پاکستانی میڈیا اور صحافیوں پرآرمی کا سخت دباؤ

جان بونی۔ گارڈین لندن

1636

حامد میر جانتے تھے کہ اس کے ٹی وی شو میں ایک مہمان نے غلطی سے ملک کے آرمی چیف کا درست نام نہیں لیا تو یہ آواز بند ہو جائے گی۔

’’ اس نے صرف اتنا کہا ’’راحیل شریف راحیل شریف ‘‘ یعنی انہیں جنرل نہ کہا ‘‘ حامد میر نے اپنے حالیہ پروگرام کیپیٹل ٹاک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’ میں جانتا تھا کہ جیسے ہی یہ الفاظ اس کے منہ سے نکلے وہ کٹ جائیں گے‘‘۔

پاکستانی میڈیا سخت دباؤ کا شکار ہے۔ اسے آئی ایس پی آر کی ہدایات پر چلنا پڑتا ہے جو جنرل راحیل شریف کو ملکی سیاست میں مقبول بنانے میں مصروف ہے۔ لہذا ٹی وی چینلز آرمی پر معمولی سی تنقید کو بھی سنسر کر دیتے ہیں۔

حتیٰ کہ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا یہ فقرہ بھی سنسر کر دیا گیا جب اس نے آج ٹی وی پر اپنے انٹرویو میں کہا ’’ مجھے وزیراعظم نے بتایا کہ میں تعلیم پر زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرنا چاہتا ہوں مگر آرمی کا دباؤ ہے کہ تمام فنڈز جاری ملٹری آپریشن کے لیے رکھے جائیں‘‘ ۔

حامد میر کو خدشہ ہے کہ ’’سیلف سنسر شپ کی وجہ سے جمہوریت مخالف قوتیں جانتے بوجھتے سیاسی اداروں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہی ہیں اور آرمی کے ادارے کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے‘‘۔

کئی سینئر صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ ہمیں بلواسطہ ذرائع سے فوجی افسروں کی طرف سے دھمکیاں ملتی ہیں کہ یا تو وہ دہشت گردوں کا نشانہ بن سکتے ہیں یا آپ کے متعلق یہ پتہ چلے گا کہ آپ کا انڈین انٹیلی جنس کے ساتھ تعلق ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 2007 میں جنرل مشرف کی جبری رخصت کے بعد فوج کے بارے میں منفی عوامی تاثر کو بتدریج بہتر کیا گیا ہے۔

میڈیا کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ آج پاک فوج کی حمایت بطور ادارہ کی سخت ضرورت ہے کیونکہ پاک فوج کے جوان مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جنگ میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی براڈ کاسٹرز کے لیے نئے جابرانہ قوانین بھی نافذ کیے جارہے ہیں۔

پچھلے ماہ وزارت اطلاعات نے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے جس کی ایک شق یہ تھی کہ الیکٹرانک میڈیا عدلیہ اور مسلح افواج کے خلاف کوئی خبر آن ائیر نہیں جانی چاہیے‘‘ ۔ ٹی وی چینلز کو کہا گیا ہے کہ لائیو پروگرامز میں اگر کوئی ایسی خبر یا تجزیہ آئے تو اس کی آواز بند کردی جائے‘‘۔

پچھلے ہفتے لاہور ہائیکورٹ نے میڈیا ریگولیٹری ادارے پیمرا کو حکم جاری کیا کہ متحدہ قومی موومنٹ جو کہ ملک کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت ہے ، کے کسی رہنما یا کارکن کی تقریر کو نشر نہ کیا جائے ۔ یاد رہے کہ کراچی میں اس جماعت کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے۔

الطاف حسین جو کہ لندن سے پارٹی کی قیادت کررہے ہیں پر عدالت نے آرمی کے خلاف تقریر کرنے پر بغاوت کامرتکب ٹھہرایا ہے ۔ اس تقریر میں انہوں نے جرنیلوں پر کرپشن کا الزام لگایا تھا کہ ان کے خلاف کون کاروائی کرے گا۔

تمام ٹی وی چینلز آرمی کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں حتیٰ کہ جیو ٹی وی بھی جس نے اس کے اینکر حامد میر پر حملے کا ذمہ دار آئی ایس آئی کے سربراہ کو ٹھہرایا تھا۔جیو ٹی وی کے الزام کے بعد کیبل آپریٹرز کو کہا گیا تھا کہ وہ جیو ٹی وی کو آخری نمبر وں پر لے جائے۔

حامد میر نے کہا کہ مجھے مالکان نے ہدایت کی کہ متنازعہ باتوں سے پرہیز کرو کیونکہ اس سے تمھارے ساتھیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ’’انہوں نے کہا کچھ پراسرار لوگوں نے اشتہاری اداروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ جیو کے اشتہارات بند کردو تا کہ وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ نہ دے سکے‘‘۔

’’حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی ٹی وی پر یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان میں فوج جمہوری حکومتوں کا دھڑن تختہ کرتی رہتی ہے اور بلواسطہ حکومت بھی کرتی ہیں لہذا اس کو سیاست سے باز آنا چاہیے‘‘۔ حامد میر نے کہا۔

حال ہی میں میڈیا نے سپریم کورٹ میں جاری اس کیس پر بھی کوئی توجہ نہ دی جس میں آرمی کے زیر اہتمام چلنے والی ہاؤسنگ سکیموں میں کرپشن کے الزامات ہیں اور نہ ہی کوئی آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والی آئی ڈی پیز کی اپنے گھروں میں واپسی کی بات کی جاتی ہے۔

میڈیا بڑی دھوم دھام سے سیاستدانوں کی کرپشن کی کہانیاں نشر کر رہا ہے اور جنرل راحیل شریف کی خدمات بڑھا چڑھا کر بیان کی جارہی ہیں۔ پچھلے ہفتے کامران خان جو کہ ملک کے ایک اہم اور مقبول اینکر پرسن ہیں نے اپنے پروگرام میں مطالبہ کیا کہ جنرل راحیل کی ملکی خدمات کے عوض ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے جو اگلے سال نومبر میں ختم ہورہی ہے۔

ُپاکستان کے صحافی آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی طالبان کے خلاف کاروائی کرنے پر جنرل راحیل شریف کو ایک مقبول شخصیت بنا دیا ہے۔

خبروں کی کوریج میں جنرل راحیل شریف نے سیاسی رہنماؤں کو پیچھے دھکیل دیا ہے   چاہے ان کا اگلے مورچوں کا دورہ ہو یا غیر ملکی رہنماؤں سے ملاقات، ان کو سب سے زیادہ کوریج دی جاتی ہے ۔

جنرل باجوہ کا کہنا ہے کہ ان کی جاب  ہے کہ ’’ عوام تک درست اطلاعات پہنچائی جائیں‘‘۔’’ ہم میڈیا کو یہ نہیں کہتے کہ اس طرح کرو یا فلاں خبر کو سنسر کردو۔ ‘‘ انہوں نے کہا۔ عوام پاکستان آرمی کے کاموں کو پسند کرتے ہیں کیونکہ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ( آرمی کی وجہ سے) حالات میں بہتری آرہی ہے۔

ڈان کے سابق ایڈیٹر عباس ناصر نے کہا کہ’’ ایسامشکل نظر آتا ہے کہ راحیل شریف کو ملازمت میں توسیع ملے کیونکہ اس سے آرمی کے اندر غم و غصہ پیدا ہو سکتا ہے۔۔۔ لیکن حد سے زیادہ اعتماد بھی ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کا سبب بن سکتا ہے‘‘۔

’’میرا خدشہ ہے یہ صرف یکطرفہ تعریف ہے اور ہمارے جرنیل خوش فہمی کا شکار ہو کر کسی مہم جوئی میں ملوث نہ ہوجائیں چاہے وہ اسلام آباد پر قبضہ ہو یا بھارت پر کسی قسم کا حملہ‘‘ عباس ناصر نے کہا۔ ’’اگر آپ کو مسلسل یہ بتایا جائے کہ آپ عظیم اور عظیم تر ہیں تو جلد ہی آپ کو اس بات کا یقین بھی ہو جاتا ہے‘‘۔

Credit: http://www.theguardian.com/world/2015/sep/14/pakistan-press-freedom-army-journalists-military?CMP=share_btn_tw

2 Comments