ریاستی اداروں کی بدمعاشیاں 

12491863_939910766100245_4230327276596795234_oعظمیٰ ناصر 

پاکستانی ریاست اور معاشرہ شاید اس بات پر اتفاق کر چکا ہے کہ شہریوں کو ان کے بنیادی اور انسانی حقوق کی کوئی ضرورت نہیں ہے جوآئین پاکستان میں بتائے گئے ہیں ۔ریاستی ادارے جیسے چاہیں ایک عام انسان سے اس کے بنیادی حقوق چھیننے کی بھرپور طاقت اور اجازت رکھتے ہیں۔وہ جب چاہیں شعوری بدمعاشی کے ذریعے جھوٹ،فریب،دھونس،ظلم و جبر کا سہارا لے کر کسی بھی شخص کو ایک آزاد اور بے خوف زندگی گزارنے سے محروم کر سکتے ہیں ۔

پاکستان میں نافذ قوانین کے مطابق کسی بھی گرفتار شدہ شخص کو خفیہ خانوں میں بند نہیں رکھا جا سکتا ۔گرفتاری کے وقت الزامات بتانا ضروری ہیں ،گرفتار شدہ شخص کو بلا تا خیر مجسٹریٹ کے سا منے پیش کرنا ضروری ہے ۔ مگر صورت حال بالکل اس سے مختلف ہوتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں جب چاہیں کسی بھی شہری کو گرفتار کریں اور بغیر کسی عدالت میں پیش کیے جب تک چاہیں زیر حراست رکھیں ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔

اگر ورثا عدالتوں کا دروازہ کٹھکٹھائیں بھی تو نتیجہ زیرو نکلتا ہے ۔کیونکہ ریاستی ادارے ان سوالات کا جواب دینا اپنی تو ہین سمجھتے ہیں ۔کہ ایک گرفتار شدہ شخص کو چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا جاتا ؟ کیا زیر حراست شخص کا اعترافی بیان واقعی سچ ہے یا کسی بد ترین جسمانی اور ذ ہنی تشدد کا نتیجہ ہے ۔کیونکہ ہم ایک ایسامعاشرہ بن چکے ہیں جہاں نا انصافیوں پر سوال اٹھانا اپنا وقت ضائع کرنا سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی فرد یہ غلطی کر لے تو اسے اس کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے ۔ 

آ ئین کا آرٹیکل 9 کہتا ہے کسی بھی شخص کو اس کی زندگی اور آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا اگر واقعتا ہی کسی فرد سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو اس کے لیے قانون میں درج طریقہ کار کے مطابق کاروائی کی جائے ۔مگر یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے لیے واضح قانون سازی نہیں کی جاتی اور ان کے یہ اختیارات ختم نہیں کیے جاتے کہ وہ کسی بھی شہری کو بغیر عدالت میں پیش کیے زیر حراست نہیں رکھ سکتے۔ چاہے وہ دہشت گرد ہی کیوں نہ ہو ۔

اور اگر کوئی مجرم ہے تو اس کو عدالتی طریقہ کا ر میں لا کر سزا دی جائے نہ کے سیف ہاوسز میں رکھ کے مار دیا جائے جس کی اطلاع نہ تو کسی عدالت میں ہو اور نا ہی ورثاء کو ۔یہی صورت حال پولیس کی ہے جہاں قانون کو اپنی منشاء کے مطا بق استعمال کیا جاتا ہے ۔با اثر افراد کے زیر اثر عام شہریوں کے ساتھ وہ وہ ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے کہ انسانیت کا نپ کے رہ جاتی ہے ۔ایسی ایف ائی آرز جن میں ملزم نا مزد نہیں کیے جاتے ان میں جب چاہیں کسی بھی شہری کا نام درج کر دیا جاتا ہے ۔

یہ کھیل پنجاب میں عام ہے ذاتی رنجش کا بدلہ لینے کے لیے اس حربے کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے ۔اور یوں ایک عام اور عزت دار شہری ڈاکو،اغواء کار،منشیات فروش،ویزا ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا بنا دیا جاتا ہے ۔تفتیش کے نام پر تشدد کے ذریعہ ہر جرم کا اعتراف کروا لیا جاتا ہے ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف بار بار پولیس اصلاحات کے نعرے لگاتے رہتے ہیں مگر پنجاب میں پولیس گردی کو فروغ دینے میں ان کا بہت زیادہ عمل دخل ہے اور یہی کام اب ان کے صاحبزادے حمزہ شریف کر رہے ہیں ۔

پنجاب میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی پولیس گردی کا نشانہ بنتی ہیں ۔خواتین کے حوالے سے پولیس کا رویہ انتہائی شرمناک ہے کسی بھی جرم کے الزام میں گرفتار خاتون کی تفتیش کے لیے مرد پولیس آفیسر کو تعینات کیا جاتا ہے جو دوران تفتیش خواتین کے ساتھ غیر انسانی رویہ اپناتے ہیں نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی تشدد بھی کیا جاتا ہے جس میں الٹا لٹکانے سے لے کر ہر طرح کا غیر انسانی برتاؤ کیا جاتا ہے جس کے نتیجے اپنی مرضی کے اعترافی بیان لیے جاتے ہیں ۔

یہ سارے ہتھکنڈے ہمیں تحفظ دینے والے بلا جھجک کرتے ہیں ۔ فرد سے لے کر تحریکوں کو کچلنے سیاسی موومنٹ کو روکنے لوگوں کو سیاسی وفا داریاں بدلنے پر مجبور کرنے سے لیے کر ہر طرح کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہ حربے سالوں سے برتے جا رہے ہیں مگر ان اداروں کو لگام ڈالنے والا کوئی نہیں ،کبھی غداری تو کبھی امن کے نام پر یہ کھیل چلتا رہے گا ۔ 

2 Comments