سات خون معاف

جنید الدین

0،12056

کہتے ہیں کسی زمانے میں تین دوست تھے جو کہ ہم جماعت بھی تھے اورذ ہانت میں بھی ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے۔ ایک دن بیٹھے ہوئے انہوں نے آپس میں وعده کیا کہ ان میں سے جو کوئی بهی اعلئ حکومتی عہدہ پر پہنچے گا یعنی جس کو بادشاه کا قرب نصیب ہو گا وه دوسرے دوستوں کی مدد کرے گا ،نیز چاہے کچھ بهی حالات ہوں اس کو وعده کا پابند رہنا ہو گا۔

کچھ عرصہ بعد وه تینوں علیحده ہو گئے اور روزگار کی تلاش میں مختلف شہروں کی طرف نکل گئے. کچھ عرصہ بعد ان میں سے ایک کو حکومتی محکمہ میں ملازمت مل گئی،اپنی محنت،علم اورذہانت کی وجہ سے جلد ہی وه لوگوں میں مقبول ہو گیا،یہ خبر جب بادشاه تک پہنچی تو وه خاصا متاثر ہوا اور اس کو اپنے مصاحبین خاص میں رکھ لیا،تھوڑے ہی عرصہ میں وه بادشاه کا منظور نظر ہو گیا اور اس کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔

یہ خبر جب اس کے دوسرے دوستوں تک پہنچی تو وه اپنے اس پرانے ہم جماعت کے پاس پہنچے اور اس کو اس کا کیا ہوا وعده یاد دلایا۔ اپنے بہترین اوصاف کی بدولت اس نے اپنے دوستوں کو پہچان لیا اور ان کو کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو۔ ان میں سے پہلا جو کہ فلسفی تھا اس نے کہا کہ اس کو کچھ زمین دے دی جائے اور وظیفہ مقرر کر دیا جائے تاکہ وه اپنی گزر اوقات آرام سے کر سکے.۔

دوسرے کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا که وه اتنا عرصه کیا کرتا رہا ہے اور مستقبل میں کیا کرنے کا اراده رکھتا ہے. چنانچہ اس گمنام ساتھی نے عرض کی کہ اس کو شہر سے دور ایک قلعہ دے دیا جائے جو که خاصے عرصہ سے بند پڑا تھا۔قواعد کے مطابق وزیر نے وعده نبھایا اور اس شخص کو قلعہ دے دیا گیا۔ یہ قلعہ اونچے پہاڑوں پر خاص شہری دفاع کے لئے تعمیر کیا گیا تھا ۔ اس کی ساخت تین اطراف سے ڈھلوان اور پہنچنے کا فقط ایک راستہ بچتا تھا۔

یه ہم جماعت نظام الملک طوسی،عمر خیام اور حسن بن صباح تهے جن کو تاریخ کے سب سے زیاده اثر انگیز ہم جماعت کہا جائے تو غلط نه ہوگا،اسلامی دنیا کی تمام علوم سے مزین پہلی یونیورسٹی جامعه نظامیه اور سیاست په موثر ترین کتاب اسی نظام الملک نے لکهی،عمر خیام نے رباعیاں لکھی اور ٹرگنومیٹری کی ایجاد کا سہرا اسی کے سر جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے کالم کا اصل کردار حسن بن صباح ہے۔

حسن بن صباح انتہائی چالاک اور شاطر ملٹری تکنیک کا ماہر تھا۔اپنی روپوشی کے عرصه میں اس نے ایک اسماعیلی پیش رو کی سنگت اختیار کر لی تهی اور ایک جنونی مبلغ بن گیا تها. اسماعیلی امام کی تخت نشینی کے لئے اس نےانفرادی طور پر دوسرے مسلک کے حکمرانوں اور وزراء کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ اسی کام کے لیے اس نے فدائی یعنی پہلے خودکش بمبار تیار کیے۔ کسی بهی قسم کی حکومتی پیش قدمی کو روکنے کے لئے اس نے قلعه الموت کا انتخاب کیا،جب بهی کوئی حکمران اس په چڑهائی کرنے کیلئے فوج کو لے کر جاتا تو وه لوگ اوپر سے پتهر پھینکنا شروع کر دیتے جس سے فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑتی۔

بالآخر بادشاه طغرل بیگ نے اس کی سپلائی لائن کاٹ دی که ایک دن بھوک کی وجه سے تنگ آکر وه خود ہی ہتهیار ڈال دیں گے. نیز اس نے ایسا ہی کیا پھر ایک دن جب وه سویا ہوا تھا اچانک اس کی آنکھ کھل گئی،آنکھ کھلنے په اس نے دیکھا که اس کی گردن کے ساتھ ہی ایک خنجر گڑا ہوا ہے اور اس په لکھا تھا که محاصره ختم کر دو ورنہ یہ خنجر تمہاری گردن کہ اندر بهی جاسکتا تها۔کہتے ہیں ہیں کہ اسی لمحے بادشاه نے محاصره ختم کرنے کا حکم دیا اور فوج لے کر چلا گیا،تھوڑے ہی عرصه بعد حسن بن صباح بهی فوت ہو گیا اور اس کے حواری بهی کمزور ہوکر ختم ہو گئے۔

لیکن کچھ ہی عرصہ پہلے راجن پور میں اس کا دوسرا جنم ہوا لیکن اس دفعہ اس کے نظریات میں مذہبی نہیں بلکہ سماجی جارحیت اور جنون تھا، بلکہ پہلے حسن بن صباح اور موجوده غلام رسول عرف چھوٹو میں سب سے قدر مشترک ان کی لڑائی کرنے کی حکمت عملی ہے کہ دونوں تک سوائے سپلائی لائن بند کرنے کے پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ دوسرا انفرادی طور پر ان کا ریاست کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا اور اس لڑائی میں معصوم لوگوں کا بهی جان سے جاناہے۔

لیکن دونوں کے درمیان بنیادی فرق تاریخ کا ہے۔ اور تاریخ سب سے بڑی منصف ہوتی ہے ہم حسن بن صباح کے بارے میں بیان کی جانے والی کسی بھی کہانی کو سچ مان سکتے ہیں اور کسی کو بهی جھٹلا سکتے ہیں،لیکن چھوٹو کے معاملے میں ہر گز ایسا نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ ایک چائے کے کھوکھے سے پنجاب کی تاریخ کے سب سے بڑے ڈاکو کہلائے جانے والے شخص کے بارے میں ہم بہت کچھ جانتے ہیں۔

بی بی سی لندن میں چھپنے والی ایک اسٹوری کے مطابق 1988 سے پہلے چھوٹو چائے کے کھوکھے پر بطور ایک ویٹر کام کرتا تھا۔ ایک قبائلی جھگڑے میں اس کے بھائی کو گرفتار کرلیا گیا،اس کے باپ اور بھائی فرار ہو گئے اور اسی سال اس کو پولیس نے رشوت نہ دینے کی وجہ سے ایک جھوٹے چوری کے مقدمہ میں دھر لیا۔اس سارے عرصہ میں اس کی لگ بھگ 12 ایکڑ زمین پر بهی قبضہ کر لیا گیا۔

یہ تمام حالات اس کے ڈکیت بننے کے ذمہ دار ہیں۔ اور ان تمام حالات کا ذمہ دار ریاست کے اندر انصاف کا نا پید ہونا اور حکمرانوں کا ان تمام معاملات سے عاری ہو کر نا اهل لوگوں کو رشوت اور سفارش پہ قانون اور انصاف کے اداروں میں بھرتی کرناہے. حضرت علیؓ  کا قول ہے کہ معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں،اور نا انصافی سے بڑا ظلم ایک ریاست کیا کر سکتی ہے۔

چھوٹو کو تو قانون ہاتھ میں لینے کے جرم کی سزا مل جائے گی کیا غلام رسول کو چھوٹو ڈکیت بنانے والی ریاست کو سات خون ہیں۔

Comments are closed.