اے سرزمین پاک 

shahzad irfan

شہزاد عرفان

پاکستان کے پہلے قومی ترانے کے خالق، عیسیٰ خیل سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نوجوان سرائیکی شاعر، ادیب اور محمد علی جناح کے پسندیدہ، سئیں جگن ناتھ آزاد ہیں جنہوں نے قائد کی درخواست پر اردو زبان میں پہلا قومی ترانہ لکھا جس کی منظوری جناح صاحب نے اپنی زندگی میں ہی دی تھی۔

 یہ ترانہ 12 اگست کو لکھا گیا جس کی 15 اگست کو قائد اعظم نے سرکاری منظور دی جو 14 اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب، قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ریڈیو لاہور سے نشر ہوا اور صرف 18 ماہ تک ہی پاکستان کا باقاعدہ قومی ترانہ رہا۔

قائد کی وفات کےفوراً بعد ہی اسٹیبلیشمٹ نے پنجاب کی مرکزیت کو قائم کرنے کی غرض سے ایک نیا قومی ترانہ تشکیل دینے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں دسمبر 1948 کو ایک قومی ترانہ کمیٹی این اے سی  تشکیل دی گئی جس کے تین نما یاں ممبران عبدالرب نشتر، حفیظ جالندھری اور احمد غلام علی چھاگلہ تھے۔ یہ کمیٹی 1950 کے اوائل تک قومی ترانہ کے سلسلے میں کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکی اوربالآخر 13 اگست 1954 کو پہلی دفعہ حفیظ جالندھری کی شاعری اوراحمد غلام علی چھاگلہ کی کمپوزیشن میںپاک سر زمین شاد بادریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔

پاکستان کی پیدائش اور موجودہ قومی ترانے کے درمیان سات سال کا عرصہ ہے۔  یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر سئیں جگن ناتھ آزاد کا لکھا پہلا ترانہ درست نہیں تھا تو قائد کی زندگی میں ہی اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے  بیوروکریٹس نے اس وقت اس پر اعتراض کیوں نہ کیا تھا ؟ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے بنیاد پرست مُلائیت پرست اسلامی افسران کا ایک یہ بھی اعتراض تھا کہ پاکستان کے قومی ترانے کا خالق ایک غیر مسلم ہندو ہے ۔

مگر قائد کے لبرل مزاج اور سیکولر پالیسی کی وجہ انکی جرأت نہیں بن پائی کہ وہ قائد سے اس بارے کوئی بھی نقطۂ اعتراض اٹھائیں۔ ان کے لئے قائد کی وفات کے بعد یہ کام آسان ہوگیا۔ چناچہ انھیں اب ایک ایسے شاعر کا انتخاب کرنا تھا جسکا نظریاتی رجہان اسلامی ہو اورجوعربی فارسی پر مکمل دسترس بھی رکھتا ہو۔ انھیں ڈر تھا کہ  پاکستان تہذیبی اورثقافتی لحاظ سے کثیرالقومی و کثیرالثقافتی خطہ ہے یہاں کی مقامی اقوام میں ایک سے زیادہ زبانیں رائج ہیں جو وسائل کی تقسیم میں کسی بھی قسم کی مصیبت کھڑی کرسکتی ہیں۔

لہذا یہ طے پایا کہ اس ملک کا قومی ترانہ ایسی زبان میں تیار کیا جائے جس کا یہاں کی مقامی زبانوں سے کوئی تعلق رشتہ نہ ہو تاکہ ریاست کا تاثر غیر جانبدار نظر آئے۔ ساتھ ہی اس زبان کا پاکستان کی تاریخی مذہبی نظریاتی اساس سے گہرا رشتہ بھی ہو۔ ظاہر ہے یہ زبان عربی یا فارسی کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی تھی حالانکہ پہلا قومی ترانہ جو جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا وہ خالصتاً عربی فارسی کا مرکب یعنی اردو زبان میں لکھا گیا تھا۔  مگر وفاق کی مرکزیت کو دوام بخشنے اور ریاستی تشخص کی عوام پر بالادستی قائم رکھنے کے لئے پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کی مقامی زبانوں کی نفی کرتے ہوئے بالآخر فیصلہ فارسی زبان کے حق میں نکلا۔

فارسی زبان کا تعلق ہندوستان کی تاریخ کے سابقہ ادوار، بیرونی حملہ آورمسلمان حکمرانوں کی تاریخ سے جُڑا ہوا ہے جنکی سرکاری زبان فارسی رہی تھی جسے تمام ہندوستانی بشمول نئے پاکستان کی مقامی زبانوں کا دشمن اور بیرونی حملہ آوروں کی زبان سمجھا جاتا تھا۔ اسی نقطہ پر اسٹیبلشمنٹ نے ہی تعلیمی پالیسی مرتب کی اور ابتدائی اکتسابی نصاب میں  ان بیرونی حملہ آوروں کو ہیروز بنا کر پیش کیا تاکہ معصوم بچوں کے ذہنوں میں مقامی ہیروز، ثقافت، زبانیں بولیاں، تاریخ اور دھرتی جُڑی ہر بات سے نفرت کا جذبہ نسل در نسل چلتا رہے تاکہ عوام ایک یوٹوپیائی ریاست کی الہامی دنیا کا خواب دیکھتے رہیں۔

 

اسٹیبلشمنٹ کے ہنر مند بنیاد پرست افسران نے بالکُل یہی حشر حصولِ آزادی کے دن کی تاریخ کے ساتھ بھی کیا ۔ پندرہ اگست ہندوستان کی انگریزسرکار سے آزادی کا دن سمجھ کر منایا جاتا ہے ظاہر ہے پاکستان بھی اسی دن انگریز سرکار سے آزاد ہوا ہوگا۔ اس لئے پاکستانی تاریخ کے ریکارڈ میں 15 اگست ہی کا دن آزادی کا درج ہے۔

مگر  یہاں ایک بار پھر قوم کی عزت آبرو لُٹ جانے کے ڈر سے  بیوروکریٹس نے عوام اور تاریخ کی آنکھوں میں دن دیہاڑے دھول جھونک کر آزادی کی تاریخ  15 اگست سے 14 اگست منانے کا اعلان کیا تاکہ نئی نسل کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ ہم نے آزادی انگریز سے نہیں بلکہ اپنے دشمن ملک ہندوستان سے لی ہے ورنہ دو دشمن ملک بھلا ایک دن یوم آزادی کیسے اور کیونکر منا سکتے ہیں۔

  

اب قوم اپنی آزادی 14 اگست کو منائے یا 15 اگست کو  اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیوںکہ تاریخ وہ نہیں جو سرکار اپنی مرضی سے مرتب کرے بلکہ وہ ہے جسے لوگ   یاد رکھیں۔ 

پندرہ اگست 1947 کے دن ہمارے انگریز حکمران نے چند گھنٹوں کے اندر پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیب و تمدن زبان و ثقافت کے سائنسی ارتقاء کو ایک بار پھر صفر سے ابتدا کرنا تھا لہذا اس کا جغرافیائی نام پاکستان، نظریاتی اساس اسلام ، قومیت پاکستانی، قومی زبان اردو، قومی ترانہ جو پہلے اردو بعد میں فارسی قرار پایا۔

قائدِاعظم کی پسند اوران سے منظورشدہ پہلے قومی ترانے کے قتل کے بعد اس نئے فارسی قومی ترانے کے خالق جناب ابوالاثر حفیظ جالندھری تھے جو قومی ترانہ کمیٹی کے ممبر بھی تھے۔ جالندھریوہ تخلص کرتے تھے کیوں کہ ہندوستان سے ہجرت کے باوجود ان کا آبائی ہندوستانی پنجاب کا شہرجالندھربے شک تقسیم ہند کی نذر ہوگیا تھا مگر خیالات سوچ اور سابقہ وطن سے محبت کی تقسیم نا ممکن رہی تھی۔

لہذا انھوں نے اپنے سابقہ وطن کی محبت کو اپنے تخلص میں بدل کر خود کو جالندھری کہلوانا پسند کیا۔ مگریہ بھی ان کی خوش قسمتی کہ پاکستان کے قومی ترانے کے خالق ہونے کا اعزاز بھی انھیں کے حصہ میں آیا۔

قائداعظم نے جس غیر مسلم ہندو نوجوان کے لکھے ہوئے اشعار کو بہت پسند کرتے ہوئے پاکستان کا پہلا 

قومی ترانہ قرار دیا اس کے اشعار یوں ہیں۔

IN21_AZAD_5195e

اے سرزمین پاک

ذرے ترے ہیں آج ستاروں سے تابناک

روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک

تندی حاسداں پہ ہے غالب تیرا سواک

دامن وہ سل گیا ہے جو تھا مدتوں سے چاک

اے سرزمین پاک

اب اپنے عزم کو ہے نیا راستہ پسند

اپنا وطن ہے آج زمانے میں سر بلند

پہنچا سکے گا اس کو نہ کوئی بھی اب گزند

اپنا علم ہے چاند ستاروں سے بھی بلند

اب ہم کو دیکھتے ہیں عطارد ہوں یا سماک

اے سرزمین پاک

اترا ہے امتحان میں وطن آج کامیاب

اب حریت کی زلف نہیں محو پیچ و تاب

دولت ہے اپنے ملک کی بے حد و بے حساب

ہوں گے ہم آپ ملک کی دولت سے فیض یاب

مغرب سے ہم کو خوف نہ مشرق سے ہم کو باک

اے سرزمین پاک

اپنے وطن کا آج بدلنے لگا نظام

اپنے وطن میں آج نہیں ہے کوئی غلام

اپنا وطن ہے راہ ترقی پہ تیز گام

آزاد، بامراد، جوان بخت شاد کام

اب عطر بیز ہیں جو ہوائیں تھیں زہر ناک

اے سرزمین پاک

ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک

روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک

اے سرزمین پاک

2 Comments