یہ کیسی روشن خیالی ہے؟

diva
برادرم آصف محمود نے نیا زمانہ اور اس کے ایڈیٹر شعیب عادل کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ حقیقتاً میرے دل کی آواز ہے میں نے بھی جب سے قرآن کے متعلق مغرب کی نام نہاد تحقیق جسے کہانی کہنا زیادہ بہتر ہوگا، پڑھی تھی تو میرے جذبات بھی برادرم آصف کی طرح کھولنا شروع ہو گئے تھے اور سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان لبرل فاشسٹوں کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیسے کروں مگر ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ برادرم آصف محمود بازی لے گئے۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنے بے پناہ خزانوں سے نوازے ۔

برادرم آصف کا کالم پڑھ کر مجھے زاہد حامد کی یاد آگئی جو آج کل سعودی عرب میں چلہ کاٹ رہے ہیں۔ جب سے وہ سعودیہ تشریف لے گئے ہیں پاکستانی میڈیا میں ان کی کمی شدت سے محسوس ہورہی تھی مگر کالم پڑھ کر دل کو ایک گونہ سکون محسوس ہوا کہ ابھی ہماری سرزمین اتنی بھی بانجھ نہیں ہوئی اور نام نہاد لبرل فاشسٹوں کا مقابلہ کرنے والے موجود ہیں جو اسلام کی حقانیت اور ختم نبوت کا تحفظ کرنے کے لیے اپنی گردنیں تک کٹانے کو تیار ہیں ۔ گو ابھی برادرم آصف کی بڑے چینلز تک رسائی نہیں ہوئی لیکن میں یہ پیشین گوئی کر سکتا ہوں کہ جلد ہی وہ جیو ، دنیا اور ایکسپریس نیوز پر خطابت کے جوہر دکھائیں گے۔

برادرم آصف رقمطراز ہیں کہ انہیں (لبرل فاشسٹوں کو) یہ علم ہونا چاہیے کہ نبی رحمت ؐسے ہم مسلمانوں کی محبت کا کیا عالم ہے۔ نام مبارک لبوں پر بعد میں آتا ہے عقیدت اور احترام سے پلکیں پہلے نم ہو جاتی ہیں۔کسی مسلمان کے لیے اس سے بڑی گالی اور اس سے بڑی دل آزاری کوئی نہیں ہو سکتی کہ نبی رحمتؐ کی شان اقدس سے فرو تر بات اس تک پہنچے ‘‘۔ میں برادرم آصف کے جذبات سے صد فیصد متفق ہوں اور یہی وہ جذبہ تھا جس کا مظاہرہ غازی ممتاز قادری نے ایک شاتم رسول کو کیفر کردار تک پہنچا کر کیا وگرنہ وہ ملعون ابھی تک قوم کے اذہان پراگندہ کر رہا ہوتا۔

لبرل فاشسٹوں کا نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ وہ مذہب یعنی اسلام کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔انہیں یہ چیز باور ہی نہیں ہو سکتی کہ اسلام دنیا کا سب سے اعلیٰ اور پرامن مذہب ہے اور یہی وہ مذہب ہے جس نے ایک دن پوری دنیا پر غالب آنا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر جب نبی کریم ؐ پر یہ آیت نازل ہوئی کہ لکم دینکم ولی دین، یعنی میرے لیے میرا دین اور تمھارے لیے تمھارا دین، تو عوام الناس کواللہ تعالیٰ کا یہ حکم بجالانا پڑا۔ اس لیے مکہ کے تمام کافروں نے خاموشی سے میرا دین قبول کرلیا اور نبی رحمت حضرت محمدؐ نے بھی تمام افراد کی پچھلی غلطیاں معاف کردیں ۔ کعبہ کو تین سو ساٹھ بتوں سے پاک کر دیا گیا اور یوں تاریخ میں بغیر خون بہے ایک عظیم الشان انقلاب برپا ہوا۔ اگر کسی شرپسندنے اسلامی ریاست سے بغاوت کرنے کی کوشش کی تو اس کا سر قلم کر دیا گیا۔

ماشاء اللہ سعودی عرب، طالبان اور دولت اسلامیہ ابھی تک دین اسلام کی حقیقی رو ح کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔لیکن پاکستان جیسے کچھ ممالک خلافت کی بجائے جمہوریت کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ انتشار کا شکار ہیں اور لبرل فاشسٹ اپنی من مانیاں کرتے پھر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بقول برادرم آصف ’’ یہ سیکولر ، لبرل اور روشن خیال لوگ بظاہر اعتدال پسندی کے علمبردار ہیں لیکن شعوری طور پر یہ ہر مذہبی اقدار کو پامال کردینا چاہتے ہیں‘‘۔ فقیر کا یہ ایمان ہے کہ جمہوریت جب مسلمانوں کے مزاج سے لگا نہیں کھاتی تو پھر اسے اپنانے کی کیا ضرورت ہے ۔

برادرم آصف محمود کا یہ کہنا کہ’’ قرآن سے متعلق اس طرح کی کہانیوں کا پرچار دراصل سیکولر حضرات کے خبث باطن کا اظہار بھی ہے،ہمارے ہاں سیکولر حضرات ایک نفسیاتی عارضے کا شکار ہو چکے ہیں یہ مذہب اور مذہبی اقدار کی توہین کو روشن خیالی سمجھتے ہیں‘‘۔ اب میں برادرم آصف کو کیا بتاؤں کہ اس خبث باطن کی بنیاد ی وجہ ہمارامغربی نظام تعلیم ہے جو روشن خیالی کے پردے میں مذہب سے نفرت پیدا کرتا ہے اور نام نہادسائنسی ریسرچ کے نام پر سادہ لوح مسلمانوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔

قرآن میں واضح طور پر جب بتادیا گیا ہے کہ کائنات کا وجود کن فیکون اور پھر زندگی کا آغاز حضرت آدم اور اماں حوا سے ہوا مگر ہمارے مغربی تعلیمی نصاب میں صریحاً اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بگ بینگ اور ڈارون کا نظریہ ارتقاء پڑھایا جاتا ہے ۔جب ہمارے ذہنوں میںیہ زہر انڈیلا جائے کہ حضرت آدم کا کوئی وجود نہیں تھا بلکہ انسان بندر سے وجود میں آیاتھا تو اس سے بڑی توہین کیا ہوگی۔ تحقیق کے نام پر اہل مغرب خود تو گمراہ ہوئے ہیں امت مسلمہ کو بھی گمراہی کے راستے پر ڈال رہے ہیں۔

جب ہمارے نونہالوں کو اس قسم کی بے ہودہ تعلیم دی جائے گی تو پھر مذہب پر تو سوال اٹھیں گے اوریہ سلسلہ پھر کسی طور پر رکنے والا نہیں۔امت مسلمہ بھی اس ایشو پر خاموش ہے اور میری برادرم آصف سے درخواست ہے کہ وہ مغرب کی اس سازش کو نہ صرف بے نقاب کریں بلکہ نصاب کو اس طرح کے غیر اسلامی نظریات سے پاک کیا جائے۔ انشاء اللہ برادرم آصف اہل پاکستان کو اپنے ساتھ پائیں گے۔

اور یہی وہ تعلیم ہے بقول برادرم آصف جس کی وجہ سے نام نہاد لبرل فاشسٹ مذہبی اقدار کا تمسخر اڑاتے ہیں محکمات کے بارے میں شکوک پیدا کرتے ہیں مذہب سے وابستہ لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں یا مذہب کے بارے میں بے ہودہ اور لایعنی گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ برادرم آصف لبرل فاشسٹو ں کو درست طور پر متنبہ کررہے ہیں کہ دل آزاری صرف مسلمان کی ہوتی ہے لہذا اگر آپ نے اس سوسائٹی میں رہنا ہے تو ان کا تمسخر اڑانے کی بجائے ان کی عزت کرنا سکیھیں ۔ اگر آپ مسلمانوں کی عزت نہیں کریں گے تو پھر ان سے اپنی عزت کی کوئی توقع نہ رکھیں۔

لہذا قرآن کریم میں جب قیامت تک کے تمام علوم کا ذکر آگیا تو پھر مسلمانوں کو ادھر ادھر منہ مارنے کی قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے۔بردارم آصف سے گذارش ہے کہ تنظیم المدارس کی انتظامیہ سے مل کر ایسا لائحہ عمل تیار کریں جو اس نام نہاد مغربی تعلیم کا توڑ ہو جو خوامخوہ سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہی کی طرف لے جارہی ہے۔

فقیر کو برادرم آصف کے لکھے ایک ایک لفظ سے اتفاق ہے صرف آخر میں لکھے ایک جملے سے اختلاف کرنے کی گستاخی کرے گا جس میں برادرم آصف فرماتے ہیں کہ ’’ جب بات مسلمانوں اور اسلام تک آن پہنچے تو (چند مستثنیات کے ساتھ) توان کی انسان دوستی ختم ہو جاتی ہے، ان کے لہجے کی مٹھاس دم توڑ دیتی ہے ان کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں ، ان کے نتھنے پھولنے لگ جاتے ہیں، ان کے گلوں سے غراہٹ نکلنا شروع ہو جاتی ہے ، ان کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں اور بالاخر یہ پل پڑتے ہیں‘‘۔فقیر کی درخواست ہے کہ براہ مہربانی اپنی یہ خصوصیات لبرل فاشسٹوں کے نام نہ کریں ۔

2 Comments