نواز شریف کی تقریر پر بھارت و افغانستان کا ردعمل

018753838_30300

وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے اپنے خطاب میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے کیے جانے والے ’مظالم‘ کی تحقیقات کرے۔

بدھ اکیس ستمبر کو نیویارک میں جمع دنیا بھر کے رہنماؤں سے اپنے خطاب میں پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ جموں و کشمیر میں ’بے گناہ کشمیری بچوں، خواتین اور مردوں کو ہلاک، اندھا اور زخمی کیا جا رہا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ اپنے حقوق کے لیے کشمیریوں کی جدوجہد کو ہمیشہ کی طرح بھارت کی نصف ملین سے زائد سپاہیوں پر مشتمل قابض فوج کی طرف سے بے رحمی سے کچلا جا رہا ہے۔

نواز شریف نے اپنے خطاب میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان الدین وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کی بھی مذمت کی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان بھارت کی ’بے مثال‘ اسلحہ بندی کو نظر انداز نہیں کر سکتا اور ’حریف کو خائف رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا‘۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی حکمران پچھلے پچاس سالوں سے اسی قسم کی تقریریں کرتے چلے آرہے ہیں مگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔اگر پاکستان واقعی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے پراکسی وار بند کرنی پڑے گی جو اس نے مذہبی انتہا پسندوں کے ذریعے جاری رکھی ہوئی ہے۔

جبکہ بھارتی وزیر خارجہ برائے مملکت ایم جے اکبر نے نواز شریف کی تقریرکے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے ایک دہشت گرد کی ستائش سنی ہے ۔ برہان وانی در اصل جزب المجاہدین کا ایک کمانڈر تھا ۔ یہ تنظیم بین الاقوامی برادری میں ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر مشہور ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے در اصل یہ خود پر الزام عائد کرلیا گیا ہے ۔ ہم نے ایسی تقریر سنی ہے جو دھمکیوں اور خطرہ سے پر تھی اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ در اصل بڑھتی ہوئی لا شعوری ہے اور حقائق کی توہین ہے ۔

اقوم متحدہ میں بھارتی مندوب نے نوازشریف کی تقریر کے جواب میں کہا کہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی دہشت گردی ہے ۔ اگر یہی دہشت گردی سرکاری پالیسی کے حصے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے تو یہ جنگی جرم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک اور ہمارے پڑوسی آج جس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں وہ در اصل پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کی دیرینہ پالیسی کا حصہ ہے ۔ اس صورتحال کے عواقب اس علاقے سے پرے چلے گئے ہیں۔

بھارتی مندوب نے کہا کہ ہندوستان ‘ پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک کے طور پر دیکھتا ہے جہاں سے کئی بلین ڈالرز دہشت گرد گروپس کی تربیت ‘ فنانسنگ اور تائید کیلئے خرچ کردئے جاتے ہیں۔ اس رقم کا بڑا حصہ بین الاقوامی امداد کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند پاکستان کے پڑوسی ممالک کے خلاف بالواسطہ جنگ شروع کر رکھے ہیں۔

جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر اور ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے سرغنہ ذکی الرحمن لکھوی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گرد تنظیمیں اور ان کے قائدین پاکستان کی گلیوں میں پوری آزادی کے ساتھ گھوم رہے ہیں اور سرکاری تائید سے کام کر رہے ہیں۔ ان میں کئی ایسے بھی ہیں جنہیں اقوام متحدہ نے بھی شناخت کیا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام وہاں چندے جمع کرتی ہیں۔ ہم اسلام آباد حکومت کی بلیک میل کی پالیسی کے آگے جھکنے والے نہیں ہیں جو ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کو اپنی پالیسی کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔

بھارت کےبعد افغانستان کے نمائندے نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردوں کی معاونت کا الزام لگایا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنی افتتاحی تقریر میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا جوکہ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کا مظہر ہے۔ مبصرین نے وزیر اعظم کی اس بات کو بھی کوئی اہمیت نہ دی کہ انہوں نے بھارت کی مداخلت کے ثبوت سیکرٹری جنرل بان کی مون کو پیش کیے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکمران پچھلے کئی سالوں سے بھارتی مداخلت کے ثبوت امریکہ اور اقوام متحدہ سے شئیر کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا۔

DW/News Desk

Comments are closed.