دہشتگردی کی کوریج اور تفریحی صحافت

رزاق سربازی

badab-620x378

میرے کمپیوٹر اسکرین پر دو الگ الگ متن پھیلے ہوئے ہیں۔

ایک کالم میں بی بی سی اردو سروس سے وابستہ رپورٹر ہارون رشید صحافیانہ معصومیت سے فیصلہ سُنا رہا ہے کہ ً دہشتگردی کی کوریج تفریحی صحافت نہیں۔

ان کا فیصلہ سننے کے بعد میں آنکھیں بند کرلیتا ہوں۔ تصور میں رپورٹروں کی ایک فوج کو دیکھنے لگتا ہوں جو بڈھ بیر میں پاکستان فضائیہ کے کیمپ پر حملے کی کوریج کرتے ہوئے گویا کھیل رہے ہوں اور اچھلتے کودتے پھولے نہ سمارہے ہوں۔ لگتا ہے وہ اپنے اسکرپٹ کے مطابق بالکل درست کام کررہے ہیں۔ دونوں طرف کے بندوق بردار ۔۔۔۔ ہیرو اور ولن ۔۔۔۔۔ بھی ان سے خوش ہیں۔

دکان بھی خوب چل رہی ہے۔

دوسرا متن بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کی اس تقریر کا ہے جو انہوں نے کوئٹہ کے علاقہ سریاب میں کی ہے۔

میں پھر آنکھیں بند کرلیتا ہوں۔ اختر مینگل کے لفظوں کے مطابق ان کی اور ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کی شکلیں تصور میں لانے کی کوشش کرتا ہوں۔

مینگل صاحب کہہ رہے ہیں ، میری اور ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کی شکلیں ’اداکارہ وینا اور میرا جیسی نہیں تو کم از کم بکروں ، بیلوں اور گدھوں سے زیادہ بدصورت بھی تو نہیں۔ جتنی کوریج بکروں ، بیلوں اور گدھوں کو دی جا رہی ہے کم ازکم اتنی کوریج تو بلوچستان کے مسائل کو بھی دی جائے۔ اگر میڈیا والے ہمیں نہیں دکھا سکتے تو کم از کم وہ لاشیں تو دکھا سکتے ہیں جن کے چیتھڑے اڑ رہے ہیں۔

دونوں متن پڑھنے کے بعد میں سوچنے لگتا ہوں۔

صحافی کیوں ان لاشوں کی داستانیں رقم نہیں کرتے جن سے ان کو اچانک دھماکے کی صورت میں پھٹ پڑنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔

ً ہم خبروں کے ایک سمندر میں ڈوبے چلے جارہے ہیں جو کبھی تو متضاد ہوتی ہیں اور زیادہ تر محض تکرار ہی تکرار۔ اخبارات، دنیا بھر کے ہر ملک کے سرکاری بیانات، ٹیلی ویژن کے اشتہارات اور خبریں، غرض کہ سارا عوامی ذرائع ترسیل کا نظام ہمیشہ ان لوگوں کے مفادات کی عکاسی کرتا ہے جو ان خبروں کو جنم دینے والے ہوتے ہیں۔ ً ایڈورڈ سعید کے ایک خطبہ سے ماخوذ ، ترجمہ صدیق قدوائی اور ڈاکٹر اسلم پرویز

Comments are closed.