فوجی ایسٹیشلمنٹ کو ایک اور دھچکا، سید وسیم اختر مئیر کراچی منتخب

0,,19419714_303,00

پاکستان کی فوجی ایسٹیبلشمنٹ کے تمام تر منفی ہتھکنڈوں کے باوجودایم کیو ایم نے تیسری مرتبہ کراچی کے میئر کا انتخاب سادہ اکثریت سے جیت لیا ہےاور سید وسیم اختر کو کراچی کا میئر منتخب کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ پچھلے سال پہلے ایم کیو ایم نےتما م تر میڈیا ٹرائل کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کو ضمنی انتخابات میں شکست دی تھی اور پھر دسمبر 2015میں بلدیاتی انتخابات بھی جیت لیے تھے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوکل باڈیز کے الیکشن کے فوراً بعد میئر کا انتخاب ہوجاتا مگر اسے لٹکایا گیا۔

سید وسیم اختر کے میئر منتخب ہونا فوجی ایسٹیبلشمنٹ کے لیے سخت دھچکہ ہے اور ان کی کوشش ہو گی کہ انہیں مئیر شپ اسی وقت دی جائے جب وہ الطاف حسین کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو جائیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ۔

اگر پچھلے ساتھ آٹھ سالوں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایسٹیبلشمنٹ کی ایم کیو ایم کے خلاف تمام مہم جوئیاں ناکام رہی ہیں اور انہیں اپنے ہی تھوکے ہوئے کو چاٹنا پڑتا ہے۔

کل منعقد ہونے والے انتخابات میں کراچی کے بلدیاتی نمائندوں نے سید وسیم اختر کو اپنا میئر منتخب تو کر لیا ہے مگر وسیم اختر دہشتگردوں کو علاج معالجے اور دیگر سہولیات دینے کے الزام میں قید ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کراچی کے مسائل کا حل کیسے ممکن ہوگا؟

کراچی میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کے لیے مجموعی طور پر تین سو آٹھ منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اپنا ووٹ استعمال کرنا تھا۔ ان میں سے ایم کیو ایم کے نمائندوں کی تعداد دو سو چودہ تھی۔ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کی تاریخی عمارت میں پولنگ اسٹیشن قائم کیا گیا اور وسیم اختر کو جیل سے ووٹ کاسٹ کرانے کے لیے لایا گیا۔

ایم کیو ایم کی طرف سے سید وسیم اختر کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے علاوہ دو آزاد امیدوار بھی تھے جبکہ ڈپٹی میئر کے لیے نواز لیگ اور ایک آزاد امیدوار بھی مد مقابل تھا۔ پولنگ کے لیے مقررہ آٹھ گھنٹے کے دورانیے میں دو سو پچانوے بلدیاتی نمائندوں نے ووٹ کاسٹ کیا۔

ان میں سے ایک سو چورانوے ووٹ لے کر وسیم اختر میئر اور ارشد وُہرا ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔ وسیم اختر کے قریب ترین حریف امیدوار کو 94 ووٹ ملے۔

وسیم اختر نے کامیابی کا اعلان ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں ایم کیو ایم نہیں کراچی کا میئر ہوں۔ انہوں نے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کرعوام کی بلا تفریق خدمت کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے کراچی کا مینڈیٹ تسلیم کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ وسیم اختر نے توقع کا اظہار کیا کہ اگر وزیر اعلٰی بلدیاتی حکومتوں کو اختیار دیں گے تو کراچی، سندھ اور پاکستان ترقی کرے گا۔

ڈی جی رینجرز کو نام لے کر مخاطب کرتے ہوئے وسیم اختر نے کہا، ’’میرے ساتھ صرف ایم کیو ایم کے نہیں، ہر جماعت کے بلدیاتی نمائندے ہیں۔ ہمیں کراچی کی عوام نے منتخب کیا ہے۔ ہم مسئلہ نہیں مسئلے کا حل ہیں۔ ہمارا جینا مرنا یہیں ہے۔ مجھے ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کی رہنمائی چاہیے تاکہ ہم شہر کے بدخواہوں کا قلع قمع کرسکیں۔‘‘

اس سے قبل وسیم اختر کے وکیل محفوظ یار خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وسیم اختر جیل میں میئر کا دفتر کھولیں گے اور وہیں سے ویڈیو لنک کے ذریعے کونسل کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں ایسی سہولیات نہیں ہیں کہ میئر جیل سے اپنا دفتر چلائے۔ البتہ اگر پیپلز پارٹی کی متعارف کرائی گئی مفاہمت کی پالیسی جاری رہی تو وزیر اعلٰی سندھ وسیم اختر کو پے رول پر رہا کرسکتے ہیں۔ تاہم ان خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ وسیم اختر چونکہ منتخب ہونے سے پہلے ہی اختیارات کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں، ایسی صورت میں پیپلز پارٹی کے لیے ان کو رہا کرنے کا فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔

تجزیہ کار کے آر فاروقی کے مطابق، ’’سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے کے بعد جو تصویر واضح ہوئی ہے وہ 2013ء کے عام انتخابات جیسی ہے۔ شہری علاقوں میں ایم کیو ایم اور دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کی ہے۔ پیپلز پارٹی منحرف رہنما ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ضلع بدین سمیت دیگر اضلاع میں بھی کامیاب رہی ہے لیکن اب دونوں جماعتوں کا اصل امتحان شروع ہوگا کہ وہ کس طرح تباہ حال کراچی اور سندھ کے غریب عوام کی زندگیوں کو بہتر بناتے ہیں‘‘۔

DW/News Desk

One Comment