ٹھاکُر یہ بات تیری سمجھ میں نہیں آئے گی

Asif-Javaid4

آصف جاوید

ٹھاکر یہ بات تیری سمجھ میں نہیں آئے گی، اور جب تجھے سمجھ آئے گی تو اُس وقت آئے گی ، جب تجھے اقوامِ متّحدہ کی امن فوج کا افسر بالکل اس ہی طرح دھکّے دے کر ا پنے فوجی ٹرک میں ڈال کر سپر ہائی وے پر بنے جنگی قیدیوں کے کیمپ میں لے جارہا ہوگا ، جیسے تو کراچی پریس کلب کے باہر ملک کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر، اور عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ ممبر قومی اسمبلی فاروق ستّار کو اس کے ناکردہ گناہ کی پاداش میں دھکّے اور گالیاں دیتے ہوئے لے جارہا تھا۔

th

ٹھاکر جب تو فاروق ستّار بھائی کو دھکّے دیتا ہوا لے جارہا تھا، تو، اس وقت تُو کہ رہا تھا، اوئے چل، زیادہ ڈرامے بازی مت کر۔ مگر لگتا ہے کہ تو نے 1971 کی ڈھاکہ میں بنی فلمبنگلہ دیشنہیں دیکھی، اس فلم میں تو تیرے سینئر افسران اور جنرلوں نے بھی پارٹ پلے کیا تھا۔

فلم کے ایک سین میں ، جب 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ کے پلٹن گرائونڈ میں جنرل نیازی، جو کہ پاکستان کی فوج کے ایسٹرن کمانڈ کا فوجی سربراہ تھا، اور بغیر جنگ لڑے بھارتی فوج کے جنرلوں کے آگے بڑی شرمندگی اور ندامت سے ہتھیار ڈال رہا تھا، اور پھر بھارتی فوج کا ایک کمانڈر ، پاکستانی فوجیوں کو حکم دے رہا تھا کہ ہتھیار پھینک، پیچھے ہٹ۔

اور پھر ہتھیار پھینک کر چار قدم پیچھے ہٹنے والے جنگی قیدی، پاکستانی فوجیوں کو بالکل اس ہی طرح دھکّے دے کر فوجی ٹرکوں کی جانب لے جایا جا رہا تھا جیسے تُو منتخب عوامی نمائندے کو دھکّے دیتا ہوا لے جارہا تھا۔ تو ڈھاکہ کے پلٹن گراونڈ میں موجود بنگالی فلم بینوں نے اس منظر کو دیکھ کر خوشی سے تالیاں بھی بجائی تھیں اور سیٹیاں بھی ماری تھیں، فلم بہت ہِٹ ہوئی تھی۔ میڈیا اس وقت بھی اس واقعے کی فلم بنا رہا تھا، میڈیا نے تیرے واقعے کی فلم بھی بنائی ہے ، اور میڈیا آنے والے وقت کی فلم بھی بنائے گا۔

مگر ٹھاکر تیری سمجھ میں پھر بھی نہیں آئے گا۔ کیونکہ تو رعونت میں مبتلا ہے ٹھا کُر، تجھے فوجی طاقت اور اختیار کا گھمنڈ ہے۔ تجھے عوامی محرومیوں، احساسات اور جذبات کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ تیرے جسم پر وردی اور تیرے ہاتھ میں ہتھیار ہے ، اور تیرے سامنے جو مجبور و محقہور جوان کھڑا ہے، تو اس کو حق مانگنے کے جرم میں غدّار قرار دے کر گولی مار دیتا ہے، اپنے عقوبت خانوں میں انسانیت سوز تشدّد کرتا ہے، لاشیں مسخ کرکے ویرانوں میں پھینک دیتا ہے۔ کیونکہ تو ریاست ہے۔ تجھے ظلم کرنے اور قیامت ڈھانے کا آئینی و قانونی اختیار حاصل ہے۔

ٹھاکر تجھے صرف یاد دلانے کے لئے بتا رہا ہوں کہ جب دسمبر 1970 کے عام انتخابات میں پورے پاکستان سے قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے مشرقی پاکستان سے بنگالیوں کی نمائندہ جماعت عوامی لیگ 160 نشستیں لے کر کلین سوئِپ کرکے سادہ اکثریت سے انتخابات جیتی تھی ، اس عوامی مینڈیٹ کو بالکل اس ہی طرح ، مسترد کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کیا گیا تھا، جس طرح آج کراچی میں کیا جارہا ہے۔

بنگالیوں کی نمائندہ جماعت عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرّحمان کو بھی بالکل اس ہی طرح نشانِ عبرت اور غدّار قرار دیا گیا تھا، جس طرح آج آج الطاف حسین کو قرار دیا گیا ہے۔ مجیب الرّحمان بھی ڈھاکہ سے باہر مغربی پاکستان میں مقیّد تھا، اور آج الطاف حسین بھی کراچی سے باہر لندن میں جلا وطن ہے۔ مگر ٹھاکُر یاد رکھنا کہ پاکستان پھر بھی ٹوٹ گیا تھا ۔

اگر ٹھاکُر تمہارے یہی لیل و نہار رہے تو یہ پاکستان ایک بار پھر ٹُوٹے گا، صرف کراچی ہی نہیں، بلکہ بلوچستان بھی جائے گااور ٹھاکر اس المیے کے ذمّہ دار صرف اور صرف تم ہوگے، کیونکہ ہر بار تم ہی تو اپنے عوام پر ستم ڈھاتے ہو۔ ذرا اپنے گریبان میں منھ ڈال کر دیکھو ٹھاکُر ، تمہارے ہاتھ اپنے ہی ملک کی عوام کے خون سے سرخ ہیں۔ مہاجروں اور بلوچوں کے خون سے پوری دھرتی سرخ ہے۔

میں ایک قلم کار ہوں، تمہیں ، روک نہیں سکتا، مگر آئینہ دکھائے دیتا ہوں، میرے دوست حبیب جالب نے تمہارے لئے ہی تو کہا تھا کہ

محبت گولیوں سے بو رہے ہو

وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے

یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

9 Comments