برطانوی عوام کی اکثریت برقعے پر پابندی کے حق میں

 

0,,19513079_401,00

یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتے ہوئے انتہا پسندانہ رویوں کے خلاف دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ رہنا تو یورپ میں چاہتے ہیں مگر چودہ سو سال پرانے عرب رسوم و رواج اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔ یورپی معاشروں میں ضم ہونے کی بجائے اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔

مسلمان کمیونٹی جمہوریت کے فوائد سے تو مستفید ہوتی ہے مگر اس سے نفرت بھی کرتی ہے۔سیکولرازم کے مزے لیتی ہے مگر دوسرے ہی سانس میں اسلام کی بالادستی بھی چاہتی ہے۔ انسانی حقوق کی آڑ میں اپنے لیے رعایتیں لیتی ہے مگر اپنی خواتین کو کوئی حق دینے کو تیار نہیں ۔ انہی دوغلے رویوں کی وجہ سےیورپین عوام میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے۔اور یورپین حکومتیں مسلمانوں کے خلاف سخت قوانین بنانے کی طرف جارہی ہے۔

فرانس میں تو برقعے پر پابندی عائد ہو ہی چکی ہے اب برطانیہ میں بھی برقعے پر پابندی کے مطالبے شروع ہو گئے ہیں۔برطانیہ میں کرائے گئے ایک تازہ عوامی جائزے کے مطابق برطانوی عوام کی اکثریت ملک میں برقعے پر مکمل پابندی چاہتی ہے۔ برُقینی پر پابندی کو بھی عوامی مقبولیت حاصل ہے۔

جمعرات کو شائع ہونے والے اس عوامی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں جتنے عوام برقعے کا حق میں ہیں، اس سے دگنی تعداد میں اس کے مخالف ہیں، جب کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ملک میں مسلم خواتین کے زیراستعمال تیراکی کے مخصوص لباس برقینی پر بھی پابندی کی خواہاں ہے۔

یو گوو نامی عوامی جائزے میں 16 سو 68 برطانوی شہریوں سے رائے طلب کی گئی، جس میں سے 57 فیصد نے برطانیہ میں برقعے پر پابندی کے لیے قانون سازی، 36 فیصد نے پابندی نے مکمل پابندی جب کہ صرف دس فیصد نے ایسی کسی پابندی کے خلاف رائے دی۔

یہ عوامی جائزہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب کہ بحیرہء روم کے کنارے آباد فرانسیسی شہروں میں بُرقینی پر پابندی عائد کیے جانے اور عدالت کی جانب سے یہ پابندی کالعدم قرار دیے جانے کے تناظر میں ایک بحث جاری ہے۔ فرانس میں پہلے ہی برقعے پر پابندی عائد ہے۔

جنوب مشرقی فرانس میں برقینی پر مقامی انتظامیہ کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندی پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ نے رجوع کیا تھا۔ بعد میں عدالت نے اس پابندی کے خاتمے کا حکم دیا۔

اس عوامی جائزے کے مطابق 46 فیصد برطانوی شہریوں نے برقینی پر بھی پابندی کے حق میں اپنی رائے دی جب کہ برقینی پر ایسی کسی پابندی کے خلاف صرف 30 فیصد افراد تھے۔ اس کے علاوہ 18 فیصد برطانوی شہریوں نے اس بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھی۔

اس عوامی جائزے کے مطابق مسلم خواتین کا اپنے تمام جسم بشمول چہرے کو چھپانے کے لیے استعمال کیے جانے والے لباس کی مخالف تمام جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے کی گئی، تاہم قدامت پسند جماعت اور یو کے انڈیپینڈنٹ پارٹی کے حامیوں نے اس بابت سخت ترین موقف کا اظہار کیا۔

اس عوامی جائزے کے مطابق برقعے پر پابندی کے معاملے میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی رائے تقریباً ایک سی تھی۔ لندن کے رہائشیوں کی 51 فیصد تعداد جب کہ شمالی برطانیہ کے شہریوں کی 63 فیصد تعداد برقعے پر پابندی کے حق میں اپنی رائے رکھتی ہے۔

اس سے قبل اسی طرز کا ایک عوامی جائزہ جرمنی میں بھی کرایا گیا تھا، جس کے مطابق 62 فیصد جرمن باشندے ملک میں برقعے پر مکمل پابندی چاہتے ہیں جب کہ امریکا میں 59 فیصد عوام کی رائے تھی کہ اس معاملے کو لوگوں پر چھوڑ دیا جانا چاہیے کہ انہیں کیا پہننا ہے۔

DW/News Desk

Comments are closed.