عمران خان کا دھرنا اورمریضانہ نرگِسیت

asif-javaid4-252x300آصف جاوید

پاکستان تحریکِ انصاف  کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے۔ پرامن احتجاج جمہوریت کا حسن ہے اور  یہ ہمارا جمہوری حق ہے۔ عمران خان کی ا ِس بات سے کوئی بھی جمہوریت پسند انکار نہیں کرسکتا۔ عمران خان کا موقّف بالکل جائز موقّف ہے اور ہم  سول سوسائٹی کے رکن اور ذمّہ دار شہری ہونے کے ناطے عمران خان صاحب کے اس اصولی موقّف  کی  بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پر امن احتجاج کہاں کرنا چاہئے؟  

سڑکوں اور بازاروں میں یا جمہوری طریقوں سے پارلیمنٹ کے اندر؟

ہمارا یہ بھی موقّف ہے کہ کوئی بھی  احتجاج قانون اور آئین کے دائرے کے اندر رہ کر ہی جمہوریت کا حصہ بنتا ہے۔ جب  کوئی قانون اور آئین سے ہی بالا  تر ہو جا ئے ، ریاست  کا کاروبار معطّل کردے اورسب ریاستی اداروں کو مسترد  کرکے  برملا اعلان کردےکہ ہم  منتخب جمہوری  حکومت ِوقت کو چلنے نہیں دیں گے۔ پرزور احتجاج کریں گے،  عوام کی روزمرّہ زندگی کو معطّل کردیں گے،  پچاس لاکھ  کی آبادی   کے شہر کی  زندگی کواجیرن بنا د یں گے۔  نہ کوئی شہر میں آ سکے گا نہ جا سکے گا۔ کوئی دفتر، کوئی کاروبار، کوئی اسکول ، کوئی اسپتال نہ آ سکے گا، اور نہ جا سکے گا۔ تو جنابِ من پھر  اس کو جمہوریت نہیں  بلکہ بدمعاشی   کہیں گے۔ ۔ اور  سیاست  کی زبان میں  اسے فاشِزازم  کہا جائیگا۔

ہم مان لیتے ہیں کہ نواز شریف  صاحب کرپٹ ہیں،  اور اُن کا کا سارا خاندان  بھی کرپٹ ہے۔مگر قانون ہاتھ میں لے کر اور جمہوریت کا تختہ الٹ کر نواز شریف اور اُن کے خاندان کو اس کی کرپشن کی سزا نہیں دی جاسکتی ہے، بلکہ اس کی کرپشن کو عدالت میں ثابت کرکے ہی نواز شریف اینڈ کمپنی کو سزا دلائی جاسکتی ہے۔ نواز شریف کے خلاف کورٹ میں عدالتی کمیشن کے لئے درخواست کی جاسکتی ہے۔  سپریم کورٹ کے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کے ذریعے الزامات کی چھان بیں کروائی جاسکتی ہے۔ پارلیمنٹ میں نواز شریف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاکر اُن کو اقتدار سے علیحدہ ہونے یا مستعفی ہونے کے لئے مجبور کیا جاسکتا ہے۔  بہت سارے جمہوری طریقے ہیں۔

مگر دھرنا اور وہ بھی پر تشدّد دھرنا جس میں انسانی جانیں جانے کا شدید خطرہ موجود ہو،  مارشل لاء آنے کا شدید خطرہ موجود ہو، ایسے کسی دھرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ہے۔جمہوریت کا ایک ہی پیمانہ ہے۔ وہ ہے انتخابات۔ قومی اسمبلی کی 350 سیٹوں میں  خان صاحِب کی جماعت کی صرف 35 سیٹیں ہیں ۔ خان صاحب کو کسی بھی غیر جمہوری اور پر تشدّد طریقے کو اپنا کر نواز شریف حکومت کو الٹنے کا کوئی  اخلاقی جواز بنتا ہی نہیں ہے۔ ۔ خان صاحب دو سال  قبل  اسلام آباد میں 4 مہینے  کھُل اپنا  رنگ دکھا چکے ہیں۔  مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا،اور دنیا میں پاکستان مفت میں   بدنام ہوگیا۔

ہمیں عمران خان سے ہمدردی ہے، مگر ان کا طریقہ کار غلط ہے۔   باشعور تبصرہ نگار اور  سنجیدہ اہلِ سیاست عمران خان صاحب کو مشورہ دے رہے ہیں کہ جناب  پُر امن پارلیمانی  طریقے استعمال کریں، پرتشدّد  غیر جمہوری طریقوں سے پرہیز کریں۔  مگر عمران خان اپنی ضِد اور خود سری میں کسی کی نہیں سنتے۔ خود عمران خان کی شخصیت میں بڑا تضاد ہے۔وہ بات  جمہوریت کی کرتے ہیں، مگر  ہر اس  جمہوری، آئینی ، قانونی ادارے کی تذلیل کرتے ہیں جو اُن  کی مرضی کے مطابق  کام نہیں کرتا ہے۔ ۔ عمران خان کا رویّہ قطعی  غیر جذباتی ، ذمّہ دارانہ اور شائستہ نہیں ہوتا۔

عمران خان ہر وقت  گلی محلّے کے بدمعاش کی طرح بدمعاشی، دادا گیری، دھونس پر تلے رہتے ہیں۔ ہمارہ معاشرہ گواہ ہے کہ گلی محلّوں کے بدمعاشوں کا رویّہ  کسی اصول،  کسی تہذیب،  کسی ادب، کسی قانون کی پرواہ نہیں کرتا۔   اور عمران خان بھی کسی جمہوری اصول  کی پرواہ نہیں کرتے۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ عمران خان شدید ہیجان میں مبتلا  رہتے ہیں۔ بغاوت کا اعلان بھی  کررہے ہوتے ہیں، اور ساتھ ہی  یہ بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ، یہ پرامن جمہوری احتجاج ہے۔! پاکستان کے دارالحکومت کو لاک آوٹ کرد ینا   پرامن احتجاجہرگز نہیں ہے۔

کسی بھی لیڈر کا  متوازن نفسیاتی رویّہ   عوامی خدمت  و رہنمائی کے لئے بہت ضروری ہے۔  عمران خان کا  غیر متوازن اور متضاد رویّہ اّن کے ذہنی خلفشار کی نشاندہی کرتا ہے۔ عمران ضدّی، خودسر اور غیر مفاہمتی رویّے کے باعث اکثر ناکامی کا شکار ہوتے ہیں۔ اور اپنے رویّے کے منفی پہلووں پر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ اپنی  اِن اداوں پر فریفتہ بھی رہتے ہیں۔  علم نفسیات کی اصطلاح میں ایسی  انسانی  ذہنی کیفیت کو خود پسندی  یا  نرگسیت کہتے ہیں۔

بیماری کی حد تک بڑھی ہوئی خود پسندی ، گرد و پیش کے حقائق سے آنکھیں چُرا کر اپنے آپ کو دنیا کی اہم ترین حقیقت سمجھنااور اپنی حماقتوں پر قائم رہنا ، اپنی ذات کے نشے میں بدمست رہنا  ، یہ سب نرگسی کیفیت کی علامتیں ہیں۔ اور ہمارے خان صاحب پر پوری طرح منطبق ہوتی ہیں۔

مفکّر دانشور اور سماجی سائنسدان مبارک حیدر اپنی کتاب تہذیبی نرگسیتمیں لکھتے ہیں کہ  صحت مند نرگسیت کوئی عیب نہیں ہے۔ نرگسیت کی صحت مند حالتیں تو ہم سب میں موجود ہوتی ہیں۔  یعنی  ہماری انا، خود اعتمادی، عزّت نفس ، مسابقت، جدوجہد،  وغیرہ وغیرہ  یہ سب کی سب صحت مند  نرگسی کیفیات ہیں۔

مگر  مریضانہ نرگسیت قوم و معاشرے کے لئے شدید مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔  اور قومی فلاح و بہبود، اور انسانی برادی کی اجتماعی نشو نما کا راستہ روک سکتی ہے۔ عمران خان کی  یہی مریضانہ نرگسیت اس وقت پاکستان  کے جمہوری نظام میں ہلچل کا باعث بنی ہوئی ہے۔

کتاب  کے ایک باب نرگسیت کا مرض”  میں مبارک حیدر نے نرگسیت کے مرض کی دس علامات کو واضح طور  تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ دس کی دس علامات عمران خان کی شخصیت پر مکمّل طور پر منطبق ہوتی ہیں۔  یہ بہت خطرناک علامتیں ہیں۔  عام آدمی اگر اس مرض کا شکار ہو تو، مسئلہ اتنا اہم نہیں ہوتا، مگر جب ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کا لیڈر جو پاکستان کو تبدیل کرنے اور انقلاب لانے کا عزم دل میں رکھتا ہو،  اگر اُس شخص میں یہ علامات پائی جائیں تو معاملہ تشویشناک ہوجاتا ہے۔

بڑی مشکل سے پاکستان میں جمہوریت (نام کی سہی) بحال ہوئی ہے۔ جمہوری اداروں کو آزادی کے ساتھ کام کا موقعہ ملنا چاہئے۔ جمہوریت کو چلتے رہنا چاہئے۔ چلنے سے ہی چیزیں اور معاملات درست ہوتے ہیں۔ جدید ترین مشینیں جو جدید ترین کمپیوٹرز پر  باقاعدہ  انجینئرنگ ڈیزائن کے ذریعے  ڈیزائن کرکے بنائی جاتی ہیں، اپنے چلنے پر ہی اپنی خامیوں کو دور کرتی ہیں۔ نئی زیرو میٹر گاڑی بھی چند ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ٹیوننگ کے لئے ورکشاپ میں واپس لائی جاتی ہے۔

 کسی فردِ واحد کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ مریضانہ نرگسیت   کے ابتلا کے سبب 20 کروڑ عوام کے مستقبل ، اور جمہوری  نظام کو داو پر لگادے۔  وما علینا الالبلاغ

One Comment