ایم کیو ایم کا بحران

0,,19495521_303,00

پاکستان کی فوجی ایسٹیبلشمنٹ کی بھرپور کوشش ہے کہ ایم کیوایم کو ختم کیا جائے اور اس کی بجائے اپنے کٹھ پتلی سیاستدان سامنے لائے جائیں۔ اس مقصد کے لیے دھونس دباو اورلالچ دے کر آئی ایس آئی نے ایم کیو ایم کے منحرف رہنماوں پر مشتمل پاک سر زمین پارٹیتشکیل تو دے دی ہے مگر وہ مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ایسٹیبلشمنٹ نے ایک بار پھر ایم کیو ایم کو ختم کرنے کے لیے بھرپور وار کیا ہے۔

الطاف حسین سے اعلان لاتعلقی کے بعد ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پارٹی کے منحرف رہنماؤں کو شبہ ہے کہ یہ میچ بھی فِکس ہے۔ کیونکہ ایم کیو ایم کی قیادت کسی اور کو مل ہی نہیں سکتی۔

تاہم ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اور تجزیہ کار فاروق ستار کو الفاظ سچ ثابت کرنے کا وقت دینے کے حق میں ہیں۔ تجزیہ کاروں کی آراء میں ایم کیو ایم ان زیادتیوں کے ردعمل کے طور پر سامنے آئی جن کا سامنا قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے آنے والوں کو ایوب مارشل لاء کے بعد سے کرنا پڑا اور بلاشبہ الطاف حسین کو بھی ان ہی معاشی ناہمواریوں نے پیدا کیا جنہوں نے اپنی قوم کو مہاجر کے نام سے نئی شناخت دی اور بلاشبہ نچلے طبقے کے لوگوں کو ملک کے اعلٰی ترین ایوانوں تک پہنچایا۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت کے مقابلے میں جنرل ضیا اور جنرل مشرف سے ایم کیو ایم کے تعلقات قدرے بہتر رہے۔ نچلے طبقے کا ابھرنا مہاجروں کو ملنے والی شناخت اور پارلیمان میں نمائندگی وہ وجوہات ہیں جن کے باعث اردو بولنے والے الطاف حسین کے طلسم میں گرفتار رہے اور شاید کسی نہ کسی حد تک آج بھی ہیں۔

لیکن بائیس اگست کو الطاف حسین نے پاکستان مخالف تقریر اور پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا کر بانیان پاکستان کی اولادوں کو ایسے دو راہے پر لا کھڑا کیا جہاں ان کو پاکستان یا الطاف حسین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ ایم کیو ایم کی بساط تقریباً لپیٹنے کے مترادف ہے ۔

پارٹی ہیڈکوارٹرز سمیت اس جماعت کے تمام دفاتر بند ملک میں موجود قیادت گرفتار اور غیر اعلانیہ پابندی نے پارٹی کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کو مزید عیاں کردیا اور جو لوگ کسی خوف سے پارٹی سے جڑے ہوئے تھے انہیں الگ ہونے کا موقع مل گیا۔ لانڈھی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے آصف حسنین ایک روز تک رینجرز کی تحویل میں رہنے کے بعد مصطفٰی کمال کی پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہو گئے۔

ایم کیو ایم کے نئے قائد ڈاکٹر فاروق ستار نے پہلے ہی شبہ ظاہر کردیا تھا کہ آصف حسنین اور رکن سندھ اسمبلی شیراز وحید پر وفاداری تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ شیراز وحید نے دباؤ مسترد کیا تو جیل ان کا مقدر ٹھہری۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے فارورق ستار نے غیر قانونی طور پر پارکس سمیت دیگر سرکاری اراضی پر قائم ایم کیو ایم کے دفاتر مسمار کرنے کی مخالفت تو نہیں کی تاہم انہوں نے ہر دفتر کے غیر قانونی ہونے کا الزام مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’شہر کا میئر منتخب ہوچکا ہے یہ کام اس کے سپرد کیا جاتا تو اس کارروائی کا منفی تاثر نہ جاتا۔‘‘۔

انہوں نے حکومت کو پیشکش بھی کی کہ دفاتر کے علاوہ ایم کیو ایم کی جانب سے قائم لائبریریز اور کمپیوٹر سنٹرز کو مسمار کرنے کی بجائے انہیں رفاعی ادروں کے حوالے کردیا جائے۔

ایم کیو ایم کے بطن سے جنم لینے والی پاک سر زمین پارٹی کے رہنماؤں نے ڈاکٹر فاروق ستار کے الطاف حسین سے اعلان لاتعلقی کو ڈرامہ قرار دیا ہے۔ اس پارٹی کے رہنما مصطفٰی کمال کہتے ہیں، ’’اگر ایم کیو ایم کے قائد اب ڈاکٹر فاروق ستار ہیں تو لندن میں موجود ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کیا کر رہی ہے؟ الطاف حسین نے قیادت سے ہٹانے جانے کے اعلان کے بعد امریکا میں کارکنوں سے خطاب کس حیثیت سے کیا ہے؟۔‘‘

ایم کیو ایم کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے موجودہ صورت حال کا فائدہ بھی ایم کیو ایم کو قرار دیتے ہیں۔ ماضی میں ایم کیو ایم نے فوجی آپریشن سمیت سنگین ترین حالات کا سامنا کیا۔ 1992ء کے آپریشن کے باعث ایم کیو ایم آفاق احمد اور عامر خان کے الطاف حسین سے پیدا ہونے والے اختلافات کو جھیل گئی۔ جبکہ 1995ء کے آپریشن کا نتیجہ ایک بار پھر ایم کیو ایم کی مظلومیت بن کر سامنے آیا۔

معروف صحافی اورتجزیہ کار اشرف خان کہتے ہیں، ’’کراچی کے حالیہ آپریشن میں ڈیمیج کنٹرول کرنے کے لیے کوئی چیز نہیں سوچی گئی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں کارکنوں کی ہلاکتوں اور جبری کمشدگیوں کا فائدہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تو ہرگز نہیں مل سکتا‘‘۔

ایم کیو ایم کے لیے سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ تمام تر مشکلات اور پیچیدگیوں کے باوجود وسیم اختر کو کراچی کی میئرشپ مل گئی ہے۔ وسیم اختر نے تمام تر قانونی پیچیدگیوں کے باوجود میئر کراچی کا حلف بھی اٹھالیا۔ اب اگر وسیم اختر کراچی کے مسائل پچاس فیصد بھی حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایم کیو ایم کے لیے صورت حال تبدیل ہونا زیادہ مشکل نہیں رہے گی لیکن ایم کیو ایم کو جرائم پیشہ افراد کو ہمیشہ کیلئے خود سے جدا کرنا ہوگا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کراچی کی سیاست ہر تیس سے پینتیس سال بعد کروٹ لیتی ہے ستر کی دھائی میں شہر پر مذہبی جماعتوں کا راج تھا۔ جماعت اسلامی اور علامہ شاہ احمد نورانی کی جمعیت علماء پاکستان نے ذوالفقارعلی بھٹو کی شدید اپوزیشن کی مگر پھر ایم کیو ایم وجود میں آئی اور اس کے ساتھ شروع ہونے والی خوں ریزی آج تک جاری ہے۔

ایم کیو ایم پہلے شہر میں بسنے والی دیگر قومیتوں سے لڑی اور پھر آپس میں بھی کشت و خون ہوا۔ داخلی انتشار ڈاکٹر عمران فاروق، طارق جاوید، ایس ایم طارق اور خالد بن ولید سمیت کئی بانی اراکین کے قتل کا باعث بنا مگر ہر بار ایم کیو ایم کو ریسکیو کرنے کے لیے ایک آپریشن شروع ہوا جو ایم کیو ایم کے لیے نئی زندگی ثابت ہوا۔

DW

Comments are closed.