اے کاش مِرے آباء ، غدّارِ وطن ہوتے

Asif-Javaid4

آصف جاوید

غدّار عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ اردو زبان میں بھی یکساں مستعمل ہے۔ عربی زبان میں اس لفظ ’’ غدّار‘‘ کے معنیہیں بے وفا، نمک حرام، فساد کرنے والا اور باغی۔ اور لفظ ’’ غدر‘‘ کے معنی ہیں بے وفائی ، بلوہ، ہنگامہ اور بغاوت۔

قارئین اکرام ہمیں اپنی بات شروع کرنے سے پہلے اردو لُغت سے لفظ غدّار کے معنیڈھونڈنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب آپ کو آگے چل کر ہمارے مضمون میں مل جائے گا۔ہمارے پیارے وطن پاکستان میں نظریاتی و سیاسی مخالفین کو غدّار ، ملک دشمن اور انڈیا کا ایجنٹ کہنے کی روایت بہت ہی پرانی اور پختہ ہے۔

ہمارے مرئی اور غیر مرئی حکمرانوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب ان کے سیاسی اور نظریاتی مخالفین اپنے موقّف کی سچّائی، ثبوتوں اور دلیلوں سے ان کو بے بس کردیتے ہیں، تو ان حکمرانوں کا دفاعی نظام ایک خود مختار میکینزم کے تحت اپنے نظریاتی و سیاسی مخالفین کو کافر، ملک دشمن ، غدّار اور انڈیا کا ایجنٹ قرار دینا شروع کردیتا ہے۔

یہ نظام اتنا پختہ ہے کہ پوری ریاستی مشینری ، تمام اربابِ اختیار اور زرخرید میڈیا اس عمل کو قومی و سماجی ذمّہ داری محسوس کرتے ہوئے پروپیگنڈہ اور میڈیا ٹرائیل میں شریک ہوجاتے ہیں۔ اس ہی لئے کسی پاکستانی دانشور کا یہ قول مشہورِ عام ہے کہ

جو یہاں سچ بولے، وہ غدّار ہے۔

ایک سیاستداں نے تو اس حد تک کہا ہے کہ

۔غدّاروں کی وجہ سے پاکستان کی ایک انچ زمین علیحدہ نہیں ہوئی۔ اور محبِّ وطنوں نے آدھا ملک گنوادیا۔

پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، پاکستان میں نظریاتی اور سیاسی مخالفین کو غدّار قرار دینے اور انڈیا کے ایجنٹ بنانے کی روایت اور تاریخ کافی پرانی ہے۔

سب سے پہلے بانیِ پاکستان قائدِ اعظم کو کافر قرار دیا گیا۔ تاریخ کی کتابوں کی ورق گردانی کرکے دیکھ لیں کہ تحریکِ پاکستان کے دوران لاہور میں مجلس احرار کے مولوی مظہر علی اظہر المعروف مولوی اِدھر علی اُدھر نے حضرت قائداعظمؒ کو ’’ کافرِ اعظم‘‘ قرار دِیا تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا مفتی محمود کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’ خُدا کا شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘۔

آج تک اکابرینِ پاکستان میں سے کسی نے مفتی محمود اور اُن کے مذہبی و سیاسی وارثوں سے قائداعظمؒ کے بارے میں اس دشنام طرازی پر معافی کا مطالبہ نہیں کیا ؟ قیامِ پاکستان کے بعد جنرل ایّوب کے زمانے میں ریاستی اداروں نے غیر مرئی اشاروں پر قائد اعظم کی بہن مادر ملّت محترمہ فاطمہ جناح کو غدّار اور انڈیا کا ایجنٹ قرار دیا اور اس کا پروپیگنڈہ کیا گیا۔

یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ کہ تحریکِ پاکستان کے لیے بنگال میں میلوں سائیکل پر سفر کر کے رائے عامہ ہموار کرنے والا سیاسی کارکن شیخ مجیب الرحمان غدّارِ وطن ٹھہرایا گیا۔ تحریکِ پاکستان کے لئے سندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈلوانے والے سائیں جی ایم سید کو ریاست پاکستان نے تاحیات، ملک دشمن اور غدّار سمجھا۔ قائد اعظم کو سونے میں تولنے والے خان آف قلات کا بیٹا غدّارِ وطن ٹھہرا۔

آزاد بلوچستان پر فوج کشی کے ذریعے قبضہ کرنے کے باوجود سب کچھ بھول کر بلوچستان کو قوی سیاست میں شامل کرنے اور گوادر کو پاکستان کے ساتھ ملانے کی کوششیں کرنے والا سردار اکبر بگٹی بھی غدّارِ وطن ٹھہرا، قائدِ اعظم کے سرحدی شیر باچا خان بھی غدّار وطن اور انڈیا کے ایجنٹ ٹھہرائے گئے۔ اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کرنے والی مہاجر قوم بھی غدّار ٹھہرائی گئی۔

ترقّی پسند ادیب و شاعروں، آزاد فکر دانشوروں، مفکّروں ، اور بائیں بازو کے سیاستدانوں سمیت کسی پر بھی اعتبار نہیں کیا گیا سب کو غدّار کہا گیا، ۔ سجاد ظہیر، سی آر اسلم، شیخ مجیب الرحمان، خان عبدالغفار خان، ولی خان، فیض احمد فیض، جی ایم سید، حبیب جالب، جام ساقی، جمال نقوی، بگٹی ، بزنجو ، غرض پاکستان میں تمام ترقی پسند، سیکولر نظریہ کے حامی اور بائیں بازو کے سیاسی نظریات کے حامل سب ہی لوگ ریاست پاکستان کی نظر میں غدّار اور را کے ایجنٹ قرار پائے ہیں۔

مساوی شہری حقوق کے مطالبے پر بنگالیوں کے لیڈر شیخ مجیب اکرحمان کو غدّار قرار دیا گیا۔ ملک توڑنا گوارہ کرلیا مگر بنگالیوں کو نہ تو محبِّ وطن سمجھا گیا ، اور نہ ہی مساوی حقوق دئے گئے۔

یہی رویّہ اب مہاجروں کے ساتھ ہے۔ صوبہ سندھ کی دیہی اور شہری تقسیم اور صوبہ سندھ میں دیہی و شہری غیر منصفانہ کوٹہ سسٹم کے نفاذاور مہاجر قوم (انڈیا سے پاکستان ہجرت کرنے والے اردو اسپیکنگ) کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، امتیازی سلوک اور مساوی شہری حقوق کا مطالبہ کرنے والے مہاجر قوم کے ہر دلعزیز اور متّفقہ لیڈر الطاف حسین کو اپنی قوم کے لئے حقوق مانگنے کی پاداش میں ریاستی ادروں کی جانب سے غدّارِ وطن اور را کا ایجنٹ قرار دینے بعد اب پختون قوم پرست رہنماء محمود خان اچکزئی کو غدّار قرار دینے کی تیّاریاں زور و شور پر ہیں۔

محمود خان اچکزئی کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے یہ کیوں کہا کہ خیبر پختونخوا افغانیوں کا ہے انہیں خیبر پختونخوا سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ بلوچستان کا احوال آپ سے مخفی نہیں، پوری بلوچ قوم حقوق مانگنے کے جرم میں غدّار قرار دے دی گئی ہے، بلوچستان میں بدترین ریاستی آپریشن جاری ہے۔ ہوائی جہازوں سے بلوچ آبادیوں پر بم برسائے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں ریاستی بربریت کا شکار ہیں۔ نوجوانوں کی جبری گمشدگیاں ، زیرِ حراست بدترین تشدّد، ماورائے عدالت قتل اور مسخ شدہ لاشیں بلوچ نوجوانوں کا مقدّر ہیں۔ یہی کچھ مہاجروں کے ساتھ کراچی میں بھی ہورہا ہے۔

یہ جتنے بھی غدّاران وطن ہیں ، ایک منظّم منصوبے اور ریاستی پالیسی کے تحت ان کو غدّار قرار دئے جانے کے بعد جیلوں اور میڈیا بلیک آوٹ کی بند گلی میں قید کردیا جاتا ہے۔ ان کو عوام کے سامنے اپنی صفائی کے لئے مواقع فراہم نہیں کئے جاتے ہیں ۔ کبھی ان کو اپنی صفائی کا موقعہ فراہم نہیں کیا جاتا ہے، ان کو اخبارات، ٹی وی اور میڈیا کی رسائی سے محروم کرکے مفلوج کردیا جاتا ہے۔ اور ریاستی اداروں کی ایماء پر زرخرید میڈیا کے ذریعے ان کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے۔

عوام میں غیر مقبول بنانے کے لئے ان کی کردار کشی کی جاتی ہے، ان کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے، عوام میں ان کا امیج خراب کیا جاتا ہے۔ ۔ پاکستان کی کسی عدالتِ انصاف میں باقاعدہ آزادانہ مقدمہ چلا کر ثبوت و شہادتوں کے ذریعے ملزم کو مجرم ثابت نہیں کیا جاتا ہے، بس سب کچھ میڈیا کے ذریعے کردار کشی کے تحت کیا جاتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد اس کے مالک وہ عناصر بن بیٹھے ہیں جن کا قیام پاکستان کی جدوجہد میں رتّی بھر کردار نہیں تھا۔ 1946 تک پنجاب میں جاگیرداروں کی یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی اور مسلم لیگ کو تحریکِ پاکستان کے لئے پنجاب میں کردار ادا کرنے کا موقعہ نہیں ملا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان کا تحریکِ پاکستان میں کوئی قابلِ ذکر کردار بھی نہیں تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صبح سو کر اٹھے تو پاکستان بن چکا تھا ۔ مگر پھر بھی یہ محبِّ وطن اور ملک کے مالک قرار پائے۔

اور وہ لوگ جنہوں نے اس مملکت خداداد کو دنیا کے نقشے پر دیکھنے کے لیے اپنا تن من دھن اور مال و عزت اور دولت تک قربان کر نے میں فخر اور ناز کیا ، ملک کی خاطر قربانیاں دیں ہجرت کا عزاب سہا، وہ غدّار اور انڈیا کے ایجنٹ ٹھہرا ئے گئے۔ جو لوگ انگریزوں کے اقتدار کو دوام بخشتے تھے، انگریز افواج کو اناج، گھوڑے اور جوان بھرتی کرکے دیتے تھے اور انعام میں جاگیریں پاتے تھے ، قیامِ پاکستان کے بعد یہی لوگ پاکستان کی سیاست اور اقتدار کی مسند پر قابض ہوگئے ۔ اس ہی طبقے کا غلبّہ دیکھتے ہُوئے کسی دِل جلے شاعر نے کہا تھا کہ

اے کاش مرے آباء ، غدّارِ وطن ہوتے
ہم آج کی دُنیا میں ، سردارِ وطن ہوتے

2 Comments