جان بخشی جائے، میں عرض کروں-2

asif-qazi

قاضی آصف


جناح نے کہا جو مسلمان نہیں ہیں وہ اس علاقے سے چلے جائیں

خدا مشہور کالمسٹ اردشیر کاوس جی کو اچھی جگہ پہ رکھے اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں، جب زندہ تھے، تو ان سے اچھی گپ شپ رہتی تھی۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ مسلمانوں میں محمد علی جناح اس لیے بہتر بن سکے کیوں کہ ان کو پارسیوں کی صحبت نصیب ہوئی۔

ہم بہت خوش فہمیوں میں رہنے والے لوگ ہیں۔ حقائق سے نا آشنائی اس کی وجہ ہے۔ وہ حقائق جو چھپائے گئے یا ہم نے ان تک رسائی کی کوشش نہیں کی۔ اگر کوئی پہنچ بھی گیا تو، یہ سوچ کہ اب ان کو بیان کرنے کا کیا فائدہ، وقت تو گذر گیا۔ جب انگریزوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو اس سے کئی سال پہلے اپنے گماشتے بھیجے اور یہاں کی تاریخ، محل وقوع، لوگوں کی نفسیات، رہن سہن سے شناسائی حاصل کی، رپورٹس مرتب کیں۔ قبضہ کیا اور اس کو طویل عرصہ بحال رکھا۔

ہمیں اپنی موجودہ صورتحال کو سمجھنے کیلئے، کہ ہم اس مصیبت میں کیوں پھنسے ہیں، ضروری ہے کہ ماضی کے حقائق تک رسائی حاصل کریں، تجزیہ کریں اور مستقبل کی کوئی راہ متعین کریں۔

اسی سلسلے میں تحقیق کے دوران کچھ ایسی دستاویز دیکھنے کا موقع ملا، جو ابھی تک عام نہیں ہوئیں یا ان کو دیکھنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔

ہم قائداعظم محمد علی جناح کی گیارہ ستمبر کی تقریر کا حوالہ بڑی شد ومد سے دیتے ہیں کہ وہ ہی پاکستان چاہیئے جو جناح کا تھا۔ جناح کا پاکستان کیا تھا، قیام سے پہلے کی صورتحال کیا تھی؟ یہ ایک پہیلی تو نہیں لیکن تحقیق طلب ضرور ہے۔

میں یہاں ایک ایسی دستاویز کی نقل پیش کرنا چاہوں گا، جس کو جب میں نے پڑھا، کئی روز تک صدمے میں رہا۔ اس صدمے کی ایک وجہ یہ کہ قائداعظم ایسا کیسے کہہ یا سوچ سکتے تھے؟ لیکن انسان ہیں کچھ بھی کہا اور سوچا جا سکتا ہے۔

برٹش لائبریری لندن میں ایسی دستاویز بھی موجود ہیں جو غیرمنقسم ہندوستان کے صوبوں کے گورنرز نے خفیہ رپورٹ کے تحت اپنی مرکزی سرکار کو روانہ کی تھیں۔

%d8%af%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%88%db%8c%d8%b2

اس میں ایک دستاویز15 ستمبر 1945ء کو سندھ سے روانہ کی گئی جو اس وقت صوبہ سندھ میں پریس کی صورتحال سے متعلق تھی۔ اس وقت گورنرمسٹر ھگ ڈو(کراچی میں موجود ڈو میڈیکل کالج اسی کے نام سے منسوب ہے) کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے میں قائد اعظم کے کراچی کے دورے کا تذکرہ ہے۔

(اس دستاویز کی نقل قارئین کیلئے یہاں بھی پیش کی جاتی ہے) جس میں ان کی تقریر بھی شامل ہے جوانہوں نے سندھ مسلم لیگ کے رہنماوں کے درمیان موجود اختلافات ختم کرنے کیلئے کی تھی۔ اس تقریرکے دوران وہ کہتے ہیں؛

سندھ مسلمانوں کیلئے متبرک ہے کیوں کہ ہندوستان میں اسلام یہاں سے داخل ہوا۔ جس کی وجہ سے یہ علاقہ پاکستان کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں جو غیرمسلم رہتے ہیں وہ غیرملکی ہیں۔ان کو یہ جگہ خالی کرنی پڑے گی۔

یہ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح بھی ایسے خیالات اور سوچ رکھ سکتے تھے؟ کہ ہزاروں سالوں سے یہاں رہنے والے مختلف مذاہب کے لوگ دیکھتے دیکھتے اپنی دھرتی پر غیرملکی بن گئے؟؟ لیکن کیا کریں کہ یہ تاریخی حقیقت ہے۔

%d8%af%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%88%db%8c%d8%b2-1

اس وقت کے گورنرسندھ ہگ ڈو اپنی تفصیلی رپورٹ کے ایک حصے میں لکھتے ہیں کہ ایک اخبارسندھ آبزرورنے جناح کوآڑے ہاتھوں لیا ہے؛ جناح اس تقریر میں اپنے اصل رنگ میں سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے متبرک پاکستان کی سرزمین سے غیرمسلموں کے قتل غارت گری کا انکشاف کیا ہے۔

ان کے نئے موقف کے مطابق ہندو، سکھ، پارسی اور عیسائیوں کونام نہاد پاکستان کے صوبوں میں رہنے کی کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے اگر یہاں سے ہجرت نہیں کی تو ان کے ساتھ غیرملکیوں کے طور پررویہ رکھا جائیگا۔ ان کو شہریت کے کوئی حقوق نہیں ہونگے۔وہ ایمان والوں کے غلاموں کے طور پر رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جناح جن کوغیرملکی کہتے ہیں وہ ہندو کسی بھی طور پر غیرملکی نہیں اصل میں غیر ملکی تو مسلمان ہیں، ان کو یہ صوبہ خالی کر کے اپنے روحانی مقام سعودی چلے جانا چاہیئے۔

یہ باتیں تسلیم کرنا اور ہضم کرنا آسان نہیں۔ قائد اعظم کے بہت سے خیالات ہیں جو بعد میں مختلف آئے لیکن اپنی تاریخ میں یہ صورتحال بھی تھی۔ اقلیتوں کے بارے میں سوچ واضح نہیں تھی؟؟  سوال پھر ریاست کےبیانیئے کا ہے۔ کیا ہم یہ ہی، اسی قسم کا ملک بنانا چاہتے تھے۔ اگر ہاں تو ستر سالوں کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اب ملک کی بہتری میں تبدیلی لانا ممکن ہے؟

♠ 

پہلا حصہ


Comments are closed.