امریکی عوام کی خاموش بغاوت

12491863_939910766100245_4230327276596795234_o

عظمیٰ ناصر 


کون کہہ سکتا تھا کہ ایک کل وقتی غیر سنجیدہ شخص دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کا صدر منتخب ہو جائے گا ۔ٹرمپ کی کامیابی دنیا کے لیے حیران کن تھی کارپوریٹ میڈیا سے لے کر تجزیہ نگار اور دانشور ہیلری کو امریکہ کی صدر دیکھ رہے تھے ،مگر دیکھتے دیکھتے صورت حال بدل گئی یہ بات عیاں ہو گئی کہ امریکی عوام نے ہیلری کو مسترد کر دیا ہے ۔

ٹرمپ کی کامیابی اور ہیلری کی نا کامی کے پیچھے ایک نہیں بے شمار عوامل تھے جس میں ، انتخابی مہم میں دیے گئے نعرے،ہیلری کی سابقہ پالیسیاں خاص طور پر خلیجی ممالک او ر ایشیاء کے بارے میں کئے گئے فیصلے ،اور تیسرا عوام کا خاموش ری ایکشن جنہوں نے ہیلری دور کی تمام پالیسیوں کورد کر د یا اسے امریکی عوام کی خاموش بغاوت بھی کہنا درست ہوگایا یوں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی سپر پاو ر اب انقلاب کی طرف جا رہی ہے۔

بڑے عرصہ سے دنیا میں یہ محسو س کیا جا رہا تھا کہ امریکی عوام پر ایک جمود کی کیفیت طاری ہے وہ کسی بھی نا انصافی یا ملکی پالیسی پر بولنے کو تیار نہیں مگرحالیہ الیکشن سے یہ امید پیدا ہو ئی ہے کہ امریکہ میں بھی بغاوت سر اٹھا رہی ہے ٹر مپ جیسے بنیاد پرست کو منتخب کرنا امریکی عوام کی سابقہ پالیسیوں سے اکتا ہٹ کی غمازی کرتی ہے جس میں امریکی حکمرانوں کا دنیا پر جنگیں مسلط کرنے سمیت پوری دنیا کواپنی رعایا سمجھنا ہے ۔

عراق ،افغانستان،لیبیا،شام ،پاکستان میں امریکہ کا فاشسٹ رول کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔سو امریکی عوام کی ٹرمپ کو منتخب کرنے کی غلطی سابقہ غلطیوں کا اعتراف ہے ،کہا جاتا ہے انقلاب سے پہلے رد انقلاب بھی انقلاب کی طرف پیش قدمی کا شاخسانہ ہوتا ہے ،جب قومیں ایسی غلطیاں کرتی جو امریکی عوام کرتی آرہی ہے تووہاں سے انقلاب پھوٹتا ہے ۔ اب دنیا جو دم سادھے امریکی الیکشن کے نتائج کو دیکھ ر ہی تھی اب اس کے بعد اگلے چار سال ٹرمپ کی پالیسیاں اور اس کے نتائج کیا ہوں گے اس پہ سوچ بچار میں ہے ۔

ٹرمپ کیانئی پالیسیاں لائے گا خاص طور پر ایشیاء کے حوالے سے ،ٹرمپ کا انڈیا کی طرف رجحان پاکستان کو خوفزدہ کررہا ہے ،مگر لگتا یوں ہے کہ ٹرمپ اپنے دور میں خلیجی ممالک کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے کرے گا ،مگر ٹرمپ کے بارے میں تجزیہ کرنے والوں کو یہ بھی خیال رکھنا چاہے کہ ٹرمپ کوئی فیصلہ امریکی اسٹبلیشمنٹ کے بغیر نہیں کر سکے گا اور اس میں کا نگریس کا بھی بھرپور عمل دخل ہو گا ۔

ایک ڈگمگاتی معیشت کے ساتھ امریکہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا ،اب رہے ٹرمپ کے انتخابی نعرے تو دنیا بھر میں انتخابی نعرے، نعرے ہی رہتے ہیں انہیں سو فیصد عملی جا مہ پہنانا ممکن نہیں ہو تا۔ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ٹیکس میں چھوٹ دینے کی بات کی ٹیکس کو 35 فیصد سے 15 فیصد پر لا نے کا دعوی کیا جس کو پورا کرنا یقیناًٹرمپ کے لیے مشکل ہو گا۔ اگر وہ اس وعدے کو پورا کر دیتے ہیں تو ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی جسے وہ ترقی پذیر ممالک میں بھی خرچ کر تا ہے اور اس کے بدلے میں اپنا سیاسی اثر ورسوخ بڑھا کر ان کی خارجہ پالیسی سے داخلہ پا لیسی تک اثر انداز ہوتا ہے۔

جب وہ یہ پیسہ دینا بند کر دے گا تودنیا میں خود بخود اس کا رول محدود ہو جائے گا ، جو خود امریکہ کو بھی گوارا نہیں کیونکہ اسے پتہ ہے اس کا رول جیسے کم ہوگا اس کا حریف چین اس کی جگہ لے لے گا۔رہی بات تارکین وطن کو امریکہ سے نکالنے کی تو یہ ایک نئے بحران کو جنم دے گا۔ یہ نعرے کی حد تک درست ہے جس کا فائدہ بھی ٹرمپ الیکشن میں لیے چکا ہے ، مگر ایسے تارکین وطن جو دو نسلوں سے وہاں قیام پذیر ہیں ان کو بے دخل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔

یہ ہوسکتا ہے کہ امریکہ آئندہ کے لیے تارکین وطن کے متعلق کوئی نئی پالیسی متعارف کروائے ۔تیسر ا ٹرمپ کا پا پولر نعرہ تھا ملازمتیں دینے کا تھا ۔ اس میں وہ کسی حد تک کا میاب ہوتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ دیکھنا ہے کہ ٹرمپ کادور دنیا کو امریکہ کے قریب لاتا ہے یا دور لے جاتا ہے بہرحال ٹرمپ کادور غیر معمولی ہوگا۔

Comments are closed.