دہلی :بیماریوں کا دھاوا، بیڈ گورننس کا نتیجہ

Zafar-Agha1

بھارتی پریس سے :ظفر آغا

میر تقی میرؔ نے اب سے کوئی ڈھائی سو برس قبل دہلی کی شان و شوکت اور اس کی نفاست و خوبصورتی کے بارے میں ایک شعر لکھا تھا جو یوںتھا:۔

دلّی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے
جو شکل نظر آئی، تصویر نظرآئی

یعنی میرؔ صاحب کے دور کا دہلی کسی ایک مصور کی خوبصورت پینٹنگ کی مانند تھا اور یہاں کے رہنے والے مانند تصویر خوبصورت، صحت مند

اور چاق و چوبند نظر آتے تھے لیکن اس تقریباً دو ڈھائی سو برس کے درمیان دہلی کا یہ حال ہے کہ یہاں سڑکوں پر کوڑے کے جابجا ڈھیر ہیں۔ سڑکوں پر بھیڑ کا یہ حال ہے کہ جس کو دیکھو حیران و پریشان کہیں پہونچنے کی جلدی میں نظر آتا ہے، اور ٹریفک ’ جام ‘ ہے کہ اسے وقت پر پہونچنے نہیں دیتا ہے۔ یہ پریشانی تو دہلی والوں کو ہی کیا سارے ہندوستان کو پچھلی دو دہائیوں سے لاحق تھی، لیکن پچھلے دو برسوں سے برسات ختم ہوتے ہوئے یعنی ستمبر کے شروع سے تقریباً نومبر ختم ہوتے ہوتے دہلی والوںکو یہ گارنٹی نہیں کہ آیا وہ زندہ بھی بچیں گے یا نہیں اور اگر زندہ بچ گئے تو ان کی صحت کی کیا گت بنے گی کوئی یہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔

جی ہاں ! آپ خبروں میں پڑھ اور سن رہے ہوں گے کہ ہندوستان کی شان اور ملک کا دارالخلافہ دہلی ان دنوں ڈینگو اور چکون گنیا جیسی مہلک بیماریوں سے حیران و پریشان ہے، جس کو دیکھو بیمار پڑا ہے۔ گھر میں دیکھو تو کوئی وائرل کامرا ہے تو کوئی چکون گنیا سے ڈھیر ہے۔ دفتر پہونچو اور پوچھو کہ فلاں صاحب نظر نہیں آرہے ہیں تو اطلاع ملتی ہے کہ حضرت اسپتال میں داخل ہوچکے ہیں۔

اسپتالوں کا یہ حال ہے کہ کہیں پیر رکھنے کی جگہ نہیں ہے کیونکہ واقعی اسپتالوں میں زمین پر گدے پڑے ہیں اور مریض لیٹے ہوئے ہیں۔ میں ابھی چند روز قبل کا واقعہ بیان کروں تو آپ حیرت میں پڑ جائیں گے۔ کسی کی عیادت کو میں دہلی کے مشہور آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائینسیس پہنچا تو ایک عجیب منظر دیکھا، دیکھتا کیا ہوں کہ وہاں ایمرجنسی وارڈ کے باہر آسمان کے نیچے کھلے میں کم از کم پندرہ ، بیس مریض لیٹے ہیں جہاں ان کا علاج جاری ہے۔ وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ وارڈ میں تِل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہے۔

یہ ہے اکیسویں صدی کے ہندوستان کا دہلی جہاں کے کوچے ’ اوراق مصور ‘ تو کجا کوڑوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں اور لوگوں کی شکلیں ’ تصویر‘ تو کجا عجیب و غریب چہروں میں بدل چکی ہیں۔ جناب، یہ ہے ہماری ترقی اور اس کا اصل چہرا۔ یہ حال ہے ہندوستان کے دا رلحکومت کا جہاں ایک نہیں بیک وقت تین سرکاریں موجود ہیں۔

دہلی مسکن ہے ملک کی مرکزی حکومت کا کہ جہاں صدر مملکت سے لے کر وزیر اعظم و مرکزی کابینہ تک ہر وزیر یہاں موجود ہے۔ پھر دہلی ایک یونین ٹریٹری ہے کہ جہاں لیفٹننٹ گورنر اور جمہوری حکومت کو ملاکر ایک علاقائی حکومت کارگر ہے، پھر ہر شہر کی طرح دہلی کی اپنی میونسپل کارپوریشن بھی ہے جوبیک وقت دہلی کی نگرانی کررہی ہیں اور پھر بھی دہلی والوں کو یہ پتہ نہیں کہ کل کسی مچھر نے انہیں کاٹ لیا تو وہ آیا زندہ بچیں گے بھی یا نہیں بچیں گے۔

آخر دہلی کی یہ در گت کیوں ہے! ایک تو ہم ہندوستانی گندگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتے ہیں تو پھر کوئی کرے تو کیا کرے۔ لیکن اس وقت دہلی والوں کی غلطی نہیں ہے۔ دہلی والے تو خمیازہ بھگت رہے ہیں سیاستدانوں کی رسہ کشی کا۔ بات یہ ہے کہ دہلی کی تین حکومتوں میں سے ہر سطح پر الگ الگ پارٹی کا قبضہ ہے۔

آپ واقف ہیں کہ مرکزی حکومت کی عنان بھارتیہ جنتا پارٹی ہے جو ’ سوچھ بھارت ‘ کا ڈنکا بجارہی ہے۔ لیفٹننٹ گورنر جن کی زیر نگرانی دہلی حکومت چلتی ہے وہ بھی بی جے پی کے مہرے ہیں۔ دہلی حکومت کی عنان عام آدمی پارٹی کے اروند کجریوال کے پاس ہے جن کی وزیر اعظم سے بنتی نہیں ہے، اور میونسپل کارپوریشن ( جو شہر کی صفائی ستھرائی دیکھتی ہے) پر بھی بی جے پی کا قبضہ ہے۔

اب ہر سطح پر الگ پارٹی قابض ہے اور دہلی کی سیاست یہ ہے کہ کون کس کو کس قدر نااہل اور نکما ثابت کردے کہ اگلی بار اس کی پارٹی برسراقتدار آجائے۔ یعنی کجریوال چاہتے ہیں کہ ’سوچھ بھارت ‘ ابھیان دہلی میں ناکام ہوجائے تو بی جے پی کی دلچسپی یہ ہے کہ کسی طرح کجریوال سے ووٹر ناراض ہوجائیں تو بی جے پی کی میونسپل کارپوریشن والے صفائی عملے کو ڈھنگ سے تنخواہ تک نہیں دے رہے ہیں۔

چنانچہ دہلی میں چہارسو گندگی کا دوردورہ ہے۔ اب اس صورتحال میں شہر میں طرح طرح کی بیماریوں کی وباء نہیں پھیلے گی تو اور کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں دہلی والے کبھی ڈینگو تو کبھی چکون گنیا تو کبھی وائرل فیور کے شکار ہورہے ہیں اور اسپتالوں کو دوڑ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں لوگوں کی زندگی سے کھیل کر اپنی اپنی دکان چمکانے کی دوڑ میں ہیں اور ادھر دہلی والوں کی جان پر بنی ہے۔

یہ ہے جناب ،اکیسویں صدی کی سیاست کا اصل چہرہ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو انسانوں سے نہ کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی کوئی ہمدردی ۔ انہیں تو بس کسی طرح کوئی اسسٹنٹ کرکے ووٹر کو بیوقوف بناکر ووٹ حاصل کرکے اقتدار پر قبضہ جمانا ہے چاہے اس کھیل میں لوگوں کی جان جائے ، شہروں میں بیماریوں سے لوگ مریں تو مریں نفرت پھیلا کر اور دنگے کرواکر دو گروہوں میں منافرت پھیلاکر یا کسی بھی طرح ووٹ حاصل ہوں، بس ووٹ ملیں اور اقتدار پر قبضہ ہوجائے۔

دہلی میں جنم لینے والی عام آدمی پارٹی جس کی کنیت ’عاپ ‘ہوگئی ہے لوگوں کو اس سے بڑی امیدیں ہوگئی تھیں۔ کجریوال نے اقتدار میں آنے سے قبل اُصولوں کی کافی ڈفلی بجائی تھی لیکن اب دہلی میں لوگ بیماریوں سے مررہے ہیں اور کجریوال پنجاب کا دورہ کررہے ہیں تاکہ وہاں بھی اقتدار پر ان کی پارٹی کسی طرح قابض ہوجائے۔

بات اتنی ہے کہ اس اکیسویں صدی کی سیاست کا محض ایک نسخہ ہے اور وہ یہ کہ لوگ جہنم میں جائیں بس کسی طرح ہمیں اقتدار حاصل ہو۔ ان حالات میں شہر کے کوچے ’ اوراق مصور ‘ تو کیا کوڑے کے ڈھیر ہی نظر آئیں گے اور انسانوں کی شکلیں ’ تصویر ‘ کے بجائے بہ شکل حیوانوں جیسی نظر آئے گی۔ تب ہی تو ایک دہلی ہی کیا اب سارے ہندوستان میں ان دنوں بیماریوں کے خوف کے ساتھ موت کا خوف ہر شہری کو اپنے سروں پر منڈلاتا نظر آرہا ہے کیونکہ سیاستدانوں کو فلاح انسان سے نہیں محض اقتدار سے لگاؤ ہے۔

روزنامہ سیاست، حیدرآباد۔ انڈیا

Comments are closed.