بخت آزمائی میرے قبیلے کی رسم ہے

فاروقی

انیس فاروقی۔ ٹورنٹو

شمالی امریکہ کی یہ بستی ٹورونٹو جہاں ڈھائی تین لاکھ کے قریب پاکستانی بھی رہتے ہیں اب ا س کی آبادی نوے لاکھ ہو چکی ہے ۔۔۔ مسائل کا انبار ہے اور مئیر جان ٹوری اپنی سی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ ۔۔ 

سوچیئے کہ اگر میئر جان ٹوری عوامی ووٹ اور مقبولیت لے کر بلدیہ کے ایوان کے لئے منتخب کئے جائیں اور انہیں صرف اور صرف سیاسی مخالفت کی بنیاد پر نشانہ بنا کر جیل میں ڈالا جائے جس میں ایک جرم یہ ہو کہ انہوں نے اپنے پارٹی لیڈر کی تقریر پر تالیاں بجائیں یا اس میں شرکت فرمائی یا اس کے لئے شہر کے کسی پارک میں شامیانہ لگوایا ۔۔۔ 

اور پھر ستم ظریفی یہ ہو کہ اس دن جان ٹوری شہر میں نہ موجود ہوں تو پھر کیا کہہ سکتے ہیں ۔۔۔ ویسے یہ مفروضہ ایک ایسا خیال ہے جس کا دنیا کے اس مہذب جمہوری معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔ 

ایسا کچھ تو پاکستان کے ارباب ریاست نے کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے اور عوام سے قوت گویائی ہی چھین لی ہے ۔۔۔ 

جس کو دیکھو وہی ہے چپ چپ سا ۔۔

جیسے ہر شخص امتحان میں ہے ۔۔

ویسے بھی نوے لاکھ آبادی بہت ہوتی ہے اور اس کے اپنے مسائل ہوتے ہیں ۔۔۔ صاحب یہ نوے یعنی نائن زیرو کا لفظ بھی بڑا کرشماتی اور تاریخ ساز لفظ ہے ۔۔۔سنہ 1998 میں کراچی کی آبادی بھی نوے لاکھ کے قریب تھی ۔۔۔مسائل اور ان کے حل کی جنگ اس وقت بھی تھی ۔۔۔نوے کی دہائی میں سیاسی اختلافات ہوا کرتے تھے مخالفت نہیں ۔۔ 

آج کراچی میں ایک مونچھوں والے ٹھاکر کا شہرہ ہے ۔۔۔ جو کسی بھی عوامی منتخب ، قانون ساز ادارے کے رکن قومی اسمبلی کو ”اوئے ڈرامے بازی نہ کر “ والی تڑی لگا کر آئین اور جمہوریت کی عصمت کو تار تار کر سکتا ہے ۔۔۔ 

لیکن پھر نجانے کیوں مجھے وہ سر جھکائے نوے ہزار ٹھاکر بھی یاد آجاتے ہیں جنہوں نے انڈین جرنیلوں کے آگے ہتھیار ڈالے اور ہمارے سر شرم سے ہمیشہ کے لئے جھکا دیئے تھے ۔۔

نوے لاکھ والا 1998 کا کراچی اب غیر سرکاری شماریات کے مطابق تین کروڑ پر مشتمل آبادی والا شہر بن چکا ہے ۔۔۔اس شہر میں ہر ماہ پینتالیس ہزار افراد معاش کی تلاش میں آتے ہیں اور اس کی آبادی میں اضافہ فرماتے ہیں ۔۔۔ڈھاکہ اور ممبئی کے بعد سب سے زیادہ گنجان آبادی کراچی کی بن چکی ہے ۔ ۔۔ 

بلدیاتی نظامِ حکومت نے شہریوں کو ریلیف دیا لیکن وہ بھی جمہوری حکومتوں کے غیر جمہوری رویوں نے پنپنے نہ دیا ۔۔۔تاریخ گواہ ہے کہ رویے دائمی ہوتے ہیں اور صدیوں کے لئے اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔۔۔ کوشش کریں کہ اچھا اثر ہو ۔۔

نوے لاکھ سے تین کروڑ کا سفر ۔۔ سیاسی مخالفتوں کی نذر ہو گیا ۔۔۔ دنیا کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا ملک بھی لے لیں اور بڑے سے بڑا۔۔۔ یا بُرے سے بُرا ۔۔۔ بنانا ریپبلک ملک ۔۔۔ آمریت ۔۔۔ رائل فیملی ، امریکہ برطانیہ۔۔۔ کہیں بھی ایسا نہیں ہوا جیسا کہ پاکستان نے ریکارڈ بنادیئے ۔۔۔ 

یعنی چھوٹی چھوٹی ایف آئی آر کٹوا کر شہر کے مئیر کو ہی اندر کر دیا ۔۔۔ اس وقت ساری دنیا میں پاکستان نے اپنا مذاق بنا کر رکھا ہوا ہے ۔۔ملک کے ایک بڑے حصہ کے ساتھ سر دمہری کا رویہ ۔۔۔یاد رہے کہ لہجے برف ہو جائیں ۔۔ تو پھر پگھلا نہیں کرتے ۔۔۔پرندے ڈر کے اُڑ جائیں ۔۔تو پھر لوٹا نہیں کرتے ۔۔

ذہنی و اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ حال ہے کہ اربابِ اختیار کو یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ کراچی حیدر آباد میں پورے پاکستان کا شہری رہتا ہے ۔۔۔ صرف ایک اردو بولنے والا مہاجر نہیں ۔۔۔ اور ان مہاجروں میں بھی اپنے اپنے سیاسی و نظریاتی گروپس ہیں ۔ ۔ یہ کس جرم میں اپنے وطن کے باسیوں کو یوں بے یار و مدد گار چھوڑ کر ان پر ظلم در ظلم کا سلسلہ مسلط کیا ہوا ہے ۔۔۔ 

جسے دیکھو ہر کوئی یہی بات دہرا رہا ہے کہ ہم نے بنگلہ دیش سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔۔۔ آخر اس دکھ بھرے استعارے اور اشاوروں کنائیوں کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ۔۔۔ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے یہ ہمیں کہاں لا کھڑا کیا ہے ؟ بعض اوقات تو کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ۔۔۔ غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے ۔۔ اہلِ رینجرز نے بہت سوچ کے الجھائی ہے ۔۔

اب تو یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ”امن “ کے نام پر رینجرز کو استعمال کرکے سیاسی مخالفین کو تنگ کیا جا رہا ہے ۔۔۔ جب چاہو جسے اٹھا لو اور جب چاہو اسے خیابان سحر کے ارائیول لاونج میں ظہور پذیر کروالو۔۔۔ زیادہ مزاحمت کرنے والوں کی تشدد زدہ لاشیں ان کے گھر والوں کے حوالے کر دو ۔۔ دو تین دن رو پیٹ کر خود ہی خاموش ہو جائیں گے ۔۔۔ 

صرف اس لئے کہ یہ اچھے لوگ ہیں ۔۔کہتے ہیں نا کہ اچھے لوگوں کو ٹھوکرمارو گے تو وہ ٹوٹیں گے نہیں لیکن پھسل کر تمہاری زندگی اور پہنچ سے دور چلے جائیں گے ۔۔ کہیں یہاں بھی ایسا بھی نہ ہو ۔۔۔تمہیں آسائشِ منزل مبارک ۔۔۔ہمیں گردِ مسافت ہی بہت ہے ۔۔

رونے والے کو رونے دو ۔۔ مرنے والے کو مرنے دو ۔۔۔ کوئی آواز نہیں اٹھے گی کوئی انقلاب نہیں آئے گا ۔۔۔ بس حکومتوں کی باریاں چلتی رہیں گی ۔۔۔ایسا سوچنا ہے اُن کا ۔۔۔ جنہیں نہیں معلوم کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی بھی نظریہ جبر و تشدد سے نہیں بلکہ ڈائیلاگ اور مذاکرات سے حل کیا جاتا ہے ۔۔ہم کب تک حقائق سے نظریں چراتے رہیں گے اور نوشتہ  دیوار مٹانے کی سعی میں مصروف رہیں گے ۔۔۔ 

اب ہماری بات سے بہت سے ناراض ہوتے ہیں تو ہوا کریں ۔۔بخت آزمائی میرے قبیلے کی رسم ہے ۔۔ 

دیوار پہ جو لکھا ۔وہی دار پہ لکھا ۔۔

One Comment