مسئلہ کشمیر ۔ کشمیریوں کی نظر میں

13767348_10208177711053468_2656519165861739623_o (2) (1)

علی احمد جان

کشمیر ایک ایسا نام  جو ہر پاکستانی کی زبان پر اپنے شہر یا وطن  کے نام سے پہلے  آتا ہے۔ کشمیر جنت نظیر، کشمیر ہماری شہ رگ  ، آزاد کشمیر، کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ وغیرہ وغیرہ۔   خواہ کسی  بڑے شہر کی جامع مسجد ہو یا  کسی گاؤں کی  چھوٹی سی مسجد   کشمیر کی آزادی کے  لئے دعا سے خالی نہیں ہوتی  ۔  خود کشمیر کے اندر لوگ ابھی لفظ کشمیر سے آشنا ہورہے ہیں کیونکہ وہ  تو  اپنے وطن کو کشمیر نہیں بلکہ  کشیر کہتے آۓ  ہیں۔ کشمیر  تو باہر والے  اپنی زبان میں کہتے ہیں۔  شاید لفظ کشیر ان کی زبان پر چڑھتا ہی نہیں جس طرح کشمیر  کا لفظ کشیری زبان  پر نہیں چڑھتا  ۔   کشمیری میں  بات کریں  تو کشیر اور دوسری  کسی زبان میں  گفتگو ہو تو کشمیر ۔ ( ناموں کی یہ دو رخی  گلگت اور گلیت ، پونیال اور پویاں کے ناموں کیساتھ  بھی ہے)۔  

پاکستان میں اگر پوچھو کسی سے کہ  کشمیر کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہو جاتا ہے  تو سی ایس ایس کے امتحان میں نہیں توکم از کم  بی۔اے  میں آدھی کلاس ضرور  فیل ہوگی۔ کشمیر کی لسانی ، جغرافیائی اور مذہبی  گونا گونی تو دور کی بات اگر پاکستان میں کوئی جموں اور کشمیر   کے نام کی وضاحت کردے تو سمجھو  کہ وہ شخص ماہر کشمیریات ہے اور پانچ فروری کو کسی بھی ٹی ۔وی کے شو میں بیٹھ کر آزادی کشمیر پر بھاشن دینے لائق ہے۔

ویسے مسئلہ کشمیر   کو سمجھانے کا میرا بھی کوئی ارادہ نہیں ۔ اگر آپ  ہرسال  کشمیر کے  نام  پر پانچ فروری کو لازمی چھٹی کرکے، ہر روز ٹیلی ویژن پر خبروں میں ادھا وقت اس مسئلے کو سن کر  اور اخبارات میں اسی مسئلے پرادارئیے،  کالم اور خبریں   پڑھنے کے بعد بھی میری طرح  اس مسئلے کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو پھر ہمیں کوئی نہیں سمجھا سکتا کہ مسئلہ کشمیر ہے کیا۔

ہم نے بھی اتنا تو سمجھ لیا ہے کہ  یہ کبھی حل ہونے والا مسئلہ نہیں اس لئے اپنی دوکانوں پر  ادھار کے عادی گاہکوں کو بھگانے کے لئےتختیوںپر  لکھ کر آویزاں    کر دیا ہےمسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک ادھار بند ہے۔

جنرل مشرف کےغیر مارشلائی فوجی حکومت کے  زمانے میں آپ نے بھی کشمیر کے مسئلے پر غیر روایتی تجاویز سنی ہوں گی جو میں

نے بھی سنی تھیں۔ ان میں سے ایک تجویز کشمیر کے پانچ حصوں کے الگ الگ تشخص  اور الگ الگ حل کی تھی ۔ میں نے سماجی سائنس کے طالب علم  کے طور پر  ان پانچوں حصوں کی سوچ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔  اس تحریر کا مقصد کشمیر کے مختلف حصوں میں پاۓ جانے والے رجحانات سے بغیر کسی تجزیے یا تبصرے کے عام لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔

   وادی سری نگرکشمیر کا گرمائی دارالخلافہ ہے  یہ آزادی کشمیر کی تحریک کا بھی مرکز ہے۔ آزادی کشمیر کی تحریک میں مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے کشمیری پنڈت یہاں سے نقل مکانی کر گئے ہیں۔  یہاں صرف کشمیری حکمرانوں کے گھر ہیں بلکہ یہاں تو حریت کے راہنماوں کی بھی قیام گاہیں ہیں ۔  علی گیلانی، میر واعظ  اور  یاسین ملک  سب یہیں پر نظر بندرہتے ہیں اور یہیں پر  ہی کشمیری پکوانوں کی دعوتیں کرتے ہیں۔

یہاں کی گلی محلوں سے پاکستان زندہ باد کے جلوس نکلتے ہیں۔ یہاں کے بچے  اور نو جوان پتھراؤ کرکے سڑکیں بلاک کرتے ہیں، یہاں گولیاں چلتی ہیں،   یہاں چھرے فائر کرکے  لوگوں کوا ندھا کردیا جاتا ہے، یہاں پر عورتوں کے جلوس نکلتے ہیں ، یہیں پر  اقوام متحدہ کے ہندوستان اور پاکستان کے لئے کشمیر کے تنازعہ پر  مشاہدے کے مشن کا  دفتر بھی ہے، یہیں کرفیو لگتا ہے۔ ہم نے  اس شہر  میں پاکستان کہلانے والے محلے کے ایک گھر میں کھانے پر لوگوں سے پوچھا کہ آیا وہ کیا چاہتے ہیں؟

کچھ نوجوان کہنے لگے کہ ہندوستان پاکستان  دونوں سے آزادی ، کچھ نے کہا ہندوستان سے آزادی اور کچھ خاموش ہی رہے۔ ہم نے پوچھا کہ آزادی سے ان کی کیا مراد ہے کیسی آزادی؟   کہنے لگے کہ تجارت کرنے کی آزادی جس طرح 1947 سے پہلے تھی۔  آنے جانے کی آزادی ہو، ملنے ملانے کی آزادی ۔ہم نے پوچھا کہ کیا ان کو معلوم ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے  زیر انتظام کشمیر میں تعلیم، صحت اور سماجی ترقی میں کیا فرق آیا ہے  تو ان کو کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔

جموں جو اس نام کا پہلا حصہ ہے  کشمیر کا سرمائی دارالخلافہ ہے۔جموں  ڈوگروں کے دور میں ۱۹۴۷ تک طاقت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کے مہاراجہ گلاب سنگھ نے ۱1846 میں امرتسر میں جس  کشمیر کی ریاست کی بنیاد رکھی  تھی اور ان ہی کےپڑ  پوتےہری سنگھ نے 1947  میں انڈیا کیساتھ الحاق کرکے اس کے انجام کی داغ بیل ڈالی ۔  زیادہ  ترکشمیری  پنڈت یہاں رہتے ہیں ۔   پنڈتوں کی ایک بڑی تعداد جو وادی میں چلنے والی تحریک کی  وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی وہ بھی یہیں آکر آباد ہوئی ہے۔

شنید ہے کہ یہاں سے  مسلمانوں کی ایک تعداد  ہجرت بھی  کر گئی ہے۔  جب بھی   یہاں کے پنڈت وادی کے شیخ، سید اور خواجے  آپس میں ملتے  ہیں تو  اپنی  اپنی انا کو ہی سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں۔ وادی اور جموں کے درمیان کشمیر کی آزادی پر بات کم ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات کی سیاست زیادہ ہوتی ہے۔ وادی اور جموں میں اختیارات کی جنگ ، سرکاری افسران کی تعیناتی اور تبادلوں کی جنگ، کابینہ میں وزراء اور مشیران کی تعداد کی جنگ  کبھی تھمنے کو نہیں آئی۔

کشمیر کے دونوں اطراف کو لوگوں کی آپس میں بات چیت کے لئے بلائی گئی کوئی کانفرنس کوئی میٹنگ ایسی نہ دیکھی جس میں جموں اور وادی کے درمیان فائر بندی رہی ہو۔ ہم نے پوچھا جموں والوں سے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو کیسے دیکھتے ہیں۔ جواب آیا کہ ان کے بیچ ایک ثالث کی موجودگی لازمی ہے۔

  کشمیری پنڈت جو اپنی ثقافت  میں جنوبی ایشیا کے ہندوؤں سے کافی مختلف ہیں مثلاً ان کے نوروز(نوروش)  کے جشن منانے کی روایت وسطی ایشیا سے آئی ہے ۔  اپنے ہم مذہبوں سے ثقافتی اور تہذیبی دوری اور ہم وطنوں سے مذہبی دوری نے جموں والوں کو ایک اقلیت بنا کر رکھ دیا۔  نہ جاۓ  ماندن نہ پاۓ رفتن ۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جس کو آزاد کشمیر یا آزاد جموں و کشمیر بھی کہا جاتا ہے، آزادی کشمیر کی تحریک کا بیس کیمپ کہلاتا ہے۔مظفر آباد اور شمال کی جانب لوگ  زیادہ تر پہاڑی اور گوجری  بولتے ہیں ۔  وادی کے  لوگ ان کو کشمیری  زبان نہ آنے کی وجہ سے کشمیری سمجھتے ہوں  یا نہیں لیکن یہاں کے لوگ  خود کو کشمیری سمجھتے ہیں ۔

آزاد کشمیر کی حیثیت ایک ریاست کی ہے جس کا ایک وزیر اعظم اور صدر، سپریم کورٹ اور آئین بھی ہے۔ چونکہ انتخابات کے بعد پاکستان سے وفادری کا حلف لینا لازمی قرار پایا ہے اس لئے یہاں کے قوم پرست جو کشمیر کی مکمل آزادی پر یقین رکھتے ہیں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں  حصہ نہیں لیتے۔ جس پر پاکستان کی حمایتی جماعتیں کہتی  ہیں کہ یہ  ایک بہانہ ہے ورنہ قوم پرست یہاں یونین کونسل کی  بھی نشست بھی نہیں جیت سکتے۔

قوم پرستوں کا موقف یہ ہے کہ پاکستان نواز سیاسی جماعتیں ہی کشمیر کی آزادی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ اگر کشمیر آزاد ہوا تو یہاں آج وزیر اعظم اور صدر بننے والے  ایک آزاد ریاست کے اندر شاید یونین کونسل کے ممبر بھی  منتخب  نہ ہوسکیں۔  یہاں دن رات  کشمیر کی آزادی، بھارت کی بربادی تک جنگ کےنعرے گونجتے ہیں۔

وادی کے شمال میں  گریز اور دراس میں شینا بولنے والے درد رہتے ہیں اور کارگل میں بلتی جبکہ لداخ میں بودھ۔ یہ ریاست  کی  جدا حیثیت کی ثقافتی، لسانی اور مذہبی اکائیاں ہیں۔  جرنیل زور آور سنگھ نے سکردو اور استور تک اس علاقے کو فتح  کرکے  مہاراجہ رنجیت سنگھ کے  قلمرو میں شامل کیا تھا۔

رنجیت سنگھ کی خالصہ سرکارکے  پنجاب میں تو 1846 میں ختم  ہونے کے باوجود یہاں آج بھی زمین اسی سرکار کی ہی ہے(سرکاری اراضی کو بندوبست کی اصطلاح  میں  خالصہ سرکار کہتےہیں ) ۔  یہاں کے لوگ  بھی کشمیر کو کشیر کہتے ہیں ۔ یہاں کے لوگ انتخابات میں ووٹ اسی پارٹی کو دیتے ہیں جس کی دہلی میں حکومت ہو ۔ یہاں کے شینا  اور بلتی بولنے والوں کے دل سکردو اور گلگت کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔

کارگل اور دراس میں ہندوستانی فوج کے مقامی سپاہی ظفر وقار تاج کا لکھا گا نا مہ گلیتو ہانوس (مین گلگتی ہوں) پر ساری ساری رات ناچتے ہیں۔ تحریک آزادی  کے سلسلے  کی سرگرمیوں کا یہاں زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ مسئلہ کشمیر  کا مطلب    شینا اور بلتی بولنے والوں کے لئے  استور اور سکردو  کےروڑ  کا  نہ کھلنا ہے۔ جب یہ روڑ کھلیں گے تو ان کے لئے مسئلہ کشمیر حل ہوگیا ہوگا۔

گلگت بلتستان  میں  غذر ، ہنزہ، نگر اور دیامر جو 1846 کے معاہدہ امرتسر کے بعد کشمیر میں شامل کئے گئے تھے  جس کو یہاں کے لوگ اپنے ساتھ دھوکہ سمجھتے ہیں۔یہ لوگ بھی اپنی زبان میں کشمیر کو کشیر ہی کہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ ابھی تک یاسین کے موڈوری کے قلعے کی بربادی کو نہیں بھولے ہیں جہاں لاشیں دفنانے کے لئے بھی  کوئی نہیں بچاتھاجب ڈوگروں نے  جوانوں کو قتل کیا تھا، عورتوں اور بچوں کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لیکر گئے تھے۔

لفظ ڈوگرہ یہاں کسی قوم یا قبیلے کا نام نہیں بلکہ ایک رویے کا نام ہے جو بے رحم اور  ظلم سے بھر پور ہے۔گلگت بلتستان کے لوگ مسئلہ کشمیر کو ہندوستان ا ور پاکستان کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ جب پوچھو  کہ یہ علاقہ تو مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو 1947 میں ان سے آزادی حاصل کی  ہےاب ان سے ہمارا واسطہ نہیں۔

آپ پوچھیں کہ یہاں کے لوگوں نے پھر  کارگل کی جنگ کیوں لڑی تو کہتے ہیں وہ تو پاکستان کی جنگ تھی اور پاکستان ہمارا ملک ہے۔ کشمیری پنڈتوں کے مطابق ان کے آباؤاجداد گلگت کے علاقے سے ہی کشمیر آۓ تھے۔ دوسرے الفاظ میں  کشمیری پنڈت خود کو  بڑے فخر کے ساتھ گلگتی النسل  سمجھتے ہیں۔  جب گلگتیوں سے   پوچھو  کہ  کیاتم کشمیری  یا کشیرو ہو  تو وہ   لڑنے پر اتر آتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کے حل  کے لئے جہاں ہندوستان اور پاکستان کے آپس میں بات چیت کی ضرورت ہے وہاں اس کی مختلف اکائیوں کے درمیان بھی ایک مکالمے کی ضرورت ہے جو ابھی تک شروع نہ ہو پایا ہے۔ کشمیر  پر کوئی بھی فیصلہ یہاں  کے لوگوں کی راۓ  کو شامل کئے بغیر کیا گیا تو دیر پا امن کا ضامن نہیں ہوسکتا۔

کسی بھی صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لئے  اتفاق راۓ کی ضرورت ہے جو لوگوں کے آپس میں میل جول اور بات چیت سے ہی ممکن ہے۔

♦ 

2 Comments