کیا انسان صرف جسم ہے یا شعور۔۔؟

سبطِ حسن

shakespeare-7-ages-of-a-human-being

بیتال پچیسی ہندوستان کی قدیم حکایات کا مجموعہ ہے۔ اس کی ایک کہانی یوں ہے: ایک راجا، اس کی رانی اور لکڑہارا اکھٹے جنگل میں سیر کر رہے ہوتے ہیں۔ ڈاکو حملہ کرتے ہیں اور لڑائی میں راجا اور لکڑہارا مارے جاتے ہیں۔ رانی سخت دکھ کی حالت میں قریب ہی ایک دیوی کے مندر میں مناجات کرتی ہے۔ دیوی اس کی عرضداشت قبول کرتے ہوئے حکم دیتی ہے کہ وہ فوراً کٹے ہوئے سروں کو دھڑوں کے ساتھ جوڑدے تو راجا اورلکڑہارا، زندہ ہوجائیں گے۔رانی گھبراہٹ میں لکڑہارے کا سر راجا کے دھڑ کے ساتھ اورراجا کا سرلکڑہارے کے دھڑکے ساتھ جوڑدیتی ہے۔ دونوں زندہ ہو جاتے ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ راجا کون ہے اور لکڑہارا کون؟ اس پر جواب ملتا ہے کہ جس دھڑکے ساتھ راجا کا سرلگاہے، وہ راجا ہے اور جس دھڑکے ساتھ لکڑہارے کا سرلگا ہے، وہ لکڑہارا ہے۔ یعنی یہ کہ راجا ہونا یا لکڑہارا ہونا دراصل شعور کا نام ہے اور اس کا تعلق دماغ سے ہے۔

شعور، فطری طور پر انسان میں موجود نہ تھا۔ یہ ایک ارتقائی عمل میں انسانوں نے حاصل کیا۔ اس شعور کی اساس، دراصل انسان کے فطرت کے ساتھ تال میل، اور تال میل کی کوشش میں اپنے ماحول کو تبدیل کرنے کے ارتقاء میں پوشیدہ تھی۔ اس عمل میں انسان نے نہ صرف اپنے اردگرد مادی ماحول کو تبدیل کیا بلکہ خود بھی اس کے شعور میں تبدیلی آئی ۔ یہ عمل مسلسل جاری ہے۔

بچے کے بارے میں حقیقی شعور کی شناخت کا عمل پچاس ساٹھ سال سے زیادہ پرانا نہیں۔ گذشتہ ہزاروں سالوں میں بچے کو مافوق الفطرت ہستیوں کا بہروپ سمجھا جاتا تھا۔ اسی لئے اس کے ساتھ انسانی جذبات پر مبنی رشتہ قائم نہ ہوسکا۔ دیوتاؤں کو خوش رکھنے کے لئے اس کی قربانی دینا معمول تھا۔ اسے ذبح کرکے کھالینا عام روایت تھی۔ واضح رہے کہ بعض ماہرین بشریات حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے قربانی کے قصے کو اسی تاریخی تناظر میں سمجھتے ہوئے تشریح کرتے ہیں کہ یہ واقعی دراصل لوگوں کو سمجھانے کا ایک تشبیہی انداز تھا۔ یعنی یہ کہ اپنے بچوں کو ذبح کرنے کی بجائے جانوروں کو کھالیا جائے۔

بعدازاں بچوں کو بالغ کو تاہ سمجھا جانے لگا۔ یعنی بچے کے بالغ بننے تک کی عمر کی شناخت بچپن یا لڑکپن کے طور پر نہ سمجھی جاتی تھی کہ وہ ایک ’بالغ‘ کے طور پر ہروہ کام کرے جو ایک بڑا کرسکتا تھا۔

والدین بچوں کے ساتھ جذباتی وابستگی پیدا کرنے کی کوشش بھی نہ کرتے تھے کیونکہ بچوں کی شرح اموات ناقابل یقین حد تک بہت زیادہ تھی۔ بچوں سے متعلق والدین کا وہی تعلق تھا جو وہ اپنے مال مویشی سے محسوس کرتے تھے۔ جو بچے بچ جاتے، ان کو اپنی روزی روٹی کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے ان پر تشدد کرتا، ان کی برداشت سے زیادہ ان سے کام لینا اور ذہنی اذیتیں دینا معمول تھا۔

اسی پس منظر میں یہ تصورات پیدا ہوئے کہ بچہ کوئی جیتی جاگتی شخصیت نہیں بلکہ ایک خالی سلیٹ ہے کہ جس پر جو چاہو، رقم کرلو۔ اس کو سدھانے کے لئے اس پر تشدد کرو اور جیسی شخصیت چاہو، ویسی گھڑلو۔ بچے کی اپنی خواہش، مرضی یا انتخاب کچھ نہیں ہوتا۔ اسے والدین کی مرضی کے مطابق ڈھل جانا چاہیے۔ فرمانبرداری یعنی مکمل طور پر سدھائے جانے کو اعلیٰ خوبی قرار دے دیا گیا۔ یہاں تک کہ بچے والدین کی آخرت میں نجات کا بھی ذریعہ ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پوری تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ بچوں کو ایک ایسا برتن سمجھ لیا گیا کہ جس میں بڑے اپنا زہر اور غلاظتیں تھوکتے رہتے ہیں۔

اٹھارھویں صدی کے یورپ میں ایسے تصورات پیدا ہونے لگے کہ جن سے بچے کے بچپن کو بڑوں سے الگ اورمنفرد حیثیت دینے کے اشارے ملتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات (پیاجے) نے بیسویں صدی کے نصف میں بڑے وثوق سے یہ بات سمجھائی کہ بچے، بڑوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات، سیکھنے کی صلاحیتیں، دنیا کو دیکھنے کے زاویے بلکہ خود اپنے آپ کے شعور کے ارتقاء کی نوعیت مکمل طور پر استثنائی ہوتی ہے۔ انسانی تہذیب کے ارتقاء کے تیرہ ہزار سالوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے بچے کے شعور کی انفرادیت کی بات کی اور یہ بات سمجھائی کہ بچہ، محض جسم نہیں(بالغ کوتاہ)، بلکہ اپنے چھوٹے سے جسم میں شعور کی انفرادی اورمخصوص قوت رکھتا ہے۔

تاریخ میں عورتوں اور مردوں کو بھی محض جسم ہی سمجھا گیا۔ صرف جسم، جسمانی اعضاء پر مبنی تفریق اور جسمانی قوت کو سماجی شناخت حاصل تھی۔ اسی تصورکی بنیاد پر بہت سے لوگوں کو ایک لشکر، مجمع یا گروہ کی صورت میں طاقت کے مظاہرے کے لئے پیش کیا جاتا تھا/ہے۔ اسی جسم پر ظلم، تشدد اورقطع وبرید کی جاتی تھی۔ یہی جسم جب عام جسموں کی طرح حرکات و سکنات نہ کرتا تو اسے پاگل سمجھ کر عام انسانوں سے الگ کردیا جاتا۔

عورت کی سماجی افادیت اس کے مخصوص اعضاء سے طے کی گئی۔ عورت کے ان مخصوص اعضاء کے ساتھ مردوں کے جسمانی اعضاء کا جو رشتہ قائم کیا گیا، اس کے چسکے کے لئے وسیع ترادب پیدا ہوا۔ یعنی یہ کہ اس طویل دور میں انسانوں(مرد، عورت اور بچوں) کی زندگی کے ہر حلقے میں انفرادی اوراجتماعی سطح پر شناخت جسم سے ہی منسلک رہی۔ مرد کی مردانگی اور عورت کا عورت پن دراصل اسی جسم کے مخصوص تصور میں مرتکز تھا۔ اسی کی بنیاد پر مخصوص ہیجانی تعلقات اور تصورات پیدا ہوئے اورمخصوص اعضاء کے سماجی معانی سنورے۔

ایک مزاحمتی فرد، کسی دوسرے ملک میں داخل ہوکر وہاں احتجاج کرتے ہوئے کسی ملکیت کو نقصان پہنچادیتا ہے۔ داخلے کے وقت ویزا، اس کے جسم کو تو مل گیا۔ اگر اُس ملک کو آنے والے کے مزاحمتی شعور کا اندازہ ہوتا تو وہ اسے ویزانہ دیتے۔ مگر ایسا ممکن نہیں کیونکہ نفرت، احتجاج اورمحبت کا شعور بغیر ویزے یا کسی اوررکاوٹ کے متحرک رہتا ہے۔

اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کو مرضی کی شادی کرنے پر قتل کردیتا ہے تو غالباً یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کی بیٹی محض ایک جسم ہے حالانکہ مرضی کی شادی دراصل ایک شعور کی نمائندگی سے ہی ممکن ہے۔ اگر کوئی جماعت یا فرد نظریاتی یا انفرادی اختلاف کی بنیاد پر کسی دوسرے کو جسمانی طور پر ختم کرنے پر اتر آئے تو وہ دراصل اسی تاریخی تصور کے تحت ایسا کریں گے جس میں فرد کو محض جسم سمجھا جاتا تھا۔

شعور، دراصل تاریخ کے ناقابل ترمیم عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت جسم سے الگ فرد کی سوچ اور فکری ترجیحات میں ہوتی ہے۔ یہ ایک جسم میں تو ضرور ہوتا ہے مگر جسم اس کا تابع ہوتا ہے۔ تاریخی شعور اپنی حقیقت کے اعتبار سے اجتماعی ہوتا ہے اور اس میں انفرادی جسم کے خاتمے سے بات ختم نہیں ہوتی۔

کوئی بھی شعور اپنے تاریخی سیاق وسباق میں پیدا ہوتا ہے اور اس کی قبولیت غیر محسوس طور پر انسانوں میں سرایت کر لیتی ہے۔ یہ بات جدید ریاست نے جب سمجھ لی تو اس نے انسانی جسم کو تشدد یا تکرار سے سدھانے کی بجائے انسانی شعور تک رسائی حاصل کرنے کی سعی کی۔ یعنی اس نے انسانی شعور کو اس طرح ڈھالنے کا بندوبست کرلیا کہ فرد صرف وہی بات سوچے جو جدید ریاست کے لئے قابل اعتراض نہ ہو۔ وہ اسی بات کی خواہش کرے جس بات کی خواہش جدید ریاست اس کے لئے مناسب سمجھتی ہو۔

اسی نظریے کے تحت تعلیمی نظام اور بالخصوص تعلیمی مواد تیار کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ کہ جدید ریاست قدیم نظامات سیاست کی طرح انسانوں کو سدھاتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے جسم پر تشدد، عقوبت اورقتل وغارتگری کے طریقے استعمال کئے جاتے تھے۔ اب شعور کی سطح پر خیالات، تصورات اور واہموں کے ذریعے دماغ پر گرفت قائم کی جاتی ہے۔ جسم خود بخود اس کے اسیر ہوجاتے ہیں۔

شعور کی اسیری کو شعور کے ذریعے ہی ردّیا بدلا جاسکتا ہے۔ اس کا پہلا اور آخری ہتھیار سوال کرنا ہے۔ سوال ہوگا تو مکالمہ ہو گا۔ مکالمہ ہوگا تو ایک نیا سماجی شعور پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ طریقہ فرد کو دوسرے افراد سے جوڑتا ہے اور ایسی تبدیلی کے امکان پیدا ہوتے ہیں جو سب کے لئے امن اور سلامتی بن جاتا ہے۔

2 Comments