یمن کی تباہ کن جنگ، ناکامیوں سے عبارت

asaf jilani

آصف جیلانی 

یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سعودی عرب کے حکمران یہ جانتے ہوئے کہ وہ تیل کی قیمتوں کے بحران کی وجہ سے سنگین اقتصادی مسائل سے دوچار ہیں لیکن اس کے باوجود وہ یمن میں بے سود جنگ میں الجھے ہوئے ہیں ، جس میں انہیں شکست کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی پریشانی کا باعث ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھوں ، مسلمان ہی بربادی اور ہلاکت کا نشانہ بن رہے ہیں۔

سولہ ماہ ہونے کو آئے ہیں جب کہ سعودی عرب کی قیادت میں عرب فوجی اتحاد نے یمن میں جنگ شروع کی تھی ۔عرب فوجی اتحاد میں متحدہ عرب امارات ، بحرین ، مصر، سوڈان ، مراکش اور کویت شامل ہیں ۔اب تک متحدہ عرب امارات کی فضایہ بمباری میں پیش پیش تھی لیکن اب سعودی عرب کی فضایہ تباہ کن بمباری میں مصروف ہے۔

گو سعودی عرب کی اصل لڑائی سرحد پر آباد شیعہ حوثی قبا ئلسے ہے کیونکہ سعودیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ایران کی حمایت اور مدد حاصل ہے اور یہ جنوبی سعودی عرب میں حملے کرتے ہیں ، لیکن اس جنگ نے پورے یمن کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا ہے ۔یمن کی جنگ میں اب تک ساڑھے چھ ہزار یمنی ہلاک ہو چکے ہیں ۔ پچھلے دنوں سعودی فضایہ نے دار الحکومت صنعا کے قریب ایک ہسپتال پر بمباری کی جس میں بڑی تعداد میں مریض جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ہلاک ہوگئے۔ ادھر سعودی عرب نے ساحل سمندر کا بحری محاصرہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے یمن میں قحط کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ۳ لاکھ ۷۰ ہزار بچے فاقہ کا سامنا کر رہے ہیں ۔ یمن کی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی میں سے نصف آبادی قحط سے دوچار ہے۔ ۳۰ لاکھ سے زیادہ افراد بمباری کی وجہ سے بے گھر ہوچکے ہیں۔ 

یمن کی اس تباہ کن جنگ میں سعودی عرب کو امریکا ، برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ صدر اوباما نے دراصل سعودی عرب کو خوش کرنے اور بڑے پیمانہ پر اسلحہ فروخت کرنے کے لئے یمن میں سعودی فوجی مداخلت کی حمایت کی ہے۔ سعودی حکمران ، ایران کے ساتھ امریکا کے جوہری سمجھوتہ پر سخت ناراض تھے ، یہاں تک کہ سعودی عرب نے اس سمجھوتہ کے خلاف اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھانی شروع کردی تھیں اور پچھلے دنوں سعودی شہزادہ ترکی بن فیصل نے اسرائل کی فوج کے سابق چیفس سے ملاقات کی تھی جس کے بعد سعودی عرب کے ایک سابق جرنیل نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔

برطانیہ اور فرانس کا یمن کی جنگ سے گہرا مفاد وابستہ ہے ۔ صرف برطانیہ نے گذشتہ سال اپریل سے اب تک سعودی عرب کو ۳ ارب ۸۰ کروڑ ڈالر کی مالیت کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔اور 2010سے اب تک امریکا نے سعودی عرب کو یمن کی جنگ کے لئے ایک سو ارب ڈالر کا اسلحہ بیچا ہے۔ اس دوران صدر اوباما کی انتظامیہ پر سخت دباؤ ہے کہ وہ یمن میں تباہی کے پیش نظر سعودی عرب کی حمایت نہ کرے اور اسلحہ کی فروخت بند کر دے لیکن اوباما نے ابھی تک سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت پر پابندی آمادگی ظاہر نہیں کی ہے اور بدستور سعودی عرب کی فوجی مداخلت کی حمایت جاری ہے۔

اقوام متحدہ کی کوششوں سے یمن میں امن سمجھوتہ کے لئے جون میں کویت میں مذاکرات شروع ہوئے تھے لیکن تین ماہ بعد یہ مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں ۔ یمن میں سعودی عرب کے ایماء پر جلا وطن یمنی رہنما عبد ربو منصور ہادی کی قیادت میں جو حکومت قائم کی گئی ہے اس نے امن مذاکرات میں نہایت مخاصمانہ رویہ اختیار کیا جو مذاکرات کی ناکامی کی وجہ بنا ہے۔ در ایں اثنا حوثیوں نے سابق صدر علی عبداللہ صالح کی قیادت میں سابق حکمران جماعت پیپلز کانگریس کے ساتھ اپنی ایک مخلوط حکومت کے قیام کا اعلان کیا ہے ۔ حوثیوں کے سربراہ ناصر بغا زوز نے یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خاص ایلچی ، اسمعیل عولد شیخ احمد پر الزام لگایا ہے کہ وہ سعودی عرب کی حمایت کر رہے ہیں اور یمن پر فوجی حل تھوپنا چاہتے ہیں۔

موجودہ صورت حال میں سعودی عرب کی فوجی مہم میں کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی۔ ۔ اس سے پہلے بھی ۱۹۹۱ میں سعودی عرب ، یمنیوں کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرنے میں ناکام رہا تھا۔ اس وقت سعودی عرب نے یمن کے صدر عبداللہ کی طرف سے عراق کے خلاف پہلی خلیج کی جنگ کی حمایت کرنے سے انکار کرنے پر ، سعودی عرب میں کام کرنے والے دس لاکھ یمنیوں کو ملک بدر کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے یمن کی معیشت کو سخت نقصان پہنچا تھا کیونکہ سعودی عرب میں کام کرنے والے یمنی ، ہر ماہ ۳۵۰ ملین ڈالر رقم وطن بھیجتے تھے۔ اسی کے ساتھ سعودی عرب نے یمن کی تمام مالی امداد بند کر دی تھی۔ تعلقات کو معمول پر لانے میں دس سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ 

سنہ2014میں حوثیوں نے جن کا سعودیوں نے قلع قمع کرنے کی کوشش کی تھی ، دوبارہ اپنی قوت منظم کی اور دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرنے کے بعد مخلوط حکومت قائم کی جس نے پورے یمن پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اس کے جواب میں سعودی عرب نے منصور ہادی کی قیادت میں جلا وطن حکومت قائم کی اور حوثیوں کے خلاف بھر پور جنگ شروع کر دی ۔لیکن اس جنگ میں سعودی عرب کی کامیابی کا امکان بہت کم نظر آتا ہے ۔

اسی کے ساتھ تیل کی قیمتیں ، پچھلے ایک سال کے دوران ۳۰ اور ۴۰ ڈالر فی بیرل تک گرنے کی وجہ سے سعودی عرب کو 2015میں 100ارب ڈالر کا خسارہ ہوا ، اس سال بجٹ کا خسارہ اس سے کہیں زیادہ ہونے کا خطرہ ہے۔ اس وقت سعودی عرب میں بڑی تعمیراتی کمپنیوں کو خسارہ ہوا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے کئی ہزار پاکستانی اور ہندوستانی کارکنوں کو پچھلے سات ماہ سے تنخواہیں نہیں دی ہیں اور یہ کارکن فاقہ کشی کا سامنا کر رہے ہیں۔

ایسی صورت حال میں سمجھ میں نہیں آتا کہ سعودی حکمران یمن کی اس تباہ کن جنگ میں کیوں الجھے ہوئے ہے۔ شام کی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کے خلاف نبرد آزما باغیوں کی مالی اور فوجی امداد بھی سعودی عرب کی معیشت کے لئے ناقابل برداشت بوجھ بنی ہوئی ہے۔ شام اور یمن دونوں جگہ سعودیوں کو کامیابی کا امکان نظر نہیں آتا۔ 

2 Comments