ریاستی بحران اور پشتون نسل کشی 

aimal

ایمل خٹک 

سانحہ بابڑہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ۔ پچھلے سالوں کی نسبت اس سال یوم بابڑہ کے حوالےسے سوشل میڈیا میں کافی جوش و خروش رہا۔ بابڑہ کے واقعے سے پاکستانی ریاست نے پشتونوں کی نسل کشی کی ابتدا کی تھی۔ بابڑہ سے لیکر آج تک پشتون قوم مسلسل ریاستی جبر کا شکار ہیں اور مختلف طریقوں سے اس کو ریاستی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ سانحہ بابڑہ 12 اگست 1948 کو بابڑہ کے مقام چارسدہ میں نہتے اور پرامن خدائی خدمتگاروں کے ریلی پر فائرنگ کی گئی۔ فائرنگ کے نتیجے میں 602 شرکاء ریلی شہید جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق پاکستانی ریاست نے شہیدوں کے ورثاء سے گیارہ ہزار تین سو پچانوے روپے 56000 چلائی گئ گولیوں کے نقصان کے ازالے کے طور پر او 50000 روپے دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی کا جرمانہ وصول کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ دفعہ ایک سو چوالیس وقوعہ کے بعد نافذ کیا گیا تھا۔ 

دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں بھی نسلی امتیاز اور تعصب کا پہلو نمایاں ہے۔ پشتون سرزمین پر عسکریت پسندی اور دہشت گردی ریاستی دہشت گردی کی ایک قسم ہے۔ کیونکہ ریاست کی سرپرستی میں نہ صرف عسکریت پسندی کو یہاں منظم انداز میں پروان چڑھایا گیا بلکہ افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں کو ایک منصوبے کے تحت عسکریت پسندوں کے حوالے کیا گیا۔ اور افغان طالبان کی مدد اور سپورٹ کیلئے ایک وسیع جہادی انفراسٹرکچر بنایا گیا۔

افغان طالبان کی مدد کیلئے نہ صرف سازگار ماحول مہیا کیا گیا بلکہ رضاکاروں کی بھرتی، تربیت ، لاجسٹک اور کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز بھی قائم کئے گئے۔ حتی کہ کئی مواقع ایسے بھی آئے مثلا کور کمانڈر صفدر حسین کے دور میں وزیرستان آپریشن میں ہلاک ہونے والےعسکریت پسندوں کی قومی خدمات کا کھلے عام اعتراف کیا گیا انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کے ورثاء کو معاوضہ بھی دیا گیا۔

پاکستان میں پہلے ڈرون حملے میں مارے جانے والے کمانڈر نیک محمد کے ورثاء کو کھلے عام تو نہیں بلکہ خاموشی سے خلوت میں پیسے دئیے گئے۔ دہشت زدہ علاقوں کے عوام عسکریت پسندوں کی ریاستی سرپرستی کے چشم دید گواہ ہیں ۔ اس وجہ سے تو ا بھی تک بہت سے دہشت زدہ علاقوں میں عسکریت پسند اور فورسز کو ایک سکے کے دو رخ سمجھنےکا تصور کمزور نہیں ہوا۔ اس طرح  سوات میں جاری سیاسی اور امن کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے ایجنسیوں کے کردار کے حوالے سے عوامی سطح پر کئی کہانیاں اور افواہیں زیر گردش ہیں ۔   

اور علاقوں کی نسبت عسکریت پسندوں نے پشتون سرزمین پر سب سے زیادہ دہشت بھی پھیلایا اور خون خرابہ کیا۔ فوجی آپریشنوں میں خطرناک سے خطرناک جنگی ہتھیاروں اور گولہ بارود کا بے دریغ استعمال بھی یہاں کیا گیا۔ آپریشنوں میں پشتون علاقوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ پنجاب جہاں ملک کی بڑی بڑی عسکری تنظیموں کے مرکزی دفاتر ہونے کے باوجود وہاں پشتون علاقوں کی طرح آپریشن تو کجا کئی سالوں سے جس کومبنگ آپریشن کی بات ہو رہی ہے اس پر بھی عملدرامد نہیں ہوا۔

اور گزشتہ کچھ عرصے سے اندرونی دباؤ اور خفت سے بچنے کیلئے حکمران کبھی کبھار پنجاب میں آپریشن کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ایک طرف پنجابی حکمران طبقہ ابھی تک پنجابی طالبان کے وجود سے انکاری ہے۔ تو دوسری طرف پنجاب حکومت کی تحریک طالبان کو پنجاب میں کاروائیاں نہ کرنے کے بدلے ان کے خلاف کاروائی نہ کرنے کی پیشکش آن دی ریکارڈ ہے۔ پشتون سیاسی راہنماوں ، سرکردہ قبائلی مشیران ، دانشوروں ، سیاسی اور سماجی کارکنوں کی ہلاکتیں نسل کشی کی نئی شکل ہے جس میں وسیع پیمانے پر قتل عام کے علاوہ معاشرے کے بااثر ، فہم و فراست اور قومی احساس اور درد رکہنے والی شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ چین۔پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ میں دانستہ طور پر بنیادی روٹ کی تبدیلی سے پشتونوں کی معاشی نسل کشی کی کوشش جاری ہے۔

عسکریت پسندی کو ایک پالیسی ہتھیار کے طور پر استعمال کے سنگین اور مضراثرات سامنے آنے کے بعد اور اندرونی اور بیرونی دباؤ کی نتیجے میں پاکستانی ریاست نے اپنی پالیسیوں میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔  اب تمام عسکریت پسند تنظیموں کی سرپرستی کی بجائے اچھے اور بر ےطالبان یا عسکریت پسند تنظیموں میں تمیز کی پالیسی آگئی ہے۔ جس کے تحت پڑوسی ممالک یا دیگر ممالک میں دہشت پھیلانے والے اچھے اور خود پاکستانی ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والے برے کہلائے جاتے ہیں ۔ یہ اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح بھی بڑی دلچسپ اور عجیب ہے ۔ برے طالبان کچھ عرصہ پہلے اچھے طالبان تھے اور کیا پتہ اچھے کہلائے جانے والے کب برے بن جائینگے۔  

برے طالبان میں سے کچھ عسکریت پسند پاکستانی ریاست سے نورا کشتی کھیل رہے ہیں جبکہ کچھ واقعی اس کی منافقت اور ڈبل گیم کی وجہ سے اس کے خلاف ہو گئے ہیں۔ نورا کشتی کھیلنے والوں کی ڈیوٹی پاکستان مخالف قوتوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ بیرونی مداخلت کے ٹھوس ثبوت فراہم کرنا بھی ہے۔ 

حکمرانوں کی دروغ بیانیوں اور کھوکھلے بیانات نے ریاستی منافقت اور دوغلا پن کو افشا کردیا ہے۔ عوام اور ریاست میں دوریاں بڑھ گئی ہیں اور ریاستی اداروں پر اعتماد کا فقدان ہے۔ ریاست کی صبر اور برداشت بھی جواب دے رہی ہے۔ مقتدر حلقے تو سیاستدانوں کی توقیر اور گالیاں دینے پر خوش ہوتے ہیں مگر جب ان پر انگلی اٹھائی جاتی ہے تو ان کی برداشت جواب دے جاتی ہے۔ کچھ ریاستی اداروں کو مصنوعی طریقوں سے طاقتور اور مسیحا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عوام خاص کر چھوٹی قومیتوں میں ریاست کے خلاف نفرت عروج پر ہے مگر ریاست خواب خرگوش میں مست ہے۔ 

قوم پرست نوجوان اپنی اپنی قیادتوں سے ناراض اور ان کے باہمی اختلاف سے نالاں ہیں ۔ قوم پرست سیاسی قیادت پر پشتونوں کی نسل کشی کے مسئلے پر مشترکہ آواز اٹھانے اور واضح اور  ٹھوس موقف کیلئےاندرون پارٹی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

 حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور نئے حالات کے مطابق سیاسی جماعتوں نے کوئی واضح اور ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہیں کیا تو عوام اپنی راہ اختیار کرسکتے ہیں۔ اور ملک انارکی جیسی صورتحال سے دو چار ہوسکتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ دیگر قومیتیں اور مذہبی فرقے اور اقلیتیں بھی اس ریاستی دہشت گردی کے کسی نا کسی شکل میں شکار ہیں ۔ مگر اس مضمون کا موضوع پشتونوں کے مسائل کو فوکس کیا گیا ہے۔

جب ریاستی اداروں کو حقائق کا سامنا ہوتا ہے  وہ فرسٹریشن کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اور جب فرسٹریشن بڑھتی ہے تو پھر وہی پرانے روایتی ہتھیاروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ غداری اور ملک دشمنی کے فتوے بڑھ جاتے ہیں اور شہری آزادیوں پر قدغنیں لگانے کی کوششیں تیز ہو جاتی ہے۔

گزشتہ دو سالوں میں بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کو سلب کرنے کیلئے کئی قوانین بنائے گے یا ان میں ترامیم ہوئی ۔ اب سانحہ کوئٹہ کے بعد پھر سے قوانین اور پالیسیاں مزید سخت بنانے کی باتیں ہو رہی ہے۔ ریاستی اداروں کی فرسٹریشن اور بے بسی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریاست کا معاشرے پر کنٹرول برقرار رکھنے کی کوششیں ناکامی سے دو چار ہیں۔ اور عوام میں اس کی ساکھ خراب ہوچکی ہے۔  

♦ 

6 Comments