شام میں پاکستانی شیعہ اور تکفیری جہادی

shia-militia-funeral-009

صدیوں سے مذہب کے نام پر غریب عوام کا استحصال جاری ہے۔ آج کے جدید دور میں، ترقی پذیر ممالک میں مذہب ہی وہ واحدہتھیار ہے جسے بالا دست قوتیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔پاکستانی ریاست کی مختصر تاریخ اس استحصال سے بھری پڑی ہے ۔ پاکستان کے غریب عوام ماضی قریب اور حال میں افغانستان، شام اور کشمیر میں سلفی اور دیوبندی جہاد کے نام پر ہلاک ہورہے ہیں تو دوسری طرف شام میں پاکستانی شیعہ بھی اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔

شام کی خانہ جنگی میں ایران کی جانب سےلڑائی کے لیے بھیجے جانے والے ایک ہزار سے زائد ایرانی و پاکستانی جہادی مذہب کے نام پر ہلاک ہو چکے ہیں۔ایران کی جانب سے بھیجے گئے ان جہادیوں کا تعلق شیعہ مذہب سے ہے جو تکفیری جہادیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ان جہادیوں کو ایران شام میں لڑائی کے لیے بھرتی کر رہا ہے۔

جرمن نیو ز ایجنسی ڈوئچے ویلے کے مطابق مبینہ طور پر ایران اپنے حلیف صدر بشارالاسد کی حمایت میں لڑنے کے لیے اب تک ہزاروں جنگ جو شام بھیج چکا ہے۔ منگل کے روز ایران میں سابق فوجیوں کے امور کے سربراہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی طرف سے شام میں بھیجے ہوئے ایک ہزار سے زائد جنگ جو ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایرانی شہدا فاؤنڈیشن‘ اور سابق فوجیوں کے امور کے سربراہ محمد علی شہیدی محلاتی کا تسنیم نیوز ایجنسی سے گفت گو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مزارات کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے بڑھ گئی ہے‘‘۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایران شام میں نہ صرف اپنے فوجی مشیر بھیج چکا ہے بلکہ افغانستان اور پاکستان سے سینکڑوں جنگ جو بھی شام بھیجے گئے ہیں، جو اسد کی فورسز کے ساتھ مل کر لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں ’مزارات کے محافظ‘ کہا جاتا ہے۔

یہ نام شام میں شیعوں کے مقدس مقامات کے حوالے سے رکھا گیا ہے۔ تاہم شہیدی محلاتی کی جانب سے ہلاک ہونے والوں کی شہریت کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہے۔

شام میں نہ صرف ایرانی بلکہ پاکستانی، لبنان کی حزب اللہ، عراقی اور افغانستان کی ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے عسکریت پسند لڑ رہے ہیں۔ ان تمام کی تعیناتی کا مقصد اسد حکومت کی حفاظت کرنا ہے۔

دوسری جانب ایران حکومت ایسے کسی بھی دعوے کو مسترد کرتی ہے کہ ان کے فوجی شام کی لڑائی میں شریک ہیں۔ سرکاری سطح پر جاری ہونے والے بیان کے مطابق پاسداران انقلاب کے بیرونی امور کے شعبے کے صرف مشیر ہی شام اور عراق میں تعینات کیے گئے ہیں۔ اس حکومتی موقف کے برعکس شام میں ایران کے متعدد فوجی اہل کار ہلاک ہو چکے ہیں۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایرانی میڈیا میں نہ صرف ایرانیوں بلکہ افغانیوں اور پاکستانیوں کے ہلاک ہونے کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں اور ان کی تدفین ایران میں ہی کر دی جاتی ہے۔

نیوز ایجنسی رائٹرز کی اطلاعات کے مطابق شام میں لڑنے والے پاکستانی جنگ جو شیعہ عسکری گروپ زینیبون سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا کام شام میں مزار زینب کی حفاظت کے لیے لڑنا بتایا جاتا ہے۔ اس نیوز ایجنسی کے مطابق خطے میں ایسے جنگ جوؤں کی بھرتیاں ایران کے ذریعے ہو رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پاکستانی گروپ زینیبون نے آغاز افغان شیعہ عسکری گروپ فاطمیون سے کیا تھا۔

رائٹرز کی رپورٹوں کے مطابق متعدد افغان عسکریت پسندوں کو شام میں لڑنے کے عوض ایرانی شہریت اور ماہانہ تنخواہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جب کہ پاکستانی گروپ بھی اسی طرح کی مراعات دینے کا وعدہ کر رہا ہے۔

واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو اور پاکستان، ایران کے درمیان تعلقات پر ایک کتاب کے مصنف ایلیکس ویٹینکا کہتے ہیں، ’’شیعہ کمیونٹی کے اندر بہت سے گروپ ایسے ہیں، جو اپنی شناخت کے لیے ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار ہیں اور پاس داران انقلاب اسی چیز کا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘‘۔

DW/News Desk

Comments are closed.