مغربی ممالک اور اسلامی شریعت

خالد تھتھال

12508987_1673594296244622_8569253645599082963_n

ہم مسلمانوں کی شدید خواہش کے علاوہ دینی فریضہ بھی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں اللہ کے نام کا بول بالا ہو اور تمام ممالک میں اسلامی شرعی نظام نافذ ہو۔ اسی وجہ سے مغربی ممالک میں بھی اکثر شریعت محمدی نافذ کرنے کیلئے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں آواز بلجیئم میں مراکو نژاد مسلمانوں اور برطانیہ میں پاکستانی نژاد مسلمانوں کی ہے۔

بلجیئم کے متعلق تو وہاں کے مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ بلجیئم یورپ کا سب سے پہلا ملک ہو گا جہاں اسلامی شرعی نظام نافذ ہو گا۔ اور اس کیلئے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی اس ملک میں لگاتار بڑھتی جا رہی ہے جبکہ مقامی باشندوں کے ہاں شرح پیدائش کم ہونے کی وجہ سے ایک وقت میں وہ اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے اور یوں اپنی اکثریت کی وجہ سے مسلمان جمہوری انتخابات کی وجہ سے وہاں اقتدار حاصل کر کے اسلام کا جھنڈا بلند کریں گے۔

برطانیہ میں ابھی یہ مقصد دور نظر آ رہا ہے لیکن وہاں کے مسلمانوں کے مطالبے پر شرعی عدالتوں کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ جن کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھریلو تنازعات برطانوی سرکاری عدالتوں کی بجائے شرعی عدالتوں کی مدد سے حل کر پائیں۔ برطانیہ کی اسلامی شرعی عدالتوں میں مسلمان خاندانوں میں شادی، طلاق اور اس کے نتیجے میں آنے والے مسائل کا حل اسلامی شریعت کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔

برطانیہ کی شرعی عدالتوں کے قیام کا سہرا سابقہ پاکستانی، برطانوی مسلمان وکیل فیض الاکتب صدیقی صاحب کے سر بندھتا ہے۔ جو حضرت مجدد عبدالوہاب صدیقی کے بیٹے اور مولانا محمد عمر اچھروی کے پوتے ہیں۔ فیض الاکتب بیرسٹر ہونے کے علاوہ حجاز کالج کے پرنسپل اور مسلم ایکشن کمیٹی کے کنوینر بھی ہیں۔ مسلم ایکشن کمیٹی میں اسلامک ہیومین رائٹس کمیشن اور حزب التحریر جیسے گروہ شامل ہیں۔ مسلم ایکشن کمیٹی رسول اللہ کے بنائے گئے کارٹونز کے خلاف مظاہرہ کرنے کے علاوہ سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف یورپ میں سب سے بڑا مظاہرہ کر کے اپنی طاقت کا اظہار کر چکی ہے۔

شرعی عدالتیں برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے علاوہ بریڈ فورڈ، مانچسٹر، برمنگھم وغیرہ میں قائم ہو چکی ہیں۔ چند اور شہروں میں بھی ایسی عدالتوں کے قیام کے منصوبے ہیں۔ فیض الاکتب صاحب کے بیان کے مطابق شرعی عدالتیں ثالثی کیلئے وہی راستہ اپناتی ہیں جو دیگر عدالتوں کا ہے لہذا ان کے فیصلہ کی پابندی بھی انگریزی قانون کے فیصلے کی طرح لازمی ہے۔ بشرطیکہ کہ فیصلہ بہت ہی نامناسب نہ ہوا ہو۔

شرعی عدالتوں کی بنیاد 1996 کا ثالثی ایکٹ ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق فریقین کو اپنے تنازعات کو حل کیلئے متفق ہونا چاہیئے، اور اس کے فیصلوں میں عوام الناس کے مفاد کو مدنظر رکھا جائے۔ یعنی یہ انگریزی قانون کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے کام کرے گا نہ کہ ایک علیحدہ اسلام قانونی نظام کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

برطانیہ کے آرچ بشپ روون ولیمز کے ساتھ ایک مباحثے کے دوران فیض صاحب نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں مزید تعلیم یافتہ اور روحانی کمیونٹی برطانیہ میں شریعت کے تمام قوانین کے تحت زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے گی۔

بی بی سی کے پروگرام پینو راما اور برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق تنازعات کے حل کیلئے ان عدالتوں میں خواتین کو انصاف نہیں مل پاتا۔ ڈیلی میل کی 13 دسمبر 2015 کی اشاعت میں ان شرعی عدالتوں میں ہونے والے چند واقعات کی تفصیل سے ان شرعی عدالتوں کی کارکردگی پر یوں روشنی پڑتی ہے۔

12651279_1673594249577960_9028191151532941780_n

اخبار کے بقول کمرے میں پچاس سال کے لگ بھگ عمر اور ایک لمبی سفید داڑھی کے مالک ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ بیس سال سے بھی کم عمر کی ایک لڑکی اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے اپنا دکھڑا سنا رہی ہے کہ اس کے شوہر نے دس کے لگ بھگ اور عورتوں سے بھی شرعی شادیاں کی ہوئی ہیں، اور وہ اسے بہت مارتا پیٹتا ہے۔ لڑکی کو آس تھی کہ اسے ہمدردی کے دو بول سننے کو ملیں گے، لیکن ان صاحب نے ہنستے ہوئے کہا: ” تم نے ایسے مرد کے ساتھ شادی ہی کیوں کی“؟۔

کوریڈور میں ایک تیس سالہ بنگلہ دیشی خاتون اپنی کہانی سنا رہی تھی۔ کہ 19 سال کی عمر میں میری زبردستی شادی کر دی گئی۔ ہمارے درمیان بہت جھگڑا ہوتا تھا، میرا شوہر مجھ پر چیزیں پھینکا کرتا تھا۔ میں نے اسے کما کر 38000 پونڈ دیئے، ان کے علاوہ اس نے مجھ پر اور قرضہ بھی چڑھایا۔ اب اس نے بنگلہ دیش جا کر دوسری شادی کر لی۔ میں اپنے شوہر سے طلاق چاہتی ہوں۔ اس کے جواب میں مولانا ابو سعید نے پہلے تو اسے کثرت ازواج کی سائنسی اور حیاتیاتی وجوہات اور جواز کا لیکچر سنایا اور پھر شوہر کی دوسری بیوی کو قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ عورت کو یہ مشورہ پسند نہ آیا اور وہ منہ لٹکائے باہر نکل گئی۔

ایک اور کمرے میں فرقان احمد نامی ایک نوجوان عالم ایک جوڑے کا دکھڑا سن رہے تھے۔ جن کے بقول وہ کئی سالوں سے شادی شدہ زندگی گزار رہے ہیں۔ خاتون اس سے پہلے بھی شادی شدہ تھی۔ شوہر سے برطانوی قانون کے تحت طلاق حاصل کی لیکن اسلامی طلاق لینا بھول گئیں۔ انہیں کچھ دوستوں نے بتایا ہے کہ اسلامی طلاق نہ ہونےکی وجہ سے ان کی برطانوی قانون کے تحت طلاق کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ نوجوان عالم نے گہری سوچ کے بعد کہا کہ مسئلہ بہت پیچیدہ ہے اسے اپنے بزرگ علما ساتھیوں سے مشورہ کرنا ہو گا۔ البتہ ایک صورت یہ ہے کہ وہ موجودہ شادی کو شرعی انداز سے ختم کر دیں۔ خاتون کسی دوسرے مرد سے حلالہ کرے، اور اس سے طلاق لینے کے بعد موجودہ مرد سے شادی کرے۔

مائیکل ژی کی آنے والی کتاب میں شرعی عدالت کے ایک کیس میں کا ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق خاتون نے کہا کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق چاہتی ہے لیکن شوہر نے کہا ہے کہ وہ تب تک طلاق نہیں دے گا جب تک اسے 10000 پاؤنڈ نہ دیئے جائیں، قاضی صاحب نے مسئلہ کو سلجھانے سے انکار کر دیا۔

ایک کیس میں ایک خاتون نے مرد کی مار پیٹ کی شکایت کی۔ قاضی صاحب نے اسے پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے قران پر ہاتھ رکھ کر وعدہ لینے پر اکتفا کیا کہ وہ آئیندہ اپنی بیوی کو نہیں مارے گا۔

ایک اور مقدمے میں قاضی صاحب نے برطانوی قانون کے تحت ہونے والی طلاق کو رد کرتے ہوئے کہا۔ ” ایک سیکولر جج مذہبی طلاق نہیں دے سکتا، کیا ایک کافرمسلمانوں کے معاملات کا فیصلہ کر سکتا ہے؟۔

مائیکل ژی کے بقول مرد حضرات ان مقدمات میں حاضر ہونے کا تکلف ہی نہیں کرتے، اور جب کبھی کوئی خاتون مرد کے مارنے پیٹنے کا ذکر کرتی ہے، تو وہاں موجود عالم حضرات مسکرانے لگتے ہیں۔

اس قسم کے واقعات صرف برطانیہ تک ہی محدود نہیں ہیں۔ دوسرے ممالک میں بھی مسلمانوں کے اندر کثرت ازواج پائی جاتی ہے۔ ایک قانونی بیوی اور ایک شرعی بیوی۔ خود میرے ایک رشتہ دار کی ایک قانونی بیوی ہے جو ساتھ رہتی ہے اور دوسری شرعی بیوی اپنےفلیٹ میں۔ ان شرعی بیویوں کے کسی بھی قسم کے کوئی حقوق نہیں ہوتے مرد کا جب جی بھر گیا، تین بار طلاق طلاق طلاق کہہ کر جان چھڑا لی۔

ان دنوں ایران کے زیر اثر چلنے والے امام علی نامی ایک شیعہ سنٹر میں طلاق اور شادی کے شرعی قوانین کے استعمال پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ جسے اس علاقے کی نارویجن انتظامیہ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، مسجد کے امام نے اپنے افعال کے دفاع میں یہ لکھا کہ اسلامی شادی اور طلاق نارویجن نظام کا بدل نہیں بلکہ ایک اضافہ ہے۔ البتہ انتظامیہ نے اس دلیل کو رد کر دیا ہے۔

نارویجن پارلیمنٹ کے منظور شدہ قوانین ناروے کے سرحدوں کے اندر تمام رہنے والوں پر یکساں لاگو ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ نے شرعی قوانین کی منظوری نہیں دی اور نہ ہی ان کا یہاں اطلاق ہوتا ہے۔ ناروے کا امام علی سنٹر ناروے کے قوانین کا پابند ہے۔ لہذا سے شریعت کے تحت شادی اور طلاق کروانے کا مجاز نہیں ہے“۔

Comments are closed.