ترکی میں ریپ کو قانونی قرار دینے کا  قانون

18259461_303

ترکی میں صدر ایردوآن کی حکمران جماعت کے ارکان پارلیمان کی طرف سے ایک انتہائی متنازعہ قانون تجویز کر دیا گیا ہے، جس کے تحت جنسی مجرم اپنے جرائم کی شکار خواتین سے شادیاں کر سکیں گے۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس قانونی بل کی منظوری کی صورت میں جنسی جرائم کے مرتکب افراد چند خاص شرائط پوری کرنے پر اپنے جرائم کا نشانہ بننے والی خواتین سے شادی کر کے سزا سے بچ سکیں گے۔

اس مسودہ قانون کی ترک اپوزیشن سیاسی جماعتوں اور خواتین کے حقوق کی بہت سی تنظیموں نے بھرپور مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جماعت پارٹی برائے انصاف اور ترقی یا اے کے پی کے منتخب ارکان کی طرف سے ایوان میں پیش کردہ اس مسودہ قانون نے پارلیمانی کارروائی کا پہلا مرحلہ عبور کر لیا ہے۔ اب آئندہ منگل 22 نومبر کے روز اس مسودے پر انقرہ کی پارلیمان میں باقاعدہ رائے شماری ہو گی۔

اس قانونی مسودے کے ترک سیکولر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ مجوزہ قانون دراصل جبری شادیوں کو قانونی

رنگ دینے کا باعث ہو گا۔ یعنی تب جنسی جرائم کا شکار ہو جانے کی صورت میں ایسی لڑکیوں کی بھی شادی کی جا سکے گی، جو اب تک رائج قانون کے مطابق اپنے نابالغ ہونے کی وجہ سے کم از کم قانونی عمر کو پہنچنے سے پہلے شادی نہیں کر سکتیں۔

حقوق نسواں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ قانون سے نابالغ لڑکیوں کی قانونی شادیوں کے لیے ایک چور دروازہ کھل جائے گا

ناقدین کے بقول اس بل کا ایک دوسرا نقصان یہ بھی ہو گا کہ یوں ایک ایسے سابق قانون کے لیے پھر سے چور دروازہ کھول دیا جائے گا، جسے ترک پارلیمان نے ایک عشرے سے بھی زائد عرصہ قبل خود اس وقت منسوخ کر دیا تھا، جب ترک معاشرہ ترقی پسندی کے ایک دور سے گزر رہا تھا۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ترک شاخ کی ایک عہدیدار بیگم بسداس کا کہنا ہے، ’’اس طرح کا ایک قانون 2005ء سے پہلے تک موجود تھا۔ یعنی کسی کو ریپ والے کرنے یا کسی دوسرے جنسی حملے کے مرتکب کسی شہری کی اگر جنس مخالف سے تعلق رکھنے اور اس جرم کا نشانہ بننے والے کسی دوسرے فرد سے شادی ہو جائے تو ایسا کوئی بھی مجرم سزا سے بچ سکے گا‘‘۔

ماہرین کے مطابق اس مجوزہ قانون کا انسانی سطح پر ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اکثر جنسی جرائم کے مرتکب مرد ہوتے ہیں اور نشانہ بننے والی خواتین۔ ایسی صورت میں بہت سے واقعات میں متعلقہ خاتون کی مجرم مرد سے شادی اسے انصاف دینے کی بجائے اس کے ساتھ عمر بھر کے لیے معاشرتی ظلم ہو گا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی بیگم بسداس کے مطابق ترک خواتین کی تحریک نے ماضی میں رائج اس سابقہ قانون میں سزا سے بچاؤ کی شق کے خاتمے کے لیے بہت جدوجہد کی تھی تا کہ ظالم کی مظلوم سے شادی کو سزا کی منسوخی یا معطلی کے لیے جواز کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے۔

ترکی میں یہ مسودہ قانون اگرچہ بہت متنازعہ ہے تاہم صدر ایردوآن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے زور دے کر کہا ہے کہ مجوزہ قانونی بل میں جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کو کوئی عمومی معافی نہیں دی گئی۔

ڈی پی اے کے مطابق ترکی میں حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ اس قانونی بل میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس کا ممکنہ اطلاق صرف ان جرائم کے واقعات میں کیا جائے گا، جن میں جنسی تعلق کے لیے کوئی تشدد یا طاقت کا استعمال نہ کیا گیا ہو۔

ترک وزیر انصاف بوزداگ کے مطابق پارلیمانی منظوری کی صورت میں اس قانون کے تحت دستیاب امکانات سے قریب تین ہزار تک ترک مرد فائدہ اٹھا سکیں گے۔

DW/News

Comments are closed.