ایک ہی لفظ اور تقریرکے الگ الگ اثرات


qazi-310x387
فرحت قاضی

ایک ساہو کار
دیگ پکاکر خیرات کرتا ہے تو غریب نوالہ منہ میں لیتے ہوئے سوچتا اور ساتھی سے کہتا ہے
’’
دولت خان کتنا اچھا انسان ہے‘‘

ایک دیہہ یا چھوٹا شہر ہے جسے حکومت اور ارباب اختیار نے عرصہ درازسے نظر انداز کیا ہوا ہے آبادی بڑھ گئی ہے ترقیاتی منصوبے نہیں غربت میں اضافہ ہوگیا ہے اور بے روزگاروں کی تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھوتری ہورہی ہے اس صورت حال نے خاندان،محلے،کالونی، بازار اور شہر میں عوام کے باہمی تنازعات کو دو چند کردیا ہے اور وہ ایک ۔۔۔دوسرے سے دست بگریباں رہتے ہیں سماجی برائیوں کی جانب رغبت بڑھ گئی ہے بے روزگار نوجوان جرائم کی راہ پر چل پڑے ہیں
آج ایک گھر سے چوری تو کل دوسرے سے ہوتی ہے رہزنی اور بینک ڈکیتی کی وارداتیں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں ان حالات نے متوسط اور پھر امیر طبقات کو عدم تحفظ کے احساسات میں مبتلا کردیا ہے تاجر ،محنت کش،متوسط اور امیر طبقات حکومت اور محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام سے جان و مال کے حفاظت کی فراہمی کے مطالبات کرتے کرتے تھک گئے ہیں بلاشبہ،اخبارات اور چینلز پر پولیس آفیسر اور اہلکاروں کی جانب سے چوروں، راہزنوں،کار لفٹروں،ڈکیت گروہوں، نوسر بازوں،قاتلوں اور مفروروں کی گرفتاریوں اور سزاؤں کی اطلاعات بھی آرہی ہیں 
میڈیا میں لاقانونیت، متعلقہ اداروں کے حکام اور اہلکاروں کی اپنے فرائض میں غفلت اور لاپروائی کی خبروں سے عوام میں عدم تحفظ کے احساسات کو مزید ہوا ملتی ہے اور جان و مال کے خطرات تاجر، سیٹھ، ساہوکار اور دیگر صاحب جائیداد افراد اور خاندانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ عبرت اور اذیت ناک سزاؤں سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں تو پھر ان کو دیگ پکانے کا خیال آجاتا ہے
جس طرح ایک خطیب اور مقرر علاقہ کے مسائل اور اہلیان علاقہ کے نفسیات کی جانکاری رکھتا ہے اسی طرح حکمران اور محکموں کے حکام کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک آبادی میں شرح جرائم میں اضافہ کے کیا اسباب و علل ہیں
ایک سیاسی جماعت کا رہنماء بھی ووٹروں کا ذہن پڑھتا ہے اور پھر ان کو اپنی ڈگر پر لانے کی تدابیر و تراکیب نکالتا ہے بلکہ اسے اکثر اوقات خطاب کے دوران معلوم ہوجاتا ہے کہ سامعین کس چیز سے محبت اور کس سے نفرت کے اظہار پر جذباتی اور آپے سے باہر ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے مفادات کو عوام کے جذبات سے وابستہ کردیتا ہے اور رفتہ رفتہ ان کو تحریک پر آمادہ کرلیتا ہے
پاکستان میں اس کے بااختیار طبقات عوام کو گزشتہ 68برسوں سے الّو بنارہے ہیں مگر ان حالات نے اس عرصہ میں ان کو ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں، اس کے قائدین کے ہتھکنڈوں اور حربوں سے بھی واقف کرادیا ہے اگر اس کے باوجود ارباب اختیار دھوکہ دے اور عوام کھا رہے ہیں تو اس لئے کہ پہلے اس کاباپ یا دادا انتخابات میں امیدوار ہوا کرتا تھا اور اسی طرح آج کے ووٹر کا باپ ماضی میں ووٹر تھا اس لحاظ سے رہنماء اور ووٹر دونوں نوجوان اور اس میدان کے نئے کھلاڑی ہیں ووٹر نے دھوکہ کھاکھاکے کچھ سیکھا ہے تو امیدوار بھی جان گیا ہے کہ اب وعدوں اور توقعات کا لولی پپ دینے سے الّو سیدھا نہیں ہوگا ووٹروں میں پڑھا لکھا نوجوان بھی شامل ہے
گو کہ ناخواندہ بھی ایک کے بعد دوسرا فریب کھاکر اس حوالے سے نیم خواندہ ہوگیا ہے مگر معلومات اور مطلوبہ علم کا فقدان اس کی راہ میں حائل ہے یہی کمی کموت ہے جس سے بااختیار طبقات کے افراد عوام کو بے وقوف بنانے میں لگے ہوئے ہیں چنانچہ اسی طرح ایک حاکم،وزیر یا رہنماء ایک علاقہ جاتا ہے تو وہاں اس کی بات چیت اور تقریر کا موضوع ایک اور دوسرے دیہہ و شہر میں دوسرے رنگ روپ میں ہوتا ہے
چنانچہ حاکم ہو یا وزیر، سیاسی جماعت کا رہنماء ہو یا کسی محکمہ کا بااختیار آفیسر ہو یا اہلکار مسئلہ اس کی دیانت داری اور فرائض میں اخلاص کا نہیں ہوتا ہے بلکہ بنیادی مسئلہ اس شعبہ، ادارہ،دیہہ یا شہر یا علاقہ کے عوام کی ذہنی سطح کا ہوتا ہے
خواندہ،نیم خواندہ اورناخواندہ کے محسوسات، تاثرات اور تصورات یکساں نہیں ہوتے ہیں ہم یونیورسٹی کے طالب علم ایک انڈین فلم دیکھ رہے تھے اس میں کہانی، اداکاری،فوٹو گرافی،طرز گفتگو،ہدایت کاری،گیت،موضوع اور ایڈیٹنگ کا بھر پور دھیان رکھا گیا تھا ختم ہونے پر ہر ایک کے لبوں پر واہ واہ تھی دیکھنے والوں میں ہمارے پاس ایک دیہہ کا ان پڑھ رہائشی نوجوان بھی تھا جس نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا:
’’
یار!فلم میں ہیروئن کی ٹانگیں نظر آرہی تھیں‘‘
گویا ڈھائی گھنٹے کے دوران اس کی نگاہیں ٹانگوں پر ہی جمی ہوئی تھیں
اس تفاوت کو دیہہ اور شہر اور شہر اور صنعتی شہر میں واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ایک دیہی باشندہ دیکھتا ہے کہ فلم کے ہیرو کو درجن بھر غنڈوں نے گھیر رکھا ہے ان کے ہاتھوں میں پستول، چاقواورڈنڈے ہیں اور نہتا ہیرو ایک ایک کو چت کردیتا اور ان کو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتا ہے تو وہ جذباتی ہوجاتا ہے ایک پڑھے لکھے اور پروفیسر کی نگاہ کہانی، موضوع اور نتیجہ پر ہوتی ہے وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ فلم ساز ٹیم عوام کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے
دیہہ میں بود و باش اور طرز رہائش سیدھا سادا ہوتا ہے روزگار کا بھی یہی حال ہوتا ہے اسی لئے ایک دیہی باشندے کی ذہنیت بھی اسی مناسبت سے سادہ اور سپاٹ ہوتی ہے شہر میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ہوتے ہیں روزگار میں بھی تنوع پایا جاتا ہے کاروبار ہوتا ہے قدم قدم پر جال بچھے ہوتے ہیں لوگ ان میں پھنستے اور نکلتے ہیں یہ ان کو بیدار،ہوشیار اور کاروباری بنادیتے ہیں
چنانچہ شہر کی نسبت سادہ لوح دیہاتی کو دھوکہ دینا آسان ہوتا ہے یہ لوگ آسانی اور جلدی پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں
میڈیا پر دیہی باشندوں اور شہریوں کے مطالبات سے بھی اس تفاوت کا اندازہ ہوتا ہے دیہہ کے باسی ٹرانسفارمر کا مطالبہ کرتے ہیں تو شہری صنعتی اسٹیٹ سے کم پر راضی نہیں ہوتے ہیں دیہاتی اس پر بھی خوش ہوجاتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا رہنماء یا وزیر اس کے باپ یا رشتے دار کی فوتگی اور بیٹے کی شادی کے موقع پر حاضری دے کر چلاگیا شہر وں میں رشتہ داریوں میں جذباتیت نہیں رہتی ہے دیہاتی اشیاء اور افعال کی ظاہری صورت کو اپناتا ہے اور شہری حاصل حصول کے چکر میں رہتا ہے
دیہہ میں لوگ معمولی بات اور واقعہ پر سیخ پا ہوجاتے ہیں ہاتھا پائی اور فائرنگ پر نوبت آجاتی ہے مگرشہر میں گالم گلوچ اور غیرت اور بے غیرتی کی زیادہ فکر نہیں کرتے ہیں اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کوئی لفظ یا بات بذات خود جذبات اور اشتعال کا باعث نہیں ہوتی ہے بلکہ مسلسل پروپیگنڈے اور پرچار کے ذریعے اس سے جذباتی وابستگی پیدا کردی جاتی ہے
مفاد پرست حاکم،ابن الوقت سیاسی رہنماء اور سماج کے بالادست طبقے اس صورت حال کو اپنے مفادات سے وابستہ کردیتے ہیں چنانچہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں اس سوچ و فکر اور پالیسی کا نتیجہ غیر مساوی ترقی اور شہروں پر زیادہ اور دیہی آبادیوں یا ایک قوم کے افراد اور علاقہ پر نوازشات کی بارش اور باقی اکائیوں کو مسلسل نظر انداز کرنے کی صورت میں نکلتا ہے
قدیم ہند میں ذات پات کا نظام اس کا عملی نمونہ تھا اسے مذہب اور عقیدے کی چادر اوڑھا ئی گئی تھی
امتیازات پر مبنی اس پالیسی سے پس ماندہ علاقہ جات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے حالات جوں کے توں رہتے ہیں ان میں ترقی دشمن تصورات اور رویے ہوتے ہیں عادات و اطوار، روایات،رواجات اور سماجی قدروں کا بھی یہی حال ہوتا ہے جب حاکم وقت اور حکمران طبقات ان علاقوں کے باسیوں کو اپنے مقاصد کے لئے کام میں لانا چاہتے ہیں تو وہ میڈیا کے ذریعہ پہلے سے موجود تصورات اور جذبات کو ہوا دیتے اور جذبات ابھارنے لگتے ہیں چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ ایک فلم دیکھ کر پڑھے لکھے شہری اٹھ جاتے ہیں اور ان پڑھ دیہاتی اس کی باتوں کو دل سے لگا لیتے ہیں
احتجاجی جلسہ و جلوس کسی صنعتی شہر میں ہوتا ہے تو ہنگامہ اور توڑ پھوڑ پس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقہ میں ہوتی ہے جذباتی تقریریں بڑے شہروں میں ہوتی ہیں اور دیہہ اور چھوٹے شہر کی سڑکیں احتجاجی مظاہرین سے بلاک ہونے لگتی ہیں جس پس ماندہ شہر اور دیہہ میں ہنر مند اور تعلیم یافتہ نوجوان کے پاس روزگار نہیں ہوتا ہے اس کے پاس بہادری اور غیرت کے ذخائر اور خزانے ہوتے ہیں اور اس کا اظہار مختلف مواقع پر کرتا رہتا ہے اور کبھی کبھار تو یہ لگتا ہے کہ پس ماندہ دیہاتی اپنی نہیں بلکہ بڑے شہروں کی جنگ لڑ رہے ہیں
ہند میں اگر ذات پات کے نظام کو مذہبی ڈھال فراہم کی گئی تھی تو پاکستان میں بھی یہ مختلف صورتوں میں پایا جاتا ہے اور اس نظام یا پالیسی کی سب سے بڑی اور بنیادی برائی اور نقص یہ ہے کہ یہ ایک ریاست کو ترقی نہیں کرنے دیتا ہے

Comments are closed.