ گویا وہ انقلاب اور انقلاب کے مدیران کا خاصہ گہر ا مطالعہ رکھتے ہیں۔ کتاب کے اندر بھی انہوں نے مختلف مقامات پر مفید حواشی ایزاد کیے ہیں جس سے مہر صاحب کی بیان کردہ بعض باتوں کی توضیح بھی ہو گئی ہے۔

غلام رسول مہر کا نام ہمارے ادب میں غالب شناسی کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہے مگر اس مہربیتی میں مہر صاحب کی صحافتی زندگی ہی بیان ہوئی ہے کہ یہی ان کی زندگی کا محور تھی۔ مہرصاحب نے اپنی زندگی کے ’’ستائیس سال اور آٹھ ماہ اخبار نویسی میں بسر کیے‘‘ (مہربیتی صفحہ 192)اور اپنے قومی اور سیاسی نظریات پر ثابت قدم رہے۔ مولانا غلام رسول نے بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد صحافت میں قدم رکھا۔ زمیندار میں ان کی ابتدا ہی اداریہ رقم کرنے سے ہوئی۔ ان کا طریق استدلال تفصیلی تھا یعنی ہر مسئلہ کے مالہ و ماعلیہ پر تفصیل بحث کرتے تھے اور وہ اداریے قسطوں میں شائع ہوتے تھے۔

بیسویں صدی کے ابتدائی بیس سال مسلمانان ہند کی زندگی کے بڑے اہم سال تھے مہر صاحب نے اس دور کے بعد صحافتی میدان میں قدم رکھا’’ میں 1921 کے اواخر اور 1922 کے اوائل میں اخبار نویسی کے لیے لاہور آیا۔ میں نے سب سے بڑھ کر جس سیاسی مقصدکے لیے کام کیا وہ یہ تھا میثاق لکھنو ختم ہو جائے۔ مسلم اقلیتی صوبوں کے بعض افراد نے پنجاب و بنگال کی اکثریت کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا تھا اسے بحال کیا جائے تاکہ مسلمان ہندوستان کے بڑے صوبوں میں فعال اورکارفرما عنصر کی حیثیت میں کام کر سکیں۔میری اخباری زندگی کے کم و بیش پندرہ سال صرف اس تباہی خیز میثاق کو ختم کرنے میں صرف ہوئے‘‘ (صفحہ 234)۔

مسئلہ حجاز پر ان کی صحافتی زندگی کے معرکہ خیز مقالے لکھے گئے ۔جداگانہ انتخابات پر ان کی رائے سے اختلاف کرنے والے بہت ہوئے مگر ان کاتوڑ کوئی نہ کر سکا۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے نظریات کی وجہ سے بعض مخالفین نے انہیں قیام پاکستان کا مخالف بھی قرار دیا مگر حقیقت اپنی جگہ قائم رہی۔ ان کے دیپاچہ نگار نے لکھا ہے کہ’’ مہر صاحب نے معاندین کے اس پراپیگنڈے کا جواب دینا پسند مناسب تصور نہ کیا اور صحافت و سیاست سے الگ ہو کر خود کو علمی و اددبی خدمات کے لیے وقف کر دیا(صفحہ ۷)۔

بہ نظر غائر مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مہربیتی میں ان کی صحافتی زندگی کے بھی تمام اہم واقعات شامل نہیں ہیں صرف وہی کچھ بیان ہوا ہے جو مہر صاحب کو یاد رہا یا جو بیان کرنا چاہتے تھے۔

مہر صاحب کی زندگی پر مولانا ابو الکلام آزاد کے اخبار الہلال کا گہر ا اثر تھا۔ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی اس اخبار کے خریدار بن گئے تھے بعد کو ان کے اسلوب پر بھی الہلال کی گہری چھاپ رہی۔ مولانا آزاد کے قائم کیے حزب اللہ کے بھی رکن رہے بلکہ حیدرآباد سے اخبار نکالنا چاہا تو حزب اللہ کی رکنیت ہی ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی اور انہیں اخبار کی اجازت نہ ملی بلکہ اس کی وجہ سے ان کی سکول انسپکٹری کی ملازمت بھی چلی گئی اور یہ واپس آگئے۔

زمیندار میں ان کا ساتھ عبدالمجید سالک سے رہا۔ دونوں میں ایسی گہری دوستی اور رفاقت پیدا ہوئی کہ عمربھر کا ساتھ بن گئی۔دونوں میں خیالات کا اختلاف بھی رہامگر انہیں یک جان و دو قالب ہی سمجھا جاتا رہا۔زمیندار چھوڑ کر انقلاب شروع کیا تب بھی ان کی رفاقت قائم رہی۔

ؔ ’’مہر بیتی ‘‘اور عبدالمجید سالک کی ’’سرگذشت ‘‘ میں وہی فرق ہے جو دونوں کی شخصیت میں ہے۔ سالک صاحب کے والد احمدی تھے اس لیے سالک صاحب کے تعلقات بھی احمدیوں سے زیادہ تھے ۔ مہر صاحب نے بھی اس تعلق کو خوب نباہامگر اپنے اعتقادات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ان کا اصولی موقف یہ رہا کہ ’’ اخبار نویسی کے میدان میں میرے مخاطب مختلف عقائد کے مسلمان تھے میں سوچتا رہا کہ ان میں امتیاز کیوں کروں؟ جن حقوق کو میں اسلامی حقوق سمجھتا تھا وہ صرف اس گروہ کے حقوق نہیں تھے جس میں اپنے تئیں حق پر سمجھتا تھا بلکہ سب مسلمانوں کے حقوق تھے‘‘ (صفحہ 45)

ٓآگے چل کر اسی بات کی وضاحت کرتے ہیں ’’ میرے استدلال کی بنیاد یہ تھی کہ مسلمانوں کے بارے میں دو نظریے تھے ایک نظریہ جس کے مطابق ہر اس شخص کو مسلمان سمجھنا چاہیے جو عرفاً مسلمان تھا اور مردم شماری کے کاغذات میں مسلمان لکھا جاتا تھا۔ دوسرا نظریہ ہر گروہ کے عقیدے کے سلسلے میں شرعی حیثیت کا تھا کہ کوئی کسی گروہ کسی کو مسلمان تصور کرتا تھا اور کسی کو نہیں۔ جب اجتماعی زندگی کا معاملہ آئے گا تو کسی کو مسلمان سمجھنے کے لیے صرف عرفی حیثیت سامنے رکھنی چاہیے(صفحہ46)۔

اس سلسلہ میں مولانا نے تنظیم اخبار میں ’’دردمند مسلمان‘‘ کے نام سے کئی مقالے لکھے ۔ شدھی تحریک شروع ہوئی تو ’’مسلمانوں کی تبلیغی جماعتیں ملکانہ راجپوتوں کے علاقے میں پہنچ گئیں وہاں بعض جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف اخباروں میں بیانات دینے شروع کر دیئے۔ وہاں قادیانیوں اور لاہوری احمدیوں کی جماعتیں بھی پہنچیں زیادہ شور ان کے خلاف برپا ہوا۔ اس دور میں ہم نے ہمت سے کام لے کر زمیندار کے ذریعہ مسلمانوں کے سامنے صحیح مسلک پیش کیا یعنی تمام جماعتوں کوتبلیغ کا حق تھا جو جماعت بہترین کام کرے گی وہ کامیاب ہوگی آپس میں لڑنے جھگڑنے کے بجائے اصل کام پر توجہ کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں مجھ پراور سالک صاحب پر قادیانیت کا الزام لگایا گیا لیکن ظاہر ہے یہ الزام بالکل بے بنیاد تھا اور اسی نارواداری کاکرشمہ تھا جو اپنے سوا کسی کا وجود برداشت نہیں کر سکتی حالانکہ کسی کو مٹا بھی نہیں سکتی‘‘ (صفحہ 49)۔

مہر بیتی سے ہمیں دو نئی باتوں کا علم ہوا ایک یہ کہ اقبال تو شعر گا کر پڑھتے ہی تھے جس پر کسی نے پھبتی کہی تھی ’’ نظمِ اقبالی نے ہم سب کو گویاّ کر دیا‘‘(صفحہ 136) ’’مولانا حالی بھی گا کر شعر پڑھتے تھے‘‘ ( صفحہ 123) اور دوسرے یہ کہ مولانا مہر بھی ہماری طرح حساب میں کورے تھے اور آپ نے ایف اے کا امتحان پاس کرنے پر شکرانے کے دو نفل اداکیے تھے کہ حساب سے جان چھوٹی‘‘( صفحہ 127)۔

نواب صدیق حسن خان کے بارے میں یہ بات بھی قارئین کے لیے نئی ہوگی کہ ’’نواب صدیق حسن خان کی کتابوں میں جہاد پر طویل مباحث تھے لیکن کوئی ایسی بات نہ تھی کہ اسے انگریزوں کے خلاف برانگیختی کا نام دیا جا سکتا۔ بہ ایں ہمہ انگریزوں نے نواب صاحب کے معاملات ریاست سے علیحدہ کرایا۔ ان کے خطابات ضبط کیے اور وہ زندگی کا آخری دور ایک عضو معطل کی طرح گذار کر راہی ملک بقاہوئے‘‘( صفحہ 218)کیوں؟ اس کے لیے تاریخ کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے یہاں بھی اگر حمزہ فاروقی صاحب کوئی حاشیہ درج کر دیتے تو خوب ہوتا۔

غرض مہربیتی مہر صاحب کی کمل کیا نامکمل آپ بیتی بھی نہیں ہے صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ مہر صاحب نے اپنے اولاد کو جو تھوڑا بہت بتانا چاہا وہ بتادیا اور بس!
*

Comments are closed.