جبری گمشدگی کا مسئلہ پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ 

aimal-250x300

ایمل خٹک 

پاکستان میں جبری گمشدگی ایک سنگین مسلہ بنتا جارہا ہے۔  سیکورٹی اداروں کے دباؤ اور ممکنہ انتقامی کاروائیوں کی وجہ سے ملک کے اندر اس پر بہت کم بات کی جاتی ہے اور  میڈیا میں اس کی کوریج بھی  نہ ہونے کے برابر ہے ۔  اس مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے اس کو اندرون اور بیرون ملک انسانی حقوق فورموں میں کافی شدت سے اٹھایا جا رہا ہے۔

انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں میں اب اس مسئلے کو جگہ دی جانے لگی ہے اور انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری لانے کیلئے حکومت پاکستان پر اندرونی اور بیرونی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے بیرون ملک مقیم سیاسی اور سماجی کارکنوں خاص کر بلوچ کارکنوں نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین وغیرہ کے متعلقہ فورمز میں انسانی حقوق کی پامالی کا مسلہ اٹھانا شروع کردیا ہے جس کو آہستہ آہستہ پزیرائی مل رہی ہے۔

اس سلسلے میں جبری گمشدہ افراد کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ کی پاکستان کے حوالے سے ایک اہم فالو اپ رپورٹ حال ہی میں سامنے آئی ہے جو کہ پچھلے دنوں یو این او کی ہیومن رائٹس کونسل میں پیش کی گئ ہے۔ جبری گمشدہ افراد کے بارے میں اس فالو اپ رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے بڑی گھمبیر اور تشویشناک صورتحال سامنے آئی ہے۔ جس کا اعلی سطح پر فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ 

رپورٹ میں نہ صرف پاکستان میں جبری گمشدہ افراد کی تحفظ اور حقوق کیلئے ضروری قانونی فریم ورک کی غیر موجودگی بلکہ ان  افراد کے لواحقین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو درپیش خطرات اور مشکلات کا بھی ذکرکیا گیا ہے۔رپورٹ میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کا موجودہ آئینی ، لیگل اور ریگولیٹری فریم ورک متاثرین کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ناکافی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ملکی قوانین میں خاص کر حفظ ماتقدم کے طور پر نظربندی اور وارنٹ کے بغیر گرفتاری سے متعلق شقوں میں ترامیم کی جائے ۔

گمشدہ افراد کے مقدمات کی پیروی یا حق میں آواز اٹھانے والے لواحقین ، وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکن مختلف مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں ۔ حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ ان کے خلاف انتقامی کاروائی ، انہیں ہراساں کرنے اور دھمکیاں دینے کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شکایات کے ازالے کیلئے بھرپور اقدامات کیے جائیں۔ 

   رپورٹ میں وسیع پیمانے پر جبری گمشدگی کے واقعات اور بڑی تعداد میں موصول ہونے والی رپورٹوں خاص کر سندھ پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔  رپورٹ میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ پاکستان کو سنگین سیکورٹی چیلنجز درپیش ہیں مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بنیادی انسانی حقوق کے کو یقینی بنانے اور اس کے پاسداری اور احترام  پر بھی زور دیا گیا ہے ۔  

رپورٹ میں حکومت سے لاپتہ افراد کے حقوق اور تحفظ کے بین الاقوامی معاہدے کنوینشن فاردی پروٹیکشن آف آل پرسنز اگنسٹ انفورسڈ ڈس اپیرنس کی توثیق اور کمیٹی برائے جبری گمشدگی کے انفرادی یا بین الریاستی شکایات سننے کے اختیار کو تسلیم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔  اس طرح ورکنگ گروپ نے روم دستاویز برائے انٹرنیشنل کریمنل کورٹس  کی توثیق کے حوالے سے سفارشات پر عملدرآمد کا مطالبہ بھی کیا۔ 

اس مسئلے کی اہمیت اور سنگینی کے پیش نظر سال2011 سے تیس اگست کو عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 

اس سال بھی پاکستان میں جبری گمشدگی کا عالمی دن منایا گیا اور مختلف ھیومن رائٹس اور جبری گمشدہ افراد کی بازیابی اور حقوق کیلئے سرگرم تنظیموں نے مختلف پرو گراموں کا انعقاد کیا۔ اور عالمی دن کی مناسبت سے جبری گمشدہ افراد اور ان کے قریبی رشتہ داروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو درپیش مشکلات اور مسائل کا ذکر کیا۔ 

پاکستان میں عموماً چار قسم کے افراد لاپتہ ہیں ۔ ایک تو بلوچ سیاسی کارکن جن پر مسلح مزاحمتی تحریک میں حصہ لینے یا حمایت کا الزام ہے۔ دوسرا  کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد جن پر ان تنظیموں سے تعلق یا حمایت کا شبہ ہے اور یا دہشت گردی کے الزام میں پکڑے گئے ۔ قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختونخوا سے اکثر گمشدہ افراد  کا تعلق اس کیٹگری سے ہے۔ تیسرا متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے افراد جن پر دہشت گرد کاروائیوں میں شرکت یا معاونت کا خدشہ ہے۔

 چوتھا کچھ انسانی حقوق کے کارکن بھی گرفتار اور لاپتہ ہوچکے ہیں۔ آجکل ممتاز سماجی کارکن اور پبلشر عبدالواحد بلوچ کی گمشدگی ایک معمہ بنی ہوئی ہے اور ان کی بازیابی کے حوالے سے مختلف احتجاجی پروگرام ہو رئے ہیں۔ واحد بلوچ کو  گزشتہ دنوں ( 26 جولائی) کو سندھ کی ایک مصروف شاہراہ کے ٹول پلازہ سے گرفتار کیاگیا ہے اور تاحال لاپتہ ہیں۔  

ابتدا میں یہ مسئلہ فاٹا ، خیبر پختونخوا اور ملک کے دوسرے حصوں میں مشتبہ دھشت گردوں کی گمشدگی سے شروع ہوا اور ان کے رشتہ داروں اور انسانی حقوق کارکنوں نے ان کیلئے آواز اٹھائی مگر اب مشتبہ دھشت گردوں کی بجائے سیاسی اور انسانی حقوق کارکنوں کی جبری گمشدگی کا مسئلہ زیادہ شدت سے ابھر کر سامنے آیا۔ 

بلوچ سیاسی کارکنوں یا سرمچاریوں ، سندھی قوم پرستوں اور متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کی گمشدگی کی رپورٹیں عام ہے۔ قابل تشویش اور افسوسناک بات یہ کہ گمشدہ افراد کی تعداد اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں کمی کی بجائے روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔  وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز اور دیگر تنظیموں نے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کیلئے احتجاجی اور بھوک ھڑتالی کیمپ لگائے، پریس کانفرنسز اور حتی کہ لانگ مارچ تک کیے۔  

گمشدہ افراد کے سلسلے میں اہم ایشوز ان کی غیر قانونی حراست، لواحقین سے ملنے نہ دینا ، مسلمہ عدالتی کاروائی کا نہ ہونا ، صفائی کا موقع نہ ملنا اور اکثر کیسوں میں ماورائے قانون ہلاکتیں ہیں۔ اس طرح ان کے کیس کی پیروی کرنے یا ان کیلئے آواز اٹھانے والوں کو ہراساں کرنا اور حتی کہ گرفتاری اور گمشدگی بھی ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئٹہ سے اسلام آباد لانگ مارچ کے بعد اسلام آباد کے کئی انسانی حقوق کے کارکنوں کو مارچ کے استقبال اور شرکت کرنے پر ایجنسیوں کی جانب سے طرح طرح سے تنگ اور ہراساں کیا گیا۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں مارچ کے کئ شرکاء کو ایجنسیوں کی جانب سے ہراساں کرنے کے واقعات بیان کرتے ہوئے میں نے خودسنے ہیں۔ 

جبری گمشدگی کی سب سے زیادہ شکایات بلوچستان میں ہے۔  ریاستی ظلم اور جبر کے باوجود بلوچستان کے کچھ انسانی حقوق کے کارکن مسلسل اور بڑی ثابت قدمی کے ساتھ جبری گمشدگی کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں۔  ملنے والی مسخ شدہ لاشوں سے یہ اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماورائے عدالت قتل انتہائی بیدردی اور ظالمانہ طریقے سے ہو رہے ہیں۔

 محکمہ داخلہ بلوچستان کے اعداد وشمار کے مطابق 2010 کے بعد ایک ہزار سے زائد مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں اور لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ 2008 سے شروع ہوا ہے۔  جبکہ آزاد ذرائع یہ تعداد دہ ہزار سے زائد بتا رہے ہیں۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں ، ماورائے عدالت قتل اور گرفتاریوں کی بڑی تشویشناک صورتحال ہے ۔عالمی یوم جبری گمشدہ افراد کے موقع پر کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ بیس ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں اور امسال 256 ماورائے عدالت قتل ریکارڈ کیے گئے ہیں جبکہ ایک سال میں 13500 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 

جہاں تک کراچی کا تعلق ہے تو اگست 2015 میں ماورائے عدالت قتل کے 46 اور جبری گمشدگی کے 36 کے کیسز سامنے لائے گے۔ جبکہ اب ان کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ 

خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے کیسوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے ۔ مگر ایک تو وہ سارے کیسز دہشت گردی سے متعلقہ ہیں اس لئے ان کے خاندان سماجی دباؤ کی وجہ سے خاموش رہ جاتے ہیں اور دوسرے ان کے خاندان سنگین نتائج کی دھمکیوں کی وجہ سے مزید اپنے پیاروں کو گمشدہ یا قتل ہونا برداشت نہیں کرسکتے۔ کچھ عرصہ پہلے تک مسخ لاشوں کا ملنا معمول بن چکا تھا۔ اس طرح قانونی طور پر زیرحراست قیدیوں کی ایک بڑی تعداد پرسرار طریقے سے حوالاتوں میں فوت ہوتی رہی ہے۔ 

گزشتہ کچھ عرصے سے بیرون ملک موجود مختلف بلوچ سیاسی کارکن اور راہنما اہم مغربی ممالک میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کر رہے ہیں۔ اور یو این اور یورپی یونین کے مختلف انسانی حقوق کے فورمز پر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔  

یورپی یونین پارلیمنٹ کے نائب صدر رائسزارد زرنیسکی نے جنیوا میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ایک خاموش مظاھرہ میں شرکت کرتے ہوئے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند نہ کی گئیں تو یورپی یونین پاکستان پر سیاسی اور معاشی پابندیاں عائد کرسکتی ہے ۔  اس مظاہرے کا انعقاد بلوچ راہنماوں نے کیا تھا ۔  

اب بھارت نے بھی مختلف بین الاقوامی فورمز پر پاکستان میں انسانی حقوق کے مسئلے کو اٹھانا شروع کیا ہے ۔ مثال کے طور پر یو این ھیومن رائٹس کونسل کی جنیوا میں حالیہ اجلاس میں بھارت نے بلوچستان اور دیگر علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مسئلہ اٹھایا۔  حیرت انگیز طور پر جنیوا میں بلوچ کارکنوں کی ایک احتجاجی مظاہرے میں درجنوں بھارتی سیاحوں نے بھی شرکت کی۔ 

تقسیم سے پہلے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھا گیا اور پاکستان بنانے والے ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے کا عزم لے کر چلے۔  مگر بدقسمتی سے پاکستان فلاحی کی جگہ ایک سیکورٹی اسٹیٹ بن گیا۔ جہاں حق کیلئے آواز اٹھانا ملک دشمنی اور غداری سمجھا جاتا ہے ۔ جہاں آئین کو اپنی بوٹ کے نوک پر رکھنے والے، ملک کو توڑنے اور دولخت کرنے والے آزاد اور اپنی شہری آزادیوں اور حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے پابند سلاسل کئے جاتے ہیں۔  جہاں قانون صرف عام شہریوں کیلئے ہے اور حکمران اشرافیہ اور دیگر مراعات یافتہ طبقے اور افراد قانون سے بالاتر ہیں۔ 

افسوسناک بات یہ ہے کہ نہ صرف سیکورٹی فورسز اور انٹلیجنس ایجنسیوں کو حراست اور گرفتاری کے وسیع اختیارات حاصل ہے۔  بلکہ ان کو قانونی استثنا اور قانونی کاروائی سے تحفظ بھی حاصل ہے۔ جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں  کی حوصلہ شکنی اور روک تھام اور سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے اور انہیں انصاف کے کہٹرے میں لانے کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ ہے۔

انسانی حقوق کی پامالیوں کی صورت میں کسی بھی فرد یا ادارے کو کسی قسم کی استثنا یا تحفظ دینے کی روایت ختم کی جائے۔ بین الاقوامی معاہدات تمام ریاستوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ جبری گمشدہ افراد کے کیسوں کی تحقیقات اور ملوث افراد کے خلاف کاروائی کریں انہیں سزا دیں  اور متاثرہ افراد کی مناسب تلافی اور ازالہ کریں۔

 حکومت جبری گمشدگی کو جرم قرار دیتے ہوئے فی الفور گمشدہ افراد کو بازیاب کرائے اور عدالتوں میں پیش کرے ۔ حکومت جبری گمشدگی کے متاثرین کو قانونی معاونت فراہم کرے اور ان کی شکایات کی آزادانہ تحقیق اور ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔  

پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے غیر رضاکارانہ یا جبری گمشدگی کے خلاف قرارداد پر دستخط تو کیے ہیں مگر ابھی تک اس کی توثیق نہیں کی۔ پاکستان فوری طور پر سری لنکا کی طرح شہریوں کو جبری گمشدگی سے تحفظ دینے والے بین الاقوامی  معاہدے کی توثیق کرے۔ اقوام متحدہ رکن ممالک پر زور دیتا ہے کہ جبری گمشدگی کو جرم قرار دیدیا جائے اور اس حوالے سے سینٹ آف پاکستان کی انسانی حقوق کمیٹی کی 2013 میں تیارکردہ بل کو پارلیمان میں پیش اور پاس کرایا جائے۔ 

Comments are closed.