خدارا جنرل راحیل کو روکیے

ملک سراج اکبر

g11

جس بستی(یعنی واشنگٹن) میں، میں رہتا ہوں، یہاں کے کرتا دھرتا (یعنی پنٹاگون) نے اپنے ہی سرکاری ریڈیو اسٹیشن وائس آف امریکہ پر واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ انھوں نے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو امریکہ آنے کی دعوت نہیں دی ہے۔ جنرل صاحب خود اپنی مرضی سے امریکہ کا دورہ کرنےآرہے ہیں۔

مہمان بن بلایا ہی کیوں نہ ہو، جب وہ آپ کی دہلیز پر کھڑے ہوکر دروازہ کٹکھٹارہے ہوں آپ ان سے منہ پھیر تو نہیں سکتے اور نا ہی آپ دیر تک دروازہ بند رکھ سکتے ہیں۔ جنرل صاحب نےاب امریکیوں کو بالکل ایسی ہی کفییت میں مبتلا کردیا ہے۔ گھر میں کھانے پینے کو کچھ ہویانہ لیکن مان نہ مان میں تیرا مہمان کے مصداق جنرل صاحب واشنگٹن تشریف لاہی رہے ہیں۔

کاش راولپنڈی میں کوئی مائی کا لال جنرل صاحب سے التجا کرکےانھیں’’ ملکی مفاد‘‘ اور’’ ملکی غیرت‘‘ کا واسطہ دے کر دورہ امریکا منسوخ کرنے پر قائل کرسکیں۔ خیالی پلاو اپنی جگہ پر۔ ایسا کبھی ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ لیکن ’’قومی مفاد‘‘میں یہ ہونا اب لازمی ہے۔

جنرل راحیل شریف امریکیوں کی دعوت پر واشنگٹن آرہے ہیں یا اپنی مرضی سے، یہ بات اتنی اہمیت نہیں رکھتی۔ ان کے دورہ کی پھر بھی علامتی اہمیت ہےاوراس سے واشنگٹن سمیت پوری دنیا میں پاکستان کے بارے میں جو تاثر پھیلے گا اس سےجمہوری حکومت کی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچے گا۔

ایسا کیوں ہے کہ صرف سویلین شہریوں سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ملکی مفاداور وقار کو ملحوظ خاطر رکھیں اور فوجی جنرل جب چائیں اسی ملکی مفاد اور وقار کواپنے پاوں تلے روند دیں؟ کیا ملکی مفاد اور وقار کا تحفظ یکساں طور پر جمہوری اور عسکری قیادت کی ذمہ داری نہیں ہے؟

یہ درست ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کا حالیہ دورہ امریکہ ناکام رہا اور وہ امریکہ میں کسی بھی مسئلے پرپاکستان کے موقف کے حق میں امریکیوں کی حمایت حاصل نہ کرسکے۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب میاں صاحب واشنگٹن کے دورے پرتھے تو امریکی میڈیا اور تھنک ٹھینکس نے بھی یہی کہنا شروع کردیا کہ پاکستانی وزیرا عظم کے پاس تو اختیارات ہی نہیں ہیں اور ملک میں اخیتارات کا اصل سرچشمہ فوج ہے۔

یہ رائے اپنی جگہ پر درست سہی لیکن بہت کم لوگوں نے میاں صاحب کے بے اختیار ہونے کی وجوہات پر غور کیا ۔ صدر اوبامہ ان سے جو مطالبات کررہے تھے (مثلاً لشکرِ طیبہ کے خلاف کارروائی) وہ میاں صاحب کے دسترس میں نہیں تھے کیوں کہ ملک میں جہادی قوتوں کو براہ راست فوج کی حمایت اورپشت پناہی حاصل ہے اور جب تک فوج ان گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی تب تک وزیراعظم امریکیوں سے محض وعدے ہی کرسکیں گے۔

بہرکیف وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے چندہفتوں کے بعد فوج کے سربراہ کا امریکہ ہی کا دورہ کرنا ایک مثبت اور نیک نیتی پر مبنی عمل نہیں ہے۔ جنرل راحیل شریف کو چائیے تھا کہ وہ وزیراعظم اور جمہوری حکومت کے احترام میں اپنا یہ دورہ منسوخ کرتے یا اپنے دورہ امریکہ کے لئے دوسرے وقت کا انتخاب کرتے تاکہ کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ فوج کے سربراہ اپنے ہی وزیراعظم کو نیچا دیکھانے کے خاطرواشنگٹن کا دورہ کر رہے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کے نقصانات اس کےفوائد سےزیادہ ترہیں۔ یہ بات پاکستانیوں اور باقی دنیا سے ڈھکی چھپی تو نہیں ہے کہ ملک میں اصل اختیارات فوج کے پاس ہیں لیکن کیا جنرل شریف کو اس تاثر(بلکہ حقیقت) کو بدلنے اور ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے اپنا کردار ادا نہیں کرنا چائیے؟

کاش وہ دورہ امریکہ پر بضد ہونے کے بجائے میاں صاحب کی اس بات پہ حوصلہ افزائی کرتے کہ وہ اپنی کابینہ میں ایک وزیرخارجہ بھی شامل کریں۔ انھیں میاں صاحب کو باور کرانا چائیے کہ آپ کو فوج سے ڈرنا نہیں چائیے بلکہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ ہندوستان اورامریکہ کے حوالے سے جوبھی خارجہ پالیسی مرتب کریں گے ہم اس کا احترام کریں گے کیوں کہ آپ اور پارلیمان کو کروڑوں شہریوں نے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے لہٰذہ ہم سمجھتے ہیں کہ ملکی فیصلے کرنے اور پالیسی مرتب کرنے کا حق اور اختیار آپ کا ہے نا کہ ہمارا۔

محب الوطنی کا ٹھیکہ صرف ملاوں اور فوجیوں کے پاس نہیں ہونا چائیے۔جنرل راحیل شریف کو احساس ہونا چائیے کہ اب برما جیسے ملکوں میں بھی حالات بدل رہے ہیں(جہاں کئی دہائیوں سے فوج کی بالادستی رہی ہے) تو پھر وہ پاکستان کو کیوں دوبارہ ماضی کا برما اور موجودہ مصر بنانے کے درپے ہیں؟

اگرچہ جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ سے ایسی کوئی نئی بات سامنے نہیں آئے گی جو کہ امریکی انتظامیہ نے وزیراعظم نواز شریف کے سامنے نہیں کہی تھی، اس کا یہ نقصان ضرور ہوگا کہ عالمی سطح پر پاکستان کی موجودہ اور آنے والی جمہوری حکومتیں اپنی اہمیت کھو دیں گی اور مستقبل میں بھی جب کوئی ملک پاکستان کے ساتھ کسی مسئلے پر بات چیت کرنا چائے گا تو وہاں کے مشیر اپنے حکمرانوں کو یہ مشورہ دیں گے کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم کے بجائے فوج کے سرابرہ سے بات چیت کریں کیوں کہ وہاں پارلیمان، وزیراعظم اور جمہوری حکومت کی کوئی حثییت و اخیتارنہیں ہے۔

پاکستان مسلم لیگ کی موجودہ حکومت نے فوج کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خاطر کئی قربانیاں دی ہیں حتیٰ کہ اس حکومت نے فوجی عدالتوں کی بھی حمایت کی تھی تاکہ فوج اور جمہوری حکومت کے تعلقات خراب نہ ہوں۔ اب فوج کی بھی تو ذمہ داری بنتی ہے کہ جمہوری حکومت کو بار بار شرمندہ کرنے سے گریز کرے۔

ملک سراج اکبر واشنگٹن ڈی سی میں مقیم صحافی ہیں۔

Twitter:@MalikSirajAkbar

2 Comments