تعلیم ، صحت اور بنیادی ضروریات حکومتی ترجیحات میں نہیں

51f77c557aef6

سن2013 کے عام انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی نواز لیگ کی حکومت وفاقی اور صوبائی سطح پر سڑکوں اور انڈرپاسز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ میٹرو اور اورنج لائن پر کئی سو ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔ناقدین کا خیال ہے کہ ملک کا سماجی شعبہ نواز لیگ کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتا۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ نے رواں سال فروری میں ایک حکومتی رپورٹ شائع کی تھی، جس کے مطابق ملک میں تقریباً چوبیس ملین بچے اسکول نہیں جا پاتے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے اطفال یونیسیف کی سن2015 کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ہر چودہ میں سے ایک پاکستانی بچہ اپنی پہلی سالگرہ منانے سے پہلے ہی وفات پا جاتا ہے اور ہر گیار ہواں بچہ اپنی زندگی کے پانچ برس مکمل کیے بغیر ہی موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔

ایچ آر سی پی کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انیس فیصد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جب کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں یہ شرح تیس فیصد ہے۔ آئی ایل او کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر و جبری مشقت کے شکار بچوں کی تعداد2014میں 168ملین تھی۔ ناقدین کے مطابق سماجی شعبے کی اس بدحالی کے باوجود حکومت آج بھی اس پر نظر کرم کرنے کو تیار نہیں۔

معروف علمی شخصیت پروفیسر عزیز الدین نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نواز لیگ کی حکومت پانچ سال سے آگے سوچنے کی سکت نہیں رکھتی۔ سڑکوں کی تعمیر اور دوسرے انفراسٹرکچر اسکیموں پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں لیکن میں آپ کو لاہور میں ایسے سرکاری اسکول دکھا سکتا ہوں جہاں نہ بیت الخلاء ہے اور نہ ہی پانی دستیاب ہے۔ کئی اسکول فرنیچر سے محروم ہیں اور عمارتیں ان کی خستہ ہیں۔ یہ کرونی کیپٹلزم ہے، جہاں میاں صاحب اپنے رشتہ داروں اور قریبی لوگوں کو نواز رہے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ اِس ترقی سے سرمایہ کاری ہوگی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ آپ دیکھ لیں کہ خود وزیرِ اعظم اور اسحاق ڈار کے بیٹے باہر سرمایہ کاری کر رہے ہیں تو ملک میں پیسہ کون لگائے گا۔ ٹیکسٹائل ہو یا کوئی اور شعبہ ہو، آپ خود حکومت کے اعداد و شمار دیکھ لیں کہ برآمدات کی کیا حالت ہے یہ بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہیں‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نواز لیگ ہر کام میں جلد بازی کرتی ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی پروجیکٹ کی لاگت بڑھ جاتی ہے، ’’انہوں نے میڑو میں جلدی کی اور اس کی لاگت میں اضافہ ہوا۔ اب یہ اورنج لائن میں جلدی کر رہے تھے اور اُس کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا۔ عدالت کے حکم کی وجہ سے اب کام میں تاخیر ہوگی اور لاگت میں اضافہ ہوگا‘‘۔

معروف تجزیہ نگار قاضی سعید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع، عالمی مالیاتی اداروں کی ناقص پالیسیوں اور حکومتی اخراجات کی نظر ہوجاتا ہے۔ پھر میاں صاحب جو عوام کے پیسوں سے پروجیکٹ بناتے ہیں وہ منافع خوروں کے لئے سود مند ہوتے ہیں عوام کو اِس سے کم ہی فائد ہ ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ کرشمہ لبرل اکانومی کا ہے جس کے میاں صاحب سمیت دنیا میں کئی علمبردار ہیں۔ ایک طرف سینکڑوں ارب انفراسٹرکچر پر لگائے جارہے ہیں اور دوسری طرف گیارہ سو پچاس بچے روزانہ ایسی بیماریوں سے مر رہے ہیں، جن پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے‘‘۔

معروف سیاسی مبصر سہیل وڑائچ نے نواز لیگ کی پالیسوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’نواز لیگ انتخابی سیاست کرتی ہے اور اس میں اس طرح کے پروجیکٹس لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے ہزاروں مڈ وائف کا تقرر کیا، جو بہت اچھا قدم تھا لیکن لوگوں نے پی پی کو ووٹ نہیں دیا لیکن میڑو اور موٹروے آج بھی نون لیگ کو انتخابات جتوا رہی ہیں۔ میرے خیال میں میاں صاحب سمجھتے ہیں کہ ملک میں ترقی لانے کے لئے سب سے پہلے انفراسڑکچر کو بہتر کرنا چاہیے۔ اُن کی یہ سوچ نوے کی دہائی سے ہے اور وہ اِس پر ہی عمل کر رہے ہیں‘‘۔

DW